بشر ہو تم تو ذرا احتساب کرلینا

نفیسہ خان
انسان کیا ہے۔؟ ایک گوشت پوست اور ہڈیوں سے بنا پتلا ہی تو ہے جس میں اللہ نے روح پھونک دی ہے۔ بنا روح کے جسم ایک نعش ہے جو روح کے نکل جانے کے بعد تعفن پیدا کرتی ہے اور اس کے چاہنے والے بھی اسے جلد سے جلد گھر سے باہر نکال دینے کی کوشش کرتے ہیں اور احکام رسول بھی یہی ہیں کہ جلد سے جلد پیوندخاک کردیا جائے۔ پیدائش و موت کے درمیان کا وقفہ بس یوں سمجھئے کہ
اذاں بہ وقتِ ولادت نماز بعد وفات
بس اتنی دیر کا جھگڑا ہے زندگی کے لئے
جسم دفن کیا گیا یا جل کر راکھ ہوگیا تو پھر روح کا کیا ہوا۔؟ وہ کہاں گئی؟ جسم کا ہر حصہ فنا ہوگیا، لیکن روح تو اس فنا سے پہلے جسم چھوڑ چکی تھی وہ کہاں تحلیل ہوگئی۔؟ دراصل روح ہے کیا چیز۔؟ ماں کی کوکھ میں پنپنے والے خون و گوشت کے لوتھڑے میں تین چار ماہ بعد داخل ہوتی ہے اور پھر ایک طاقت بن جاتی ہے جو اپنا وجود رکھتی ضرور ہے مگر دکھائی نہیں دیتی۔ اسلامی عقائد روح کے پرواز کرجانے کے بعد روح اور جسم کے تعلق سے بحث نہیں کرتے بلکہ انسان اور اس کے نیک اعمال و آخرت کی تیاری پر ساری توجہ مبذول کرتے ہیں۔ قرآن جو ایک ضابطہ اخلاق و عمل ہے مکمل انسان بن کر ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کرنے کی تلقین کرتا ہے، لیکن غیرمسلم قوموں کے پاس یہ عقیدہ ہیکہ روح اپنی بقاء کے لئے فوراً دوسرے جسم کو اپنا لیتی ہے اور جب تک اسے کوئی مادی جسم نہیں ملتا وہ بھٹکتی رہتی ہے۔

انسان بدخو، بدکردار، بدزبان ہو تو عموماً کہا جاتا ہیکہ ضرور پچھلے جنم میں کتا یا خنزیر رہا ہوگا کہ اس کی خصلتیں اس شخص میں عود کر آئی ہیں لیکن یہ بھی طئے ہیکہ انسان کی روح انسان میں اور چرند پرند کی روحیں انہیں کے جسموں میں داخل ہوتی ہیں کبھی ایسے فرد کی موت ہوجائے جس سے والہانہ محبت و لگاؤ ہو تو اسے رات دن یاد کرکے رونا بھی غلط مانا جاتا ہے کہ جسم تو ناپید ہوگیا لیکن اس کی روح جو دوسرے جسم میں تحلیل ہوچکی ہے وہ بیقرار ہوجاتی ہے ان کا ایقان ہیکہ اکثر چھوٹے بچے بات بے بات گھنٹوں روتے ہیں اور ماں اسے سنبھالتے سنبھالتے عاجز آجاتی ہے کسی کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ اس کے رونے کی وجہ کیا ہے۔ غیرمسلم افراد کا خیال ہیکہ کیونکہ وہ روح پہلے جس جسم میں تھی اس کے متعلقین اس کے لئے تڑپتے روتے ہیں اس طرح مرنے والے کی روح کبھی بے چین ہوکر رو اٹھتی ہے اس لئے رونے سے روکا جاتا ہے اور صبروسکون کی تلقین کی جاتی ہے کہ گذرجانے والے غم و اندوہ کے حادثات کو فراموش کردینا ہی بہتر ہوتا ہے جو جانگداز لمحے بیت چکے ہیں۔ وہ اب ہماری دسترس میں نہیں آ سکتے اور آنے والے کل سے بھی ہم قطعی ناواقف ہیں تاکید کی جاتی ہیکہ ایک جسم سے نکلی ہوئی روح کو پوری طور پر دوسرے جسم میں سما لینے دیا جائے تاکہ وہ مکمل طور پر اس نئے جسم کو اپنا لے عقیدے اپنی جگہ ہیں اور صداقت اپنی جگہ ہوتی ہے پرانی باتوں و کہنہ روایات کی پاسداری جدید اصولوں پر کاربند ہونے سے روکتی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہیکہ کئی باتوں کا آئینہ ادراک پر پہلے ہی سے عکس پڑجاتا ہے جسے

آپ چھٹی حِس کا بھی نام دے لیتے ہیں۔ روح کوئی شیطانی قوت نہیں ہوتی عموماً روح کے نام سے بدروح کا خیال دماغ میں آتا ہے۔ اس سے تدارک کیلئے زمانہ جاہلیت میں راہبوں اور کاہنوں سے اور آج کے زمانے میں مرشد ملاؤں سے جھاڑ پھونک اور عمل عملیات کروائے جاتے ہیں۔ ہرکمزور عقیدے والے کو یاد دالہٰی سے طاقت ملے گی۔ غلط سوچ ہمیشہ غلط عقیدوں سے والہانہ عقیدت پیدا کرتی ہے۔ ہمارے جسم کا مکمل کنٹرول ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہماری روح پاکیزہ ہو تو وہ ہمارے جسم کے کنٹرول کو اپنے لحاظ سے چلائے گی۔ ہر انسان کی طبعی موت سب سے آخر میں وقوع پذیر ہوتی ہے لیکن اس سے بہت پہلے کبھی کبھی وہ خود اپنے غلط نظریوں و افعال کی وجہ سے روحانی، دماغی یا ذہنی موت کا ذمہ دار بن جاتا ہے۔ شرک و نفاق کو ترک کرکے پرسکون دل و دماغ سے خدا سے لو لگائیں۔ روح کی گہرائیوں سے اللہ کی طرف راغب ہوجائیں کہ جسم کا ہر عضو دماغ کا محتاج ہے۔ ہم اپنے دماغ پر حکم چلا کر بیشمار مسائل و بیماریوں سے نجات پاسکتے ہیں۔

یہ ہم اصول بنا لیں کہ ہم صرف حال میں جئیں گے نہ ماضی کے افعال پر فخر کریں گے نہ زنجور ہوں گے نہ ہی مستقبل کے رنگین خوابوں پر یقین کریں گے۔ مندمل زخموں کو نہیں کریدیں گے۔ دوسروں سے نفرت نہ کریں گے بلکہ نفرت کو محبت میں تبدیل کریں گے۔ دوسرے کو اپنا ہم خیال بننے پر مجبور نہ کریں گے۔ دوسروں کے برتاؤ کو بدلنے کی ضد نہ کریں گے بلکہ اپنی سوچ کو بدلنے کی کوشش کریں گے۔ اس مغالطے میں نہ رہیں گے کہ دوسرا ہر بات میں ہمارا ہم خیال وہم رائے بن جائے گا۔ کبھی بھی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے میں سبکی محسوس نہ کریں معافی مانگنے سے کوئی چھوٹا یا کمتر نہیں ہوجاتا ۔ اس لئے ہر بات کو برداشت کرنے کی ہمت و طاقت پیدا کریں گے کیونکہ اچھے خیالات اچھا انسان بناتے ہیں۔ ہماری پریشانی کی حالت میں خدا سے رابطہ یعنی عبادت، مراقبہ ہمارے جسم و روح کو سکون کے ساتھ طاقت و پاکیزگی عطا کرتے ہیں جبکہ ذہنی طور پر کمزور آدمی بیرونی حالات و ماحول سے جلد متاثر ہوجاتا ہے اس لئے غلط نظریات کو خودبھی بدلنا ہوگا اور دوسروں کو اس کی تلقین کرنی ہوگی اور ہماری بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر معاشرہ کو سنوارنے میں مدد کرنا ہوگا۔ ہمیشہ دل و دماغ، روحانی جسمانی پاکیزگی اور حالات کا تقدس اچھے برے عمل کی طرف لے جاتے ہیں۔ ہمیں خود احساس ہوتا ہیکہ ہم وہ کام کررہے ہیں

جو ہمیں نہیں کرنا چاہئے۔ اگر ہم اپنے مقصد حیات سے خود ناواقف ہیں ہمارے عمل میں تضاد ہے اور خود اپنے حالات سے ہم پوری طرح مطمئن نہیں جبکہ ہمارے پاس دینے کے لئے بہت کچھ ہے۔ شفقت، محبت، ہمدردی کے میٹھے بول، نصیحت و مفید مشورے جو دوسروں کیلئے فائدہ مند ہوسکتے ہیں ہم اس دنیا میں اپنی ذمہ داری نبھانے آئے ہیں۔ اپنا وقت ختم ہونے پر ہمیں لوٹ جانا ہے۔ جس طرح ہر سرکاری ملازم کو مقررہ عمر پر اپنی نوکری سے سبکدوش ہوجانا پڑتا ہے۔ اس لئے اپنے فرائض کو جانیں وقت ختم ہونے سے پہلے صحیح عمل کریں۔ ہمارے مستقبل کے روشن یا تاریک ہونے کا دارومدار ہمارے اپنے نیک یا بداعمال پر منحصر ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے اعمال کی سزاء ملتی ہے جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔ ہمیں دل و جان سے پاک پروردگار کے حضور میں ہمہ تن گوش ہوجانا چاہئے۔ روحانی قوت کو اپنے آپ میں جذب کرنا چاہئے، جیسے رمضان کے مہینے میں ایک سچا مؤمن اللہ کی خوشنودی کی خاطر روزے رکھتا ہے اور دنیا کی ہر نعمت سامنے رکھتے ہوئے اپنے آپ کو گھنٹوں بھوکا پیاسا رکھتا ہے اور خدا سے دعائیں مانگتا رہتا ہے۔ اگر ہمارے یقین و اعتماد، اعتقاد، احترام متزلزل ہوتے ہیں تو ہماری دعائیں بے اثر ہوجاتی ہیں، ٹھکرادی جاتی ہیں جیسے کہ راحت اندوری کہتے ہیں
در مسجد یہ کوئی شئے پڑی ہے
دعائے بے اثر ہوگی ہماری
دنیوی تعیشات و ضروریات کی تکمیل کی حد سے زیادہ چاہ دین سے دوری پیدا کرتی ہے، جبکہ انسان کے جسم میں اللہ کی تجلی اس کا نور ہوتا ہے اس نور کو اپنے آپ میں جذب کرنے کا نام صحیح عبادت ہے۔

ان دنوں سود، غرور، تکبر، انانیت، جادو، ٹونا، سحر، شراب نوشی، چوری، غم و غصہ، حسد، بغض، رنج و حزن، بے حیائی، فحاشی، زناکاری عام سی بات ہوگئی ہے۔ یہ ساری باتیں قلب کے نور کو سیاہ کردیتی ہیں جبکہ ہر قسم کی عبادت جیسے نماز، روزہ ایک مکمل عبادت ہے جو دل و دماغ کو منور کرتی ہے۔ خدا اپنے بندے کے حرکات، سکنات، خیالات و نیت سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ اس لئے دوسروں کی بدخواہی سے پرہیز کرتا ہے کہ وہ پہلے ہمیں خود نقصان پہنچائے گی ہمیں دوسروں کی اچھائیوں کو قبول کرنا اور برائیوں سے احتراز کرنا ہوگا۔ ہم ہمیشہ دوسروں سے امید رکھ کر کیوں مایوسی کا شکار ہوجائیں۔ اپنی ساری امید مشکل کشا پر کیوں نہ چھوڑدیں۔ ہمیں ہمیشہ یہ خیال رہے کہ کسی سے کوئی بدلہ لینا نہیں ہے بلکہ خود کوبدل کر دکھانا ہے۔ ہماری عادت و فطرت دو علحدہ چیزیں ہیں۔ عادتیں بدلیں یا چھوڑی جاسکتی ہیں لیکن فطرت کا بدلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔ ایسی ہی کچھ عادتیں و فطرت ذہنی تناؤ کا باعث بنتی جارہی ہیں جو اکثر خودکشی کی وجہ بن جاتی ہیں۔ اس لئے کسی فرد کا ڈپریشن میں چلا جانا خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ ہندی زبان میں ایک کہاوت ہیکہ ’’چنتا آدمی کو چتا تک لے جاتی ہے‘‘۔ یعنی فکر آدمی کو موت کے در تک پہنچا دیتی ہے اس لئے ہر بات کیلئے فکرمند ہونا وقت سے پہلے مرجانا ہے۔ ہم دریا، ندی، نالوں یا برسات کے بہتے پانی کو دیکھ کر سبق سیکھیں کہ وہ کس طرح اپنا راستہ خود بنا کر آگے بڑھتے ہیں۔

کبھی آپ نے سرکس دیکھی ہو تو یہ بھی دیکھا ہوگا کہ ایک کامیاب کرتب باز کئی فیٹ کی اونچائی پر اپنے فن کا مظاہرہ جھولوں پر کرتا ہے اس کے لئے وہ جب تک ایک جھولے کی رسی کو نہیں چھوڑے گا دوسرے جھولے کی رسی کو پکڑ نہ پائے گا۔ اگر وہ تردد میں رہے گا تو کبھی اپنے فن کا مظاہرہ نہ کرپائے گا اور اس رسی کو چھوڑنے کیلئے اس کو اپنے خوف پر قابو پانا ہوگا اور خود پر کامل بھروسہ رکھنا ہوگا۔ کوئی بھی شخص اس وقت تک کامیاب تیراک نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ پانی میں نہ اترے گا اور ہاتھ پیر مارنا نہ سیکھے گا۔ سیکل چلانے کیلئے سیکل پر سوار ہونا اور اپنا توازن قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ایک چڑیا اپنے بچوں کو گھونسلے سے نکال کر پھدک پھدک کر ایک ڈال چھوڑ کر دوسرے ڈال تک جانے کا ہنر سکھاتی ہے۔ یہی عمل کامیاب زندگی گذارنے کا ضامن ہے۔ اپنے اعمال سے پہلے خود کو مطمئن کرنا ضروری ہے۔ دیانتداری، انصاف پسندی سے پہلے خود کو قابل کرنا ہوگا۔ پہلے اپنے آپ کو اپنے دل اپنے ضمیر کو جوابدہ ہونے کیلئے تیار کرنا ہوگا پھر دوسروں کے سامنے اپنی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔ خود داری اور خودستائی میں فرق ہونا لازمی ہے۔ ہمارے حواس خمسہ ہمارے اپنے قابو میں ہونے چاہئیں کیونکہ ہماری حیثیت ایک ٹی وی یا روبوٹ جیسی نہیں کہ جس کا ریموٹ کنٹرول دوسرے کے ہاتھ میں ہو کہ ہم وہی کریں جو دوسرا چاہتا ہے ہمیں بہت گہری نظر سے خود کا مطالعہ کرنا ہوگا کہ آخر ہمارے اندرونی درد، تناؤ، تکلیف یا جھنجھلاہٹ کی وجہ کیا ہے۔ ہماری زبان سے غلط الفاظ بلکہ مغلظات کیوں نکلتے ہیں۔

ہماری تحریر میں اتنی تلخی کیوں ہے۔ کیا ہم خود اپنے آپ سے مطمئن نہیں ہیں۔ کیا ہم اپنے آپ پر قابو پانے کے اہل نہیں ہیں۔ کیا ہماری زبان، ہماری انگلیاں، ہمارے ہاتھ پیر، ہمارے اختیار میں نہیں ہیں؟ تو پھر کس جذبے کے تحت یہ سب کام انجام پا رہے ہیں۔ ہماری عزت و ناموس کو داغدار کررہے ہیں وہ کونسی قوت ہے جو اپنا تسلط ہم پر قائم کئے ہوئے ہے اور ہم اس غیر مرئی طاقت کے آگے اتنے مجبور و لاچار اپنے آپ کو محسوس کرتے ہیں جب ہم اتنے کمزور ہیں کہ اپنے آپ کی حفاطت نہیں کرسکتے تو پھر دوسروں کو کیوں الزام دیں کہ ہمارا ذہن، ہمارے خیالات پر ہمارا کنٹرول ختم ہوچکا ہے۔ ہمارے احساسات و خیالات کی کمزوریوں کا اظہار ہماری تحریروں میں، ہماری گفتگو میں جھلکتا ہے۔ یہ ہماری منہ بولی تصویریں ہیں اور ہم اپنے آپ کو، اپنی کمزوریوں کو اس طرح دنیا کے سامنے منکشف کررہے ہیں۔ اس لئے اپنے بارے میں پوری آگہی کا ہونا ضروری ہے۔ ہمیں ہر اچھے برے حالات، پریشانیوں و تکالیف کا سامنا کرنا ہوگا۔ بالکل اسی طرح کہ تنگ راستہ سے گذرتے وقت اگر بہت بڑا پتھر ہمارا راستہ روک رہا ہے تو یا تو ہم میں اتنی ہمت ہوکہ اپنے بازوؤں کی قوت سے اسے ہٹانے کی کوشش کریں یا دوسروں کی مدد لیں تب بھی ممکن نہ ہو تو اپنا سفر ترک کرکے وہاں بیٹھ جانا تو نہیں ہے جب پتھر راستے سے ہٹے گا تب ہی آگے بڑھیں گے بلکہ ہمیں پتھر کے بازو سے یا اوپر سے کسی طرح بھی اپنا راستہ بنانا ہوگا اور آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ سب باتیں ہمیں خود کو سمجھانا ہے جبکہ ہم دوسروں کو سمجھانے بیٹھ جاتے ہیں غلط اور صحیح کی بحث میں الجھ جاتے ہیں جبکہ ہر دو صورتوں میں خود کی تصحیح و تشریح خود ہمیں کرنا ہے۔ ہمیں بس اتنا اختیار ہیکہ اپنے نظریات و خیالات دوسروں کے سامنے رکھ دیں، لیکن سامنے والا اس سے متفق ہواسکا انحصار اس کی مرضی اس کے مطالعے اس کی ذہنی نشوونما پر ہے۔

ہماری کوشش یہی ہوتی ہیکہ ہر کوئی ہمارا ہم خیال ہوجائے، ہمنوا بن جائے جو نہ بنے توہم اس سے اپنے تعلقات منقطع کرلیں، اس سے بگاڑ کر بیٹھیں اور پھر اس ترک تعلقات پر خود ہی طیش کھاتے رہیں۔ آخر ہم اپنے آپ میں پیچ و تاب کھا کر خلفشار کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ کبھی ایسا بھی ہوتا ہیکہ کئی ایک باتیں اور واقعات ہماری زندگی میں وقوع پذیر ہوتی ہی نہیں ہیں لیکن ہم سوچ سوچ کر پریشان رہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوجائے تو کیا ہوگا؟ ان وسوسوں اور اندیشوں سے اپنے آپ کو بچانا ہوگا۔ اپنے دل و دماغ کو کنٹرول کرنا ہوگا۔ چھوٹے بچے کی طرح اس کا لاڈ و دلار نہ کریں کہ وہ غلط راہ پر گامزن ہوجائے اور اپنے مفروضات کے دلدل میں پھنس جائیں کیونکہ جو فعل روز دہرایا جاتا ہے وہ ہماری عادت بن جاتا ہے اور عادتیں شخصیت کی تشکیل کرتی ہیں، جس میں نفرت، محبت کے جذبات کا ازدحام ہوتا ہے۔ ہمارا بدن ہمارے حرکات و سکنات و خیالات کے تابع ہوتا ہے کیونکہ انسان صرف خاک کا پتلا نہیں بلکہ نور کا پیکر بھی ہے۔ نور سے توانائی حاصل ہوتی ہے اور ہمارے پیش نظر ہمیشہ دلی طمانیت کا حصول ہونا چاہئے جو ہمیں ہر ذہنی تناؤ سے نجات دلاتا رہے۔ خدا ہر بندے کی رح میں بسا ہوتا ہے۔ ہر ایک کے دل میں، ضمیر میں اعمال میں، اس کا پر تو دکھائی دیتا ہے۔ اس لئے ہمیں برے کام پر پچھتاوا اور اچھے عمل پر اطمینان ہوتا ہے۔ اگر مطمئن زندگی گذارنی ہو تو اپنی قابلیت کو بروئے کار لائیں ورنہ فرد کی ساری خصوصیات زنگ آلود لوہے جیسے ہوجاتی ہیں
بغیر عقل و خرد جانور بھی جیتے ہیں
بشر ہو تم تو ذرا احتساب کرلینا