بچپن ایک ایسا دور ہوتا ہے جہاں بچے کی جسمانی اور ذہنی نشونما ہوتی ہے اور یہیں ان کے مستقبل کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور اگر اسی مقام پر انہیں اس قدر دباؤ میں ڈال دیا گیا تو پھر ان کا مستقبل کیا ہوگا ۔ آپ خود ہی سوچ سکتے ہیں ۔ اس وقت بچوں پر مطالعہ اور ہوم ورک کا تناؤ اس قدر ہوتا ہے کہ اس کے علاوہ ان کے پاس اور کچھ بھی کرنے کیلئے وقت ہی نہیں بچتا ۔یہ بالکل درست بات ہے کہ اسکول ہی وہ جگہ ہے جہاں بچہ زندگی جینے کا سلیقہ سیکھتا ہے ۔ جہاں اس میں اچھے برے کا شعور بیدار ہوتا ہے ۔ لیکن یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ آج کل اسکول ہی بچوں پر اچھا خاصا دباؤ ڈالتے ہیں ۔ اسکول میں بچے اکثر آپ کو کندھے پر برا سا باگ اٹھائے نظر آئیں گے ۔ جن میں ان کی کتابیں اور کاپیاں ہوتی ہیں ۔
بچہ پہلی جماعت کا ہو یا دسویں جماعت کا ہو سبھی کا یہی حال ہے ۔ سب پر کتابوں ، کاپیوں اور مطالعے کا بوجھ ہے ۔ آج ہر بچہ اور خصوصاً ان کے والیدین چاہتے ہیں کہ بچہ اول ہی آئے کوئی بھی دوم آنے کو تیار نہیں ہے ۔ ہر کوئی اچھے مارکس اور گریڈ کی بات کرتا ہے ۔ نصاب کے حوالے سے باتیں کی جاتی ہیں مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ تعلیم کو اچھے اور معقول طریقے سے طالب علموں تک پہونچانے کیلئے کیا کیا جانا چاہئے ۔ بچے زیادہ سے زیادہ نمبرات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور والدین ان سے دو قدم آگے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ اسکول ٹاپ کرکے ان کا نام روشن کرے اور اس کیلئے وہ بچوں کی تعلیم اور بہتر زندگی کیلئے ہزاروں روپئے خرچ کرتے ہیں تاکہ ان کا بچہ سب سے آگے رہے ۔
ان سب باتوں نے بچوں میں بھی مقابلہ آرائی کا جذبہ پیدا کردیا ہے اور بعض اوقات وہ خود کو ثابت کرنے کیلئے ضرورت سے زیادہ محنت کرتے ہیں مگر اس طرح حقیقی معنوں میں ہم فاتح پیدا نہیں کرسکتے ۔ بلکہ ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جو اپنی شکست سے خائف ہے اور ایک خائف شخص کبھی بھی فاتح نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے اس مقابلہ آرئی کے ذریعہ ہم اپنے بچوں پر صرف دباؤ بڑھا رہے ہیں ۔ بچپن ایک ایسا دور ہوتا ہے جہاں بچے کی جسمانی اور ذہنی نشونما ہوتی ہے اور یہیں ان کے مستقبل کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور اگر اسی مقام پر نہیں قدر دباؤ میں ڈال دیا گیا تو پھر ان کا مستقبل کیا ہوگا ۔ آپ خود ہی سوچ سکتے ہیں ۔ اس وقت بچوں پر مطالعہ اور ہوم ورک اس قدر ہوتا ہے کہ اس کے علاوہ ان کے پاس اور کچھ بھی کرنے کیلئے وقت ہی نہیں بچتا اور ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ایسا کرکے اسکول غلطی کر رہے ہیں کیونکہ ان پر بھی بورڈ کی طرف سے دباؤ ہوتا ہے کہ وہ نصاب وقت پر ختم کریں اور انہیں اپنے اسکول کی شہرت کی بھی فکر ہوتی ہے اور اسی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے زیر بار آجاتے ہیں ۔ یہ تمام باتیں بعض اوقات ان پر منفی اثرات ڈالتی ہیں اور وہ مطالعہ میں اس قدر مصروف ہوجاتے ہیں کہ زندگی کی دوسری اہم چیزوں کو بھول جاتے ہیں مثلاً کھیل کود ، معلومات اور دوسری کتابوں کا مطالعہ اور اخبارات کا مطالعہ جو معلومات کا ذریعہ ہے ۔ میاں بیوی اگر ملازمت پیشہ ہوں تو یہ مسلہ اور بڑھ جاتا ہے کیونکہ بہت سی مائیں اپنی مصروفیات کی وجہ سے ان کے کیلنڈر اور ٹائم ٹیبل کو دیکھنا بھول جاتی ہیں ۔ نتیجہ میں بچوں کو تمام کتابیں لے کر جانا پڑتا ہے ۔ کچھ اسکولوں کا الزام یہ بھی ہوتا ہے ۔ اس ضمن میں اکثر والدین کی لاپرواہی ہوتی ہے بچے ساری ہی کتابیں لے کر آتے ہیں جن کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ۔
کچھ اسکولوں نے لاکر کا بھی انتظام بھی کیا ہے لیکن اس سے والدین کو سہولت نہیں ہو رہی ہے ۔ ملازمت پیشہ والدین کا کہنا ہے کہ ہم ہوم ورک کی کاپی ہفتے میں ایک ہی دن دیکھ پاتے ہیں اس سے بچے کی ترقی کو دیکھ نہیں پاتے اور ہمارا بچہ یہ بھی نہیں سمجھ پاتا ہے کہ کس کتاب یا کاپی کو اسکول میں چھورے اور کسے گھر لائے ۔ والدین کو چاہئے کہ وہ بچے کے پر دھیان دیں ۔ ان کے بستے چیک کرتے رہا کریں اور جتنی کتابوں کی ضرورت ہو اتنی ہی ان کے بچوں میں ڈالیں ۔ اس کے علاوہ حکومت کو بھی اس جانب توجہ کرنی چاہئے کیونکہ یہ مسئلہ اب بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اس کا شکار ہونے والے ہمارے ملک و قوم کا مستقبل ہیں ۔ انہیں نہ صرف کتابوں کا بوجھ کم کرنا چاہئے اس سے مطالعے کا بوجھ بھی کم ہوجائے گا اور بچہ اپنے دوسرے مسائل میں بھی وقت دے سکے گا ۔ جس سے ان کی نشونما مکمل طور سے ہوپائے گی ۔ ہمیں ہماری نئی نسل کو ایسی تعلیم دینی چاہئے جو ان کی زندگی میں آگے بڑھنا سکھائے مگر ایسا نہیں ہو رہا ہے ہم انہیں ایک ایسا ماحول دے رہے ہیں جہاں ان کا بچپن اور نوجوانی دونوں گھٹن کا شکار ہو رہی ہے ۔ آئے دن اخبارات میں طالب علموں کی خودکشی اس کا ایک واضح ثبوت ہے ان پر دباؤ کس قدر بڑھ رہا ہے ۔ بچوں پر دباؤ کم کرنے کے ضمن میں کچھ عملی اقدامات بھی کئے جاسکتے ہیں جیسے ان کے ہوم ورک میں کمی ، انہیں یہ بتانا کہ جو کچھ بھی انہیں پڑھنا ہے اسے رٹنے کے بجائے ذہن نشین کرنے کی کوشش کریں ۔ لیکن ان تمام چیزوں کا پہلے ہمیں مصمم ارادہ کرنا ہوگا کہ ہم بچوں کے ناتواں کندھوں پر بوجھ کم کریں گے ۔