رشیدالدین
یوں تو ملک کی پانچ ریاستوں میں انتخابی رنگ دکھائی دے رہا ہے لیکن عوام کی نظریں اترپردیش اور پنجاب پر ہیں۔ یہ دو ریاستیں نریندر مودی اور بی جے پی کیلئے کسی ریفرنڈم سے کم نہیں۔ دونوں ریاستوںکے نتائج سے نریندر مودی کے سیاسی مستقبل کا بھی فیصلہ ہوجائے گا ۔ نریندر مودی جو 2014 ء لوک سبھا چناؤ کی کامیابی کے بعد بی جے پی کے مرد آہن اور ناقابل تسخیر قائد کی حیثیت سے ابھرے ہیں ، کیا چناوی نتائج کے بعد بھی ان کا موقف برقرار رہے گا ؟ پنجاب اور اترپردیش مودی کیلئے وقار کا مسئلہ بن چکے ہیں۔ ایک ریاست میں اکالی دل کے ساتھ مخلوط اقتدار کو بچانا ہے تو اترپردیش میں 2014 ء کی لہر کو دہراتے ہوئے اقتدار میں واپسی کرنی ہے۔ مرکز میں این ڈی اے زیر قیادت بی جے پی حکمرانی کے تین سال مکمل ہونے کو ہیں، ایسے میں مرکز کی کارکردگی کا اثر بھی پانچ ریاستوں میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ یوں تو چناوی مرحلہ کے آغاز کے ساتھ ہی انتخابی مہم کا آغاز ہوچکا ہے لیکن اترپردیش میں انتخابی مہم کا عملاً آغاز نہیں ہوا۔ مودی کی انتخابی ریالیوں سے حقیقی معنوں میں انتخابی مہم شروع ہوگی۔ سماج وادی اور بہوجن سماج پارٹی کی سرگرمیاں ابھی تو ملاحظہ اسباب کی طرح ہیں۔ اترپردیش میں مودی کے جادو نے لوک سبھا کی نشستوں کو جیسے لوٹ لیا تھا۔ 80 کے منجملہ 72 نشستوں پر کامیابی کا سہرا نریندر مودی کے سر جاتا ہے ۔ اب جبکہ بی جے پی ریاستی سطح پر مقبول اور مضبوط قیادت سے محروم ہے، تمام کی نظریں نریندر مودی پر ٹکی ہیں۔ مودی آئیں گے اور بی جے پی کی نیا پار لگائیں گے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نریندر مودی کی مقبولیت اور عوامی قبولیت میں کوئی خاص کمی واقع نہیں ہوئی ہے ۔ نوٹ بندی کے فیصلہ کے بعد عوامی سطح پر ناراضگی کا جو اندازہ کیا گیا تھا، وہ غلط ثابت ہوا۔ مجالس مقامی اور لوک سبھا و اسمبلی کے ضمنی چناؤ میں بی جے پی نے اپنے موقف کو برقرار رکھا ہے ۔ اب تو نوٹ بندی کے حالات تیزی سے معمول پر آنے لگے ہیں۔ نریندر مودی جب یو پی میں انتخابی ریالیوں میں اپنی لفاظی اور تک بندی کا مظاہرہ کریں گے تو وہ انتخابی مہم کا حقیقی آغاز ہوگا۔ اسی وقت اترپردیش کا انتخابی منظر واضح ہوپائے گا کہ کون کہاں کھڑا ہے۔ اترپردیش میں داخلے سے قبل نریندر مودی نے متحدہ عرب امارات کے ولیعہد کو یوم جمہوریہ تقریب میں مہمان خصوصی بناکر مسلمانوں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے جس انداز میں ابوظہبی کے حکمراں کی آؤ بھگت اور خاطر مدارت کی گئی اور مودی نے پروٹوکول کو بالائے طاقت رکھ کر استقبال کیلئے ایرپورٹ پہنچ کر اترپردیش کے مسلم رائے دہندوں کو پیام دینے کی کوشش کی ہے۔ مودی جس والہانہ انداز سے آگے بڑھ کر بغلگیر ہوئے ، سوشیل میڈیا نے اسے بچھڑے دوستوں کی ملاقات سے تعبیر کیا۔ یوم جمہوریہ پریڈ کی قیادت متحدہ عرب امارات کے دستہ نے کی۔ الغرض نریندر مودی پبلسٹی اور سیاسی فائدہ کے کسی بھی موقع کا بھرپور استعمال کرنے میں مہارت حاصل کرچکے ہیں۔ یو پی میں بی جے پی بظاہر کسی چہرہ کے بغیر دکھائی دے رہی ہے لیکن مودی کی مہم کی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اکھلیش یادو خاموش بغاوت کے ذریعہ ضعیف باپ کو یرغمال بنانے کو اپنی کامیابی تصور کر رہے ہیں۔ انہوں نے باپ کو ہی دشمن سمجھ لیا تھا لیکن حقیقی سیاسی حریف سے مقابلہ تو ابھی باقی ہے جو مودی کی ریالیوں کی شکل میں ہوگا۔ پارٹی پر گرفت مضبوط کرنے کو سب کچھ سمجھ لینا اکھلیش کی بھول ہے اور یہ غلط فہمی اکثر خواب غفلت کا شکار بنادیتی ہے۔ اکھلیش یادو کلین امیج اور ترقی کے ساتھ عوام میں مقبول ضرور ہیں لیکن خاندانی تنازعہ اقتدار اور کرسی کیلئے رسہ کشی نے عام آدمی پر جو تاثرات چھوڑے ہیں ، وہ ابھی مخفی ہیں۔ ملائم سنگھ پریوار میں ابھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہوا ۔ چچا شیو پال کی ناراضگی صاف طور پر دکھائی دے رہی ہے۔ اکھلیش یادو صرف عزائم سے بی جے پی اور اس کی چالوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے ، جب تک ساتھ میں تجربہ کار افراد نہ ہوں۔ مودی کی آمد سے قبل اترپردیش میں سیاسی میچ کیلئے پچ تیار کی جارہی ہے۔ سماج وادی اور کانگریس میں اتحاد خود بھی اس بات کا اشارہ ہے کہ اکھلیش یادو بی جے پی سے خوفزدہ ہیں اور کسی طرح غیر بی جے پی ووٹوں کو تقسیم سے بچانا چاہتے ہیں۔
کانگریس پارٹی جو اترپردیش میں وجود کی لڑائی لڑ رہی ہے ، اسے سماج وادی کا سہارا مل گیا ۔ یوں بھی کانگریس مذاق کا موضوع بن چکی ہے جس نے چیف منسٹر کے چہرہ کو دہلی سے امپورٹ کیا تھا۔ مقابلہ 105 نشستوں پر کیا جارہا ہے لیکن چیف منسٹر کی امیدوار شیلا ڈکشٹ کی دستبرداری کا ابھی تک رسمی اعلان نہیں کیا گیا۔ کانگریس کا جس قدر برا حال ہے ، اس میں سماج وادی کا سہارا کسی نعمت سے کم نہیں۔ شاید چند زائد نشستیں حاصل ہوجائیں۔ اترپردیش کے کانگریس قائدین جیسے یہ گانا گن گنا رہے ہیں ’’کوئی لوٹادے میرے بیتے ہوئے دن‘‘ ان سرگرمیوں کے درمیان بہوجن سماج پارٹی خاموش مہم پر ہے ۔ کسی ظاہری نمود و نمائش کے بغیر اس نے مقابلہ کی تیاری کرلی ہے۔ پارٹی نے سب سے پہلے اپنے امیدواروں کا اعلان کیا۔ سماج وادی کے ناراض عناصر اب بی ایس پی کا رخ کر رہے ہیں۔ مسلم رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کیلئے مختار انصاری کے قومی یکتادل کو بی ایس پی میں ضم کرلیا گیا ۔ مختار انصاری کے ذریعہ مسلم ووٹ کو بی ایس پی اپنی طرف منتقل کرنا چاہتی ہے۔ مختار انصاری کی سماج وادی پارٹی میں شمولیت کے مسئلہ پر باپ بیٹے اور چچا میں اختلافات پیدا ہوئے تھے اور اب انصاری کی گھر واپسی ہوچکی ہے۔ بی ایس پی سے سیاسی سفر کا انہوں نے آغاز کیا تھا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق مایاوتی جس خاموشی سے اپنی صفیں درست کر رہی ہیں، وہ ان کی خود اعتمادی کا ثبوت ہے ۔ سماج وادی پریوار کے اختلافات سے عاجز ووٹر جو خاموش ہیں، وہ بی ایس پی کے لئے فائدہ مند ہوسکتے ہیں۔
بی جے پی نے پانچ ریاستوں میں وزیراعظم کی انتخابی ریالیوں سے قبل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ مہم کا آغاز کردیا ہے ۔ قومی سطح پر سروے اور اوپنین پول کے نام پر بعض چیانلس اور اخبارات نے بی جے پی کی خدمت شروع کردی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی عمل کے آغاز سے رائے دہی کے اختتام تک کسی بھی سروے پر پابندی ہے لیکن مرکزی حکومت کی کارکردگی پر سروے اور عوامی رائے کی آڑ میں پانچ ریاستوں میں بی جے پی کی مہم چلائی جارہی ہے ۔ سروے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عوام نریندر مودی کی کارکردگی سے مطمئن ہیں اور فوری طور پر انتخابات کی صورت میں این ڈی اے کو 360 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوگی ۔ اس طرح کے سروے اور اس کی رپورٹنگ پیڈ نیوز نہیں تو اور کیا ہے۔
الیکشن کمیشن کو اس طرح کے سروے پر بھی پابندی عائد کرنی چاہئے کیونکہ بالواسطہ طور پر پانچ ریاستوں کے رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے ۔ الیکشن کمیشن نے جس طرح مرکز کو مرکزی بجٹ میں پانچ ریاستوں کیلئے کسی قسم کا پیاکیج شامل نہ کرنے کیلئے پابند کیا ہے ، ٹھیک اسی طرح مودی۔نواز میڈیا کی سرگرمیوں پر بھی روک لگنی چاہئے ۔ میڈیا کے ذریعہ مودی کو بی جے پی کے مسیحا کے طور پر پروجکٹ کیا جارہا ہے۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود پنجاب اور گوا میں حکومتوں کو بچانا مودی کیلئے زبردست چیلنج ہے۔ پنجاب میں اکالی دل ۔ بی جے پی مخلوط حکومت کی 10 سالہ کارکردگی سے عوام ناراض ہیں۔ کیپٹن امریندر سنگھ کی قیادت میں کانگریس سبقت حاصل کرچکی ہے۔ عام آدمی پارٹی کا موقف ووٹ کٹوا کی طرح ہے۔ جس سے اکالی دل بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔ ووٹ کی تقسیم کی پرواہ کئے بغیر کجریوال غیر محسوس طریقہ سے بی جے پی کی خدمت کر رہے ہیں۔ گوا میں کانگریس کے انتخابی منشور میں خوش کن اعلانات بی جے پی کی مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں۔ اسمبلی انتخابات سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کیلئے بھی چیلنج سے کم نہیں۔ سپریم کورٹ نے انتخابی مہم میں مذہب ، ذات پات اور علاقہ واریت کی بنیاد پر ووٹ مانگنے کو انتخابی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل آوری کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے ۔ دونوں دستوری اداروں کے واضح موقف کے باوجود متنازعہ بیانات کا سلسلہ جاری ہے ۔ شرد یادو ، ونئے کٹیار اور دیگر قائدین انتخابی مہم کے دوران اپنی زبان پر قابو رکھنے سے قاصر ہیں۔ شرد یادو جن کا شمار جہاندیدہ قائدین میں ہوتا ہے ، انہوں نے ووٹ کی اہمیت ثابت کرنے کیلئے بیٹی سے متعلق جو ریمارک کیا۔ وہ ناقابل قبول ہے ۔ بیٹی کی عزت کے مقابلہ کوئی چیز نہیں ہوتی اور جب تک بیٹی کی عزت نہ رہے، اس وقت تک کسی قوم اور ملک کو باعزت اور باحمیت ملک اور سماج کو مہذب قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن افسوس کہ شرد یادو نے ووٹ کو اہمیت دیتے ہوئے اپنے ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں وقتاً فوقتاً ضعیف قائدین کو سیاسی سنیاس دیئے جانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے ۔ ونئے کٹیار نے رام مندر اور پرینکا گاندھی کے مسئلہ پر بعض ریمارکس کئے ۔ جہاں تک رام مندر کا سوال ہے، بی جے پی اس کے بغیر انتخابات میں نہیں جاسکتی۔ مذہب کو سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کرنے کا یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے تحت آئے گا جبکہ پرینکا گاندھی کی خوبصورتی سے متعلق ان کا ریمارک انتخابات میں کوئی نئی بات نہیں۔ گزشتہ 10 برسوں سے سیاسی قائدین اور جماعتوں کا مزاج حسیناؤں کی طرح ہوچکا ہے اور وہ کسی بھی ریمارک پر عدالتوں کا سہارا لے رہے ہیں ۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ انتخابات میں اس طرح کے تبصرے قابل اعتراض زمرہ میں نہیں آتے ۔ تاہم سیاسی جماعتوں کو غیر معیاری تبصروں سے گریز کرنا چاہئے ۔ اوجؔ یعقوبی کا یہ شعر سیاستدانوں پر صادق آتا ہے۔
بزم میں اُجلے نظر آتے ہیں سب کے چہرے
کون دشمن پس دیوار ہے تم خود سوچو