بزم علم و ادب شعبہ خواتین کا تیسرا ریاستی علمبردار اردو ایواڈ و پیشکشی توصیف نامہ تقریب!

رفیعہ نوشین
بزم علم و ادب شعبہ خواتین دور حاضر میں حیدرآباد کی واحد خواتین کی تنظیم ہے جو اس برق رفتار ترقی یافتہ دور میں شاعرات ،ادیبات و مصنفین زبان اردو ادب کی ذہنی آبیاری کرتی ہے اور متعدد ادبی، مذہبی و سماجی پروگرام منعقد کرتی ہے جو کہ یقیناَ ادارہ ہذا کی انفرادیت و مقبولیت نیز کامیابی کی ذمانت ہے !
یہ تنظیم پچھلے تین برسوں یعنی 2017 سے خواتین کے لئے ریاستی علم بردار اردو ایوارڈ و توصیف نامے کی پیشکشی کا پروگرام منعقد کر رہی ہے ! اور اپنی تیسری سالانہ ایوارڈ تقریب کا انعقاد 25 اپریل 2019 کو بروز جمعرات، بمقام خواجہ شوق ہال، اردو مسکن، خلوت حیدرآباد میں منعقد کیا گیا! رپورٹ کے لئے راقم الحروف (رفیعہ نوشین) کو سعادت مل رہی ہے !
شام کے 5 بجے دعوت نامہ میں دئے گئے وقت کے مطابق خواجہ شوق ہال میں خاکسار صدر شعبہ سیدہ عابدہ کریم اور رکن عاملہ کے ساتھ موجود تھی جو انتظامات میں مصروف تھیں! اسٹیج پر ایک طویل سائز کابیانر لگا تھا جس پر ایوارڈ یافتگان، مہمانان خصوصی و اعزازی، دن تاریخ، مقام سب کچھ لکھا تھا گویا پروگرام کی پوری تفصیل کو بیانر میں سمیٹ دیا گیا تھا ! اسٹیج کے دائیں جانب کتابی شکل کے ایوارڈز جو اس تنظیم کی خاص پہچان بن چکے ہیں ،فریم کئے ہوئے توصیف نامے پھول کاری کے خوبصورت دوپٹے و گل رکھے گئے تھے ! جسے دیکھ کر دیگر خواتین و طالبات کادل ضرور للچایا ہوگا کہ کاش میں اس کی مستحق ہوتی ! مختلف قسم کے برنگ رنگے بیاجس بھی رکھے تھے ! جسے والنٹیرز مدعوئین کو بڑے احترام سے لگا رہے تھے ! امید تھی کہ حیدرآبادی روایت کے مطابق پروگرام کے شروع ہونے میں کم از کم ایک گھنٹے کی تاخیر تو ضرور ہوگی ! اور میں انتظار کے عجیب سے لمحوں سے گزر رہی تھی بقول کسی شاعر کے :
بجائے سینے کے آنکھوں میں دل دھڑکتا ہے
یہ انتظار کے لمحے عجیب ہوتے ہیں !
لیکن خلاف توقع 60 فیصد خواتین 5.30سے پہلے تشریف لا چکی تھیں اس طرح الحمد اللہ 5.30کو تقریب کا آغاز ہوا ! بزم کی معتمد عمومی راقم الحروف (رفیعہ نوشین) نے ایوارڈ یافتگان، مہمانان خصوصی اورمہمانان اعزازی کا خیر مقدم کرتے ہوئے نہایت عزت و احترام کے ساتھ انہیں شہ نشین پر مدعو کیا ! جس کے ساتھ ہی فکر وفن، تہذیب اور حسن کی ایک کہکشاں اسٹیج پر جلوہ نما ہو گئی !یہ جلسہ پروفیسر اشرف رفیع (مشیر اعلیٰ شعبہ خواتین بزم علم و ادب )کی زیر سرپرستی اور سیدہ عابدہ کریم صدر شعبہ خواتین کی زیر صدارت منعقد ہو رہا تھا ! حفصہ فاطمہ اور ایمان فاطمہ نے قرآت کلام پاک ،عفت جہاں نے حمد باری تعالیٰ اور ممتاز جہاں عشرت نے اپنی پرسوز آواز میں نعت شریف کا نذرانہ پیش کیا !
خاکسار نے اپنی خیرمقدمی تقریر میں سب کا صمیم قلب سے استقبال کرتے ہوئے بزم علم و ادب کے قیام ، شعبہ خواتین کا قیام اور اس ایورارڈتقریب کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ” بزم علم و ادب کا قیام 2004 میں ڈاکٹر نادر المسدوسی صاحب نے کیا جو ایک مصنف، شاعر ،خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ مخلص ہر دلعزیزاور فعال شخصیت ہیں ! اس وقت یہ تنظیم صرف مرد حضرات پر مشتمل تھی ! شعبہ خواتین کا قیام 2015 میں عمل میں لایاگیا ! مسدوسی صاحب نے مختلف شعبہ حیات میں گراں قدر خدمات انجام دینے والے مختلف ہستیوں کو ایوارڈ پیش کرنے کا سلسلہ 2006 سے شروع کیا اور اب تک تقریباَ 57 لوگوں کو ایوارڈ دے چکے ہیں ! لیکن یہ ایوارڈ دینے کا سلسلہ صرف مرد حضرات تک ہی محدود تھا – نومبر 2016 میں راقم الحروف نے ڈاکٹر نادرالمسدوسی بانی و صدر بزم علم و ادب کی توجہ اس جانب مبذول کروائی تواس بات کو تسلیم کرتے ہو ئے انہوں نے اپنی وسیع النظری کا ثبوت دیا اور پھر 2017 سے خواتین کو ایوارڈز دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا جو کہ حوصلہ افزاء￿ اقدام ہے ! سماج میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ عورت کے کارہائے نمایاں کا پہلے تو خوش دلی سے اعتراف نہیں کیا جاتا اور کر بھی لیا جائے تو اسکی پذیرائی نہیں ہوتی ! اس فیصلے کے بعد بزم علم و ادب شعبہ خواتین نے 2017 میں 7 اور 2018 میں 8 خواتین کو ایوارڈز سے نوازا اور سال رواں یعنی کہ 2019 کے لئے 7 خواتین کا انتخاب کیا گیا ! ان کا اپنے متعلقہ میدانوں میں کمال کا مظاہرہ کرنے والوں کی صلاحیتوں کا اعتراف ہونا ضروری ہے ! اس کے لئے کوئی رقم نہیں دی جاتی کیونکہ ایوارڈ خود اتنا بیش قیمت ہے کہ اسے مالی فائدے کے پیمانے پر تولا نہیں جا سکتا ! ایوارڈز کے مستحقین کے انتخاب کے لئے جن کے نام تجویز کئے گئے وہ آپ کے سامنے موجود ہیں اور کچھ ہی دیر میں ایوارڈ حاصل کریں گی! – حیدرآباد کی سرزمین ہمیشہ سے مذہبی و ادبی روایات کی حامل رہی ہے ! یہاں کے مسلمانوں میں قدیم زمانے سے دینداری اور اتباع سنت رسولؐ کا جذبہ دوسرے علاقوں سے کہیں زیادہ کار فرما ہے – اس کا ثبوت یہ ہے کہ بزم کی صدر سیدہ عابدہ کریم قابل مبارکبادہیں جنہوں نے 16 کتابیں دینی موضوعات پر مرتب کی ہیں اور آج ان کی مزید دو کتابوں کا رسم اجراء ہونے جارہا ہے !‘‘
اس خیر مقدمی تقریر کے فوراَ بعد سیدہ عابدہ کریم کی مرتب کردہ دو تصانیف ’’سورہ یٰسین کی تفسیر‘‘ اور ’’اسلامی وظائف‘‘ کا رسم اجراء بدست ڈاکٹر مفتیہ رضوانہ زرین اور جلسہ سلطانہ یاسین ایڈوکیٹ کے انجام پایا ! اور شرکائے محفل میں ان کتابوں کی مفت تقسیم عمل میں آئی !ڈاکٹر جوہر جہاں نے بزم کی سالانہ رپورٹ پیش کی جس سے شرکائے محفل کو بزم کی جانب سے ہونے والی سال بھر کی سرگرمیوں سے واقفیت حاصل ہوئی ! اور کئی خواتین نے ممبر شپ لینے میں دلچسپی ظاہر کی !

بزم کی جانب سے ایوارڈ دینے کے لئے جن خواتین کا انتخاب کیا گیا تھا ان کا مختصر تعارف بزم کی شریک معتمد اسریٰ تبسم نے کروایا- کیونکہ تفصیلی تعارف پیش کرنے کا وقت نہیں تھا اس لئے پہلے تعارف پیش کیا گیا ،پھر ان تمام کی گل پوشی کی گئی۔پھر پھولکاری سے مزین خوبصورت دوپٹے پہنائے گئے ! اسکے بعد ایوارڈز و توصیف نامے پیش کئے گئے ! ساتھ میں ایک کیاری بیاگ (Carry bag) بھی دیا گیا تاکہ ایوارڈ یافتگان ان چیزوں کو حفاظت اور آسانی کے ساتھ اپنے گھر لے جا سکیں ! ان ساری چیزوں کو پاکر ایوارڈیافتہ گان کے چہروں پر جو مسرت کی لہرامڈ آئی تھی وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ! اور میں دل ہی دل میں دعا کر رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان تمام خواتین کو ہمیشہ یوں ہی خوش و خرم رکھے،صحت و سلامتی سے رکھے تاکہ وہ ہمیشہ اپنے اپنے مذہبی،ادبی و سماجی میدان میں معاشرہ کی فلاح و بہبودی کے لئے خدمت انجام دیتی رہیں ! اور ایک ایسا صالح معاشرہ تشکیل پائے جہاں عورت کو عزت و احترام اور بھر پور وقار، ترقی و تحفظ کے ساتھ زندگی گزارنے کے مواقع فراہم ہوں!‘‘
! محترمہ جلیسہ سلطانہ یٰسین ایڈوکیٹ کنونیر تفہیم شریعت کمیٹی تلنگانہ و آندھرا پردیش آل اندیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو مذہبی، سماجی و تعلیمی جہد کار کے زمرہ کا ایوارڈ صدر تعمیر ملت تنظیم نسواں محترمہ انیس عائشہ کے ہاتھوں دیا گیا ۔ ایوارڈ حاصل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’اچھا لگ رہا ہے کہ خواتین ہی خواتین کی ہمت افزائی کر رہی ہیں اور ان کی پیٹھ تھپتھپا رہی ہیں ‘‘ ڈاکٹر اسماء زہرہ صدر شعبہ خواتین آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو ان کی غیرمعمولی مذہبی،سماجی، طبی و تعلیمی دیرینہ خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ دینا مقصود تھا ’’لیکن وہ بیرونی دورہ پر گئی ہوئی تھیں اس لئے ان کی جانب سے یہ ایوارڈ محترمہ انیس عائشہ نے سیدہ عابدہ کریم صدر شعبہ خواتین بزم علم و ادب کے ہاتھوں قبول کیا اور ان تک پہنچانے کا وعدہ بھی کیا!
ڈاکٹر مفتیہ رضوانہ زرین،پرنسپل وشیخ الحدیث جامعات المومنات کو شہر حیدرآباد دکن میں طالبات کو بالخصوص مذہبی تعلیمات سے آراستہ کرنے میں ان کی گراں قدرخدمات کے پیش نظر سیدہ عابدہ کریم کے ہاتھوں ایوارڈ پیش کیا گیا !ایوارڈ پاکر انہوں نے کہا کہ ’’میرے لئے یہ بات انتہائی باعث مسرت ہے کہ جو ایوارڈ آج مجھے ملا ہے یہی ایوارڈ 2017 میں میری استاد محترمہ اشرف رفیع صاحبہ کو دیا گیا تھا اور آج ان کی موجودگی میں مجھے اس باوقار ایوارڈ سے نوازا جا رہا ہے‘‘۔
پروفیسر آمنہ تحسین ،انچارج ڈائرکٹر، مرکز شعبہ تعلیم نسواں ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کو ان کی مسلسل تعلیمی سرگرمیوں، تحقیقی و تخلیقی صلاحیتوں سے اردو ادب میں نمایاں شناخت بنانے اور دیرپا گراں قدر خدمات کے اعتراف میں پروفیسر فاطمہ بیگم پروین کے ذریعہ ایوارڈ دیا گیا ! پروفیسرآمنہ تحسین نے ایوارڈ ملنے کی خوشی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’ظاہر ہے ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے کارناموں کی پذیرائی ہو ! اور آج آپ تمام کے روبرو اس ایوارڈ کو قبول کر کے میں بہت خوشی محسوس کر رہی ہوں !اس خوشی کی فراہمی کے لئے میں بزم علم و ادب کی شکرگزار ہوں !اور مبارکباد پیش کرتی ہوں ! نوجوان لڑکیوں کی ایک کثیر تعداد جو یہاں دکھائی دے رہی ہے انہیں متحرک کرنا بہت بڑا کام ہے ! اس طریقہ سے جب ہم نوجوان نسل کو اپنے ساتھ ،اپنے کام میں شامل کریں گے تو وہ دن دور نہیں جب سامنے بیٹھی لڑکیاں شہ نشین پر موجود ہوں گی اور ایسے ہی کسی ایوارڈ کو حاصل کر رہی ہوں گی ساتھ ہی اپنا اور اپنے خاندان کا نام روشن بھی کریں گی !

محترمہ ثریا جبین معتمد نشر و اشاعت محفل خواتین، کو دنیائے اردو ادب میں بحیثیت افسانہ نگار اپنی منفرد شناخت بنانے اور ادبی سرگرمیوں میں ان کی گراں قدر خدمات کی پذیرائی کے لئے پروفیسر اشرف رفیع کے ذریعہ ایوارڈ دیا گیا ! ایوارڈ لیتے ہوئے انہوں نے یہ اعزاز بخشنے پر شعبہ کی تمام ذمہ داران اور اراکین کا شکریہ ادا کیا !
محترمہ مظفرالنساء ناز کہنہ مشق شاعرہ، خازن و بانی محفل خواتین کو نصف صدی پر مشتمل شعر گوئی کے اعتراف میں پروفیسر اشرف رفیع کے ذریعہ ایوارڈ پیش کیا گیا ! ایوارڈ پانے کے بعد اظہار مسرت سے انہوں نے کہا’’حیدرآباد جیسے ادب کے گہوارے میں یہ پہلی خواتین کی تنظیم ہے! جو مختلف شعبہ حیات میں کارہائے نمایاں انجام دینے والی خواتین کو انتہائی منظم طریقے سے اعزاز بخشتی ہے جو کہ ایک قابل تقلید اقدام ہے اور اسکی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے‘‘
ڈاکٹر صبیحہ نسرین قادری شمسی،ڈائرکٹر ادارہ دبستان حجاز ، کو ’’سات روز میں اردو سیکھئے‘‘ کتاب کی اشاعت اور دیگر اردو زبان اور شعر و ادب کے فروغ میں کی جانے والی ان کی دیرینہ خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں ’’فروغ اردو‘‘ کا ایوارڈ پروفیسر اشرف رفیع کے ہاتھوں پیش کیا گیا ! انہوں نے ایوارڈ کے لئے شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی کتاب کے بارے میں اور اس دستاویزی فلم کے بارے میں بتایا جو وہ بنانے جارہی ہیں‘‘!
اس جلسہ کے مہمان خصوصی پروفیسر فاطمہ بیگم پروین سابق صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ نے خاکسار کو ’’پر بہار ناظم اجلاس‘‘ کا خطاب دیتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’حیدرآباد میں یوں تو ہر روز کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی جلسہ ہوتا رہتا ہے لیکن بہت کم ایسے جلسے ہوتے ہیں جن میں انفرادیت ہوتی ہے ! آج کا جو جلسہ ہے اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس میں زندگی کے تمام جہات کی نمائندگی کرنے والی شخصیتیں موجود ہیں!جیسے کہ ڈاکٹر،وکیل،ادیبہ،شاعرہ،سماجی و مذہبی جہدکار وغیرہ وغیرہ! اس جلسہ کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں نفاست بھی ہے،خوبصورتی بھی ہے،تخلیقیت بھی ہے،خلوص بھی ہے اور محبت بھی ہے بلکہ اس میں زندگی کا ہر رنگ شامل ہے!اور یہاں جس طریقے سے اپنے آپ کو دوسروں کے ساتھ خوش ہونے کا موقع فراہم کیا گیا ہے یہ زندگی کے لئے بہت بڑی چیز ہے اور یہی آج حاصل زندگی بھی ہے !‘‘
پروفیسر اشرف رفیع جن کی زیر سر پرستی یہ اجلاس منعقد کیا گیا تھا! انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’آئے دن کئی تنظیمیں بنتی رہتی ہیں ،بکھرتی ہیں اور پھر ختم بھی ہو جاتی ہیں ! کسی تنظیم کو نہ صرف منظم طریقے سے چلانا بلکہ شان سے چلانا اور اس کی ساکھ کو قائم رکھنا یہ ایک بہت بڑی بات ہے خاص کر خواتین کے لئے اور خواتین ہی اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے بھی یہ کام بڑے حسن و خوبی سے انجام دے سکتی ہیں جس کا ثبوت آج کا یہ جلسہ ہے جہاں بزم سے جڑی تمام خواتین اپنے وقت پر اپنا کام بخوشی انجام دے رہی ہیں ! مجھے امید ہے کہ خواتین اس بزم کو مزید مستحکم کرنے کیلئے آگے آئیں گی اور زیادہ سے زیادہ ہر کام میں حصہ بھی لیں گی کیونکہ جس کام میں خلوص ہوتا ہے وہ کام قابل قبول ہوتا ہے ‘‘۔

سیدہ عابدہ کریم نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ’’یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ مجھ جیسی ناچیز کو یہ عزت بخشی کہ میں نے آج آپ تمام کے ساتھ اپنی دو کتابوں کا رسم اجراء انجام دیا! ان کتابوں کی اشاعت کا مقصد یہی ہے کہ جتنی بھی خواتین علم و ادب کے میدان سے جڑی ہیں ان میں دین سے بھی محبت پیدا ہو اور وہ احکام شریعت کی پابندی کریں !‘‘ ساتھ ہی انہوں نے تمام شرکائے محفل کا شکریہ بھی ادا کیا! اس کے بعد نماز مغرب کے لئے وقفہ کا اعلان کیا گیا !موسم گرما کی مناسبت سے ریفریشمنٹ کے ساتھ ٹھنڈی چھانچ اور لسی کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ جسے والنٹیرز حفصہ فاطمہ منیرا، ایمان فاطمہ آفرین فاطمہ وغیرہ نے بڑی مستعدی کے ساتھ سب کو تقسیم کیا ! یہی نہیں ان والنٹیرز نے جلسہ گاہ میں مہمانوں کے استقبال، بیاجس اور کتب کی تقسم و نیز ڈسپلن قائم رکھنے میں بھی موثر رول ادا کیا جس کی وجہ سے جلسہ نہایت ہی پرسکون ماحول میں نظم وضبط کے ساتھ شائستگی سے انجام پایا جس کے لئے نئی نسل کے والنٹیرز واقعی مبارکباد کے مستحق ہیں ! بزم کے اراکین عاملہ نجمہ سلطانہ،اسماء خلیق،کنیز فاطمہ بی بی، طاہرہ، فنصرنا نے بھی دیگر امور کے انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بہت اہم رول ادا کیا جس کے بغیر یہ جلسہ کا انعقاد ممکن نہ تھا !
وقفہ کے بعدکہنہ مشق شاعرہ مظفرالنساء ناز کی صدارت میں غیر طرحی مشاعرہ کا آغاز ہوا ! ڈاکٹر عطیہ مجیب عارفی نے نظامت کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے مہمانان خصوصی ڈاکٹر ریاض فاطمہ تشہیر،حنا شہیدی،نصرت ریحانہ آصف اور مونا الزبتھ کورین اور معزز شاعرات کو شہ نشین پر مدعو کیا ! پروفیسر اشرف ر فیع، ریاض فاطمہ تشہیر، حنا شہیدی،نصرت ریحانہ آصف،مظفر النساء ناز،سنیتا للا، کمد بالا،مونا الزبتھ کورین،اسریٰ منظور، نسرین نور،رفیعہ نوشین،عطیہ مجیب عارفی،صائمہ متین، تجمل تاج نے اپنا منتخب کلام سناکر خوب داد حاصل کی !
مظفر النساء نے صدارتی کلمات میں سارے شاعرات کے کلام کو انتہائی معیاری قرار دیتے ہوئے سب کی حوصلہ افزائی کی !
نور النساء نسرین خازن بزم کے شکریہ کے ساتھ ہی اس محفل کا اختتام عمل میں آیا ! جس کی خاصیت یہ تھی کہ جلسہ ٹھیک 5.30 شروع ہوا اور 9.30اختتام پذیر ہوا! اور پابندی وقت کی مثال قائم ہوگئی ورنہ تو ادبی محفلوں کا گھنٹہ دیڑھ گھنٹہ تاخیر سے شروع ہونا اور پھر اسی تاخیر سے اختتام پذیر ہونا روایت بن گیا ہے ! جسے توڑنا لازمی تھا جسے خواتین کی تنظیم نے کر دکھایا ! اور یہ دیگر پروگرامس کے لئے مثال بن گیا اور اس میں مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ اس طرح پابندی وقت کا مظاہرہ بھی خواتین ہی کی جانب سے ہوا – اس تقریب نے سب کے ذہن میں یہ بات نقش کردی کہ خواتین اپنی ہمت اور حوصلے سے مردوں کے شانہ بشانہ ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں اور ایک تعمیری کردار ادا کر رہی ہیں !
رب کائنات نے انسانوں کو یہ سمجھا دیا ہے کہ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ اور ان رنگوں کی بوقلمونی کا وصف صرف عورت ہی کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے !