رفیعہ نوشین
ادب زندگی کا ترجمان ہے اور حیدرآباد دکن ابتداء ہی سے ادب کا مرکز رہا ہے جہاں اہل قلم خواتین و حضرات ہر دور میں ادب کی آبیاری کرتے رہے ہیں۔ بالخصوص خواتین نے دکنی شاعری ہو یا افسانہ نگاری ، ناول نگاری ، طنز و مزاح ہو یا تحقیق و تنقید ہو یا درس و تدریس پر میدان میں اپنی تخلیقات کے ذریعہ اردو زبان اور شعر و ادب کی گرانقدر خدمات انجام دیتے ہوئے اپنا اور اپنے علاقہ کا نام ر وشن کیا ہے اور شہرت حاصل کرتے ہوئے ادبی دنیا میں اپنا نمایاں مقام بنایا ہے۔
حیدرآباد کی خواتین تمام شعبہ حیات میں نہ صرف مرد حضرات کے شانہ بہ شانہ قدم ملاکر چل رہی ہیں بلکہ بعض معاملات میں تو مرد حضرات سے آگے ہی نظر آتی ہیں اور کوئی بھی باشعور شخص ان کی صلاحیتوں سے انکار نہیں کرسکتا۔
چنانچہ شعبۂ خواتین بزم علم و ادب نے مذہبی ، سماجی ، علمی ، تعلیمی ، شعری ادبی اور فلاحی خدمات انجام دینے والی ایسی سرکردہ خواتین کی دیرینہ خدمات کے اعتراف میں 4 فروری 2017 ء کو سات نامور و ممتاز خواتین کی مختلف اصناف اردو ادب میں دیرینہ خدمات کے اعتراف میں باوقار علمبردار اردو ایوارڈ و توصیف نامے سے نوازا۔ اس کے علاوہ پانچ اسکولوں کو شیلڈ اور 114 طالبات کی شعبہ کی جانب سے منعقد کردہ اردو جنرل نالج ٹسٹ میں حصہ لے کر کامیابی حاصل کرنے والی طالبات کی جو انعام اول دوم و سوم کے حقدار تھے ، انہیں رقمی انعامات کے علاوہ کتابیں اور اسناد سے نوازا گیا ۔ اسی طرح اچھے نمبرات حاصل کرنے والی طالبات کو ترغیبی انعام کے طور پر کتابیں اور اسناد پیش کئے اور دیگر شریک امتحان تمام طالبات کی اسناد دیئے گئے تاکہ ان تمام طالبات کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ دیگر مسابقتی امتحانات میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیں۔ بزم علم و ادب کا قیام 2004 ء میں عمل میں آیا ۔ اس وقت سے یہ بزم اردو زبان اور شعر و ادب کی ترویج و ترقی کیلئے خدمات انجام دیتی آرہی ہے جس کے بانی صدر ڈاکٹر نادر المسدوسی ہیں جو ایک انتہائی مخلص اور فعال شخصیت کے حامل ہیں۔ بزم نے 2006 ء سے ریاست میں خدمات انجام دینے والے ادیبوں ، شاعروں اور صحافیوں کے علاوہ اردو زبان کی ترویج و ترقی میں اپنا بہترین رول ادا کرنے والوں کو ایوارڈ کی پیشکشی کا آغاز کیا جس کے تحت تاحال ریاست کے 51 نمائندہ اردو شخصیات کو ایوارڈ و توصیف نامے بہت ہی تزک و احتشام کے ساتھ پیش کئے جو سارے کے سارے مرد حضرات پر مشتمل تھے۔
8 اکتوبر 2016 ء کو بزم کی ایوارڈ تقریب کی تفصیلی رپورٹ روزنامہ سیاست میں شائع ہوئی تو رفیعہ نوشین جوایک ادیبہ ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی جہد کار بھی ہیں، نے محسوس کیا کہ ایوارڈز کی پیشکشی میں خواتین ندارد ہیں جبکہ اپنی فکر و شعور کی بدولت ہر میدان سخن میں خواتین نے اپنی انفرادیت کو تسلیم کروالیا ہے ۔ لہذا انہوں نے اخبار سیاست کے ذریعہ یہ پیغام صدر بزم ڈاکٹر نادر المسدوسی تک پہنچایا کہ اگر خواتین کو بھی ان کی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈز دیئے جائیں تو ان کیلئے باعث توقیر ہوگا ۔ ڈاکٹر نادر المسدوسی نے فوراً اس تجویز کو قبول کرتے ہوئے فیصلہ لیا کہ یقیناً یہ بات قابل قبول ہے جس پر عمل آوری ہونی چاہئے اور پھر انہوں نے بزم شعبہ خواتین کے ذمہ داروں کو اس جانب توجہ مبذول کروائی اورانہیں حیدرآباد کی نامور ادیبات ، شاعرات اور اردو زبان کی ترویج و ترقی میں حصہ لینے والی خواتین کے علاوہ مذہبی و ادبی و سماجی دیرینہ خدمات انجام دینے والی خواتین کے انتخاب کیلئے رائے مشورے کے بعد (7) نامور و ممتاز سینئر خواتین کا انتخاب عمل میں لایا اور ایوارڈ تقریب کا اعلان کیا۔ اس تقریب و پیشکشی علمبردار اردو ایوارڈ توصیف نامے کی تفصیلات یہاں پر قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش کی جاتی ہیں۔ 4 فروری 2017 ء کو 5 بجے شام سے خواجہ شوق ہال اردو مسکن خلوت میں اردو اسکول کے اساتذہ ، طالبات اور اردو دنیا کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی معزز خواتین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا جہاں بزم علم و ادب شعبہ خواتین نے علمبردار اردو ایوارڈ و توصیف نامہ کی پیشکشی کیلئے ایک باوقار اور شاندار تہنیتی جلسہ کا اہتمام کیا تھا ۔
تہنیتی جلسہ کا رسمی طور پر آغاز صدر شعبہ خواتین محترمہ سیدہ عابدہ کریم کی قراء ت کلام پاک سے ہوا جبکہ موناسا سمین نے ہدیہ نعت پیش کی ۔ نائب صدر شعبہ خیر النساء علیم نے مہمانان خصوصی ڈاکٹر آمنہ تحسین (ڈائرکٹر سنٹر فار ویمن اسٹیڈیز مانو) زرینہ پروین (ڈائرکٹر آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ) اور ڈاکٹر نکہت آرا شاہین (پرنسپال اردو آرٹس کالج) اور مہمانان اعزازی ڈاکٹر حمیرہ جلیلی ، محترمہ حامدی بیگم ، محترمہ انیس عائشہ اورمحترمہ عقیلہ خاموشی کا استقبال کرتے ہوئے نظامت کے فرائض شریک معتمد بزم رفیعہ نوشین کو سونپ دیا جنہوں نے شعبہ خواتین کی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے بزم کے اغراض و مقاصد ، سرگرمیاں اور دیگر امور کے بارے میں کثیر تعداد میں موجود سامعین کو تفصیلی جانکاری فراہم کی۔ رپورٹ کی پیشکشی کے بعد خیرالنساء علیم ، عاصمہ خلیل اور رفیعہ نوشین نے تمام ایوارڈ یافتہ گان کا اجمالی جائزہ پیش کیا اور مہمانان خصوصی و اعزازی کے ذریعہ ان تمام کی گلپوشی و شال پوشی کی گئی اور علمبردار اردو ایوارڈ و توصیف نامے سے سرفراز کیا گیا ۔ جن معزز خواتین کو یہ ایوارڈ اور توصیف نامے پیش کئے گئے ان کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں۔ (1) محترمہ امتہ الغفور صادقہ کو بہترین قاریہ (2) محترمہ صبیحہ صدیقی صدر تنظیم بنت حرم کو مذہبی و سماجی جہد کار (3) محترمہ پر وفیسر ڈاکٹر اشرف رفیع کو درس و تدریس (4) محترمہ پروفیسر حبیب ضیا کو طنز و مزاح (5) محترمہ نسیمہ تراب الحسن کو انشاء پروازی (6) محترمہ فاطمہ تاج کو بہترین شاعرہ اور (7) محترمہ قمر جمالی کو بہترین فکشن رائیٹر کی حیثیت سے دیرینہ نمایاں خدمات کے اعتراف میں علمبردار اردو ایوارڈ کی پیشکشی عمل میں آئی ۔ اس کے علاوہ 22 جنوری 2017 ء کو مختلف اسکول کی طالبات کیلئے جنرل نالج کا ٹسٹ رکھا گیا تھا جس میں شریک ہونے والے 5 اسکول، معظم جاہی مارکٹ ہائی اسکول ،گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول نامپلی ، تلنگانہ میناریٹیز ریذیڈنشل اسکول شاہ علی بنڈہ ، پرنس عین گرلز ہائی اسکول، صفدریہ گرلز ہائی اسکول کی شریک مقابلہ کو شیلڈ دیئے گئے جبکہ ان اسکولوں سے مقابلہ میں شریک ہونے والے تمام 114 طالبات کو شریک مقابلہ سند اور کتابیں بطور تحفہ دی گئیں۔
اس مقابلے میں معظم جاہی مارکٹ ہائی اسکول کی طالبہ یاسمین سلطانہ کو انعام اول (1000/-) پرنس عین اسکول کی طالبہ تنویر سلطانہ کو انعام دوم 750/- اور صفدریہ اسکول کی طالبہ ثمرین بیگم کو انعام سوم (500/-) دیا گیا ۔ اس کے علاوہ 13 ترغیبی انعامات کی تقسیم بھی عمل میں آئی جسے پاکر نہ صرف اسکول کے اساتذہ بلکہ طالبات نے بھی انتہائی مسرت کا اظہار کیا ۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر نکہت آراء شاہین نے اپنے خطاب میں بزم علم و ادب کے اس اقدام کو مثالی قرار دیتے ہوئے کافی سراہا۔ تقسیم ایوارڈ کے فوراً بعد ممتاز ادیبہ و شاعرہ محترمہ پروفیسر اشرف رفیع کی صدارت میں ایک یادگار مشاعرہ کی محفل سجائی گئی جس کا آغاز قاریہ ایمان فاطمہ کی قراء ت کلام پاک سے ہوا اور حیدرآباد کی نامور شاعرات ریاض فاطمہ تشہیر ، تسنیم جوہر ، نصرت ریحانہ آصف ، اسریٰ منظور، خیر النساء علیم، عاصمہ خلیل اور تجمل فاطمہ نے اپنا منتخب کلام سناکر سامعین کو خوب محظوظ کیا اور داد و تحسین حاصل کی۔ مشاعرہ کے اختتام پر پروفیسر اشرف رفیع نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ’’بزم علم و ادب کے شعبہ خواتین نے مختلف زمروں میں خواتین کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انہیں ایوارڈ اور توصیف ناموں سے نوازا ہے جو کہ واقعی باعث مسرت ہے اور خواتین کا جو مشاعرہ یہاں منعقد ہوا ہے اسے سن کر مجھے اس زمانے کی یاد آگئی ۔ جب مشاعروں میں خوا تین کو کافی عزت و احترام سے بلایا جاتا تھا۔ آج کل مشاعرے کمرشیل ہوگئے ہیں۔ جہاں شاعرات کو محض اسلئے بلایا جاتا ہے کہ مشاعرہ چلے اور لوگ آئیں‘‘۔
بعد ازاں رفیعہ نوشین نے فرداً فرداً سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جلسے کی اختتامی کارروائی انجام دی ۔ آخر میں اس بات کا تذکرہ کرنا بے حد ضروری ہے کہ خواتین کو ایوارڈز کی پیشکشی کی یہ تحریک اگر کامیاب ہوئی ہے تو اس کا سہرا اخبار سیاست کے سر بھی جاتا ہے، جس نے خواتین کی آواز کو مستحکم بنانے اور اس پر عمل آوری ہونے میں کافی اہم رول ادا کیا ہے ۔ جس کیلئے بزم علم و ادب جناب زاہد علی خان اور اخبار سیاست کے ممنون و مشکور ہے ۔ اس کے علاوہ ذمہ داران شعبہ خواتین نے اردو اکیڈیمی تلنگانہ کے ڈائرکٹر و سکریٹری پروفیسر ایس اے شکور کا بھی شکریہ ادا کیا جن کی جزوی مالی امداد اس پرشکوہ تقریب کا انعقاد عمل میں لانے میں ممد و معاون رہی۔