ڈاکٹر سلیم عابدی
اردو زبان و ادب کی بقاء اور استحکام کیلئے شعراء و ادیب، صحافی حضرات کی خدمات گرانقدر ہیں ان کے اعتراف خدمات اور تہنیتی جلسے کے بہانے ان کو اعزازات سے نوازنے سے نہ صرف حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ ان کے کاموں میں مزید اضافہ ہوتا ہے چنانچہ بزم علم و ادب اپنے قیام سے ہی اس مقصد کو لئے خدمات انجام دے رہی ہے اور گذشتہ ہفتہ یکم اکٹوبر 2016 کو تلنگانہ ریاست کے ڈپٹی چیف منسٹر محمود علی صاحب نے بزم کے جلسہ ایوارڈس میں شرکت کرتے ہوئے 11 شخصیات کو علمبردار ایوارڈس اور اردو اسکولس صدور، اساتذہ، طلبہ کو بھی خصوصی ایوارڈس دیئے، جو اپنی نوعیت کے منفرد اور خصوصی تیار کردہ تھے۔
بزم علم و ادب کی خدمات تاحال 51 شخصیات کو دیئے گئے ایوارڈس اور صدر بزم کی شخصیت پر اقتباسات پیش ہیں۔
بزم علم و ادب حیدرآباد گزشتہ ایک دہے سے زیادہ عرصہ سے اردو زبان، شعر و ادب کی ترویج و ترقی کے لئے خدمات انجام دیتے آرہی ہے۔ اس طرح ریاست میں خدمات انجام دینے والے ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کے علاوہ محبان اردو کے اعتراف خدمات میں ہر سال ایوارڈز، توصیف نامے بہت ہی تزک و احتشام کے ساتھ پیش کئے جاتے ہیں۔ بزم علم و ادب کا یہ کارنامہ ہے کہ اس کے تمام کارپرداز مشترکہ طور پر ریاست ( شہر حیدرآباد اور اضلاع ) میں مخلصانہ اردو زبان، شعر و ادب کی خدمات انجام دینے والوں کو ڈھونڈ نکالتے ہیں اور ان کی پذیرائی کرتے ہوئے مزید بہتر اقدامات کے لئے جذبہ پروان چڑھانے میں اپنا رول ادا کررہی ہے۔ اس تلاش میں کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بزم سے وابستہ تمام عہدیدار و اراکین خود بھی تمام ریاست میں خدمات انجام دینے والے مخصلین و محبان سے واقفیت رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کون کیا کررہا ہے۔ یہی وجہ یہ کہ گزشتہ پیش کئے گئے 40 نمائندہ اردو شخصیات کو ایوارڈز کی پیشکشی پر سبھی اردو داں اصحاب پروفیسرز، ڈاکٹرز، شعراء، ادباء، وکلاء نے اپنی پسندیدگی اور حق بجانب ہونے کا اظہار کیا اور بزم علم و ادب کے ذمہ داروں کی ستائش کی کہ ساری ریاست ( حیدرآباد و اضلاع ) سے ایوارڈز کیلئے انتخاب کرنا واقعی قابل قدر کام ہے اور اس کا سہرہ صدر بزم ڈاکٹر نادرالمسدوسی کے سر جاتا ہے۔ اس کا اندازہ قارئین خود اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ بزم کی جانب سے 2006 ء شہر و اضلاع کے شعراء، ادباء و صحافی حضرات کے علاوہ بے لوث اردو زبان کی ترویج و ترقی میں اپنا رول ادا کرنے والوں کو ایوارڈز پیش کئے گئے ہیں وہ اس طرح ہیں: پہلا ایوارڈ کا جناب حلیم بابر، ڈاکٹر سلیم عابدی ( محبوب نگر ) سے آغاز ہوا۔دوسرا ایوارڈ گوہر کریم نگری اور جمیل نظام آبادی کو دیا گیا۔ تیسرا ایوارڈ ڈاکٹر نور آفاقی، ظہیر ناصری ( محبوب نگر ) اور نادر اسلوبی و اقبال شیدائی ( ورنگل ) کو۔ چوتھا ایوارڈ پانچ شخصیات پروفیسر فہیم صدیقی ( ناندیڑ )، محب کوثر ( محبوب نگر )، تنویر واحدی ( نظام آباد )، تاج مضطر ( ورنگل ) اور سید مسکین احمد کو دیئے گئے۔ پانچواں ایوارڈ راشد آذر، ناصر کرنولی، صلاح الدین نیئر اور اثر غوری کو پیش کئے گئے۔ چھٹا ایوارڈ مضطر مجاز، سید نصیر الدین احمد، رؤف خلش، ڈاکٹر عقیل ہاشمی اور ڈاکٹر راہی کو عطاء کئے گئے اور ساتواں ایوارڈ مسعود فاروقی ( محبوب نگر ) پروفیسر محمد علی اثر ( حیدرآباد ) ڈاکٹر محسن جلگانوی ( حیدرآباد )، ڈاکٹر ناظم علی ( نظام آباد ) حفیظ انجم ( کریم نگر ) حمیدالظفر، رحیم اللہ خاں نیازی، ایم اے حکیم کو پیش کئے گئے۔ اور آٹھواں ایوارڈ پروفیسر مجید بیدار، صوفی سلطان شطاری، ڈاکٹر م ق سلیم، ڈاکٹر شیخ سیادت علی، ڈاکٹر فاضل حسین پرویز، ڈاکٹر ضامن علی حسرت، عظیم الرحمن، انیس الرحمن اور وحید گلشن کو عطا کئے گئے اور اب نواں ایوارڈ فنکشن یکم اکٹوبر 2016 کو اردو گھر مغلپورہ میں منعقد ہوا۔ بزم کے ذمہ داروں نے اس ایوارڈ کو ’’ علمبردار اردو ایوارڈ ‘‘ کا نام دیا۔ اور یہ ایوارڈ حیدرآباد اور اضلاع کے منتخب ایوارڈ یافتگان کو دیئے گئے جن کے نام اس طرح ہیں: حیدرآباد سے مسرز ایس کے افضل الدین، ڈاکٹر فاروق شکیل ، شوکت علی درد، مولانا حبیب عبدالرحمن الحامد، ڈاکٹر فرید الدین صادق ، جگجیون لعل استھانہ سحر اور سید مسعود جاوید قادری ( ایڈیٹر ماہنامہ تصوف ) کے علاوہ اضلاع کے ڈاکٹر اسلم فاروقی ( نظام آباد )، اجمل محسن ایڈوکیٹ ( ورنگل )، افسر عثمان ( جگتیال کریم نگر ) اور حافظ ابو عاکف انور ( محبوب نگر ) شامل ہیں۔
یہ ایوارڈ تقریب پروفیسر مجید بیدار کی زیر سرپرستی، ڈاکٹر نادرالمسدوسی ( صدر بزم علم و ادب ) کی زیر نگرانی اور ممتاز قانون داں و ادیب جناب عثمان شہید کی زیر صدارت منعقد ہوئی جس میں مہمانان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر عقیل ہاشمی، مولانا رحیم الدین انصاری، ڈاکٹر محسن جلگانوی، صوفی سلطان شطاری، ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد، ڈاکٹر راہی، ڈاکٹر م ق سلیم شامل ہیں۔ ’علمبردار اردو ایوارڈ‘ ڈپٹی چیف منسٹر تلنگانہ محمد محمود علی کے ہاتھوں دیئے گئے۔ بزم کی جانب سے یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ اردو و انگلش میڈیم مدارس جہاں پر اردو کی تعلیم دی جاتی ہے جو کہ یقیناً بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ایسے مدارس کے صدور مدرسین ( ہیڈ ماسٹرس )، اردو معلم ( اردو ٹیچر) اور اسکول میں اعلیٰ درجہ پانے والے اردو طالب علم ( بیسٹ اسٹوڈنٹ ) کو دیئے گئے۔ لہذا حیدرآباد کے 9 ایسے مدارس کو ایوارڈس دیئے گئے ۔
بزم علم و ادب کے ذمہ داران پروفیسر محمد انور الدین (سرپرست اعلیٰ بزم ) ، پروفیسر مجید بیدار ( سرپرست )، سید نصیر الدین احمد ( سرپرست بزم )، محمد عثمان شہید ایڈوکیٹ ( مشیر قانونی بزم ) ڈاکٹر نادرالمسدوسی ( بانی و صدر بزم )، ڈاکٹر سلیم عابدی ( نائب صدر بزم ) حلیم بابر انجینئر ( معتمد عمومی ) سید یوسف روش ( خازن ) سہیل عظیم ( معتمد شعبہ اشاعت ) اراکین عاملہ فرید سحر، ڈاکٹر ناظم علی اور ایم اے حمید قابل مبارکباد ہیں کہ اردو زبان، شعر و ادب کی نہ صرف بے لوث مخلصانہ خدمات انجام دیتی آرہی ہے بلکہ بے لوث و مخلصانہ خدمات انجام دینے والوں کی قدر کرتے ہوئے ان کی بھرپور پذیرائی بھی کرتی آرہی ہے اور یہ تمام اداروں وانجمنوں کے لئے قابل تقلید عمل ہے۔ اس بزم کے معتمد عمومی حلیم بابر کو دیرینہ خدمات کے اعتراف میں حکومت آندھرا پردیش اردو اکیڈیمی نے کارنامہ حیات ایوارڈ سے سرفراز کیا، ایسے قابل لوگ اس بزم میں شامل ہیں۔ اس خصوص میں اس بات سے بھی سبھی بخوبی واقف ہیں کہ اس بزم کے صدر ڈاکٹر نادر المسدوسی کی غیر معمولی تنظیمی صلاحیتوں کی بناء پر تمام مذکورہ اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ بزم کے قیام ( 2014) سے اب تک کامیابی کے ساتھ گرانقدر خدمات انجام دیتے آرہے ہیں اور شہرو اضلاع کے علاوہ جہاں جہاں بھی اردو زمین ہے مقبولیت حاصل کرچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاض( سعودی عرب ) میں قائم اردو ادارہ ’ تنظیم ہم ہندوستانی ‘ نے صدر بزم علم و ادب ڈاکٹر نادرالمسدوسی کو ان کے اردو زبان، شعر و ادب کی دیرینہ مخلصانہ خدمات کو کارنامہ حیات قرار دیتے ہوئے انہیں 2015میں ’’ فرزند اردو ‘‘ ایوارڈ و توصیف نامہ سے نوازا ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ بزم علم و ادب کو پروان چڑھانے میں ان کے تمام ساتھیوں کا کسی نہ کسی طرح سے بھرپور رول رہا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بزم علم و ادب کا قیام عمل میں لائے بارہ سال ہوچکے ہیں لیکن ڈاکٹر نادرالمسدوسی کی خدمات صرف بارہ برسوں کی نہیں بلکہ وہ گزشتہ تقریباً 40 برسوں سے مختلف مذہبی، سماجی، ادبی، تعلیمی خدمات انجام دیتے آرہے ہیں۔ اس طرح ان کی خدمات کو 2004ء سے نہیں بلکہ 1980 سے دیکھا جانا چاہیئے کہ اس طویل عرصہ میں انہوں نے بے شمار مصائب و مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے قربانیاں دیتے ہوئے اپنی گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔