برکھا دت کا مضمون ۔ ہندو ستان کی سیاست کا نیا مقصدسکیولرازم نہیں بلکہ علاقہ واریت

علاقائی شناخت اور مقامی فورسس کی اجارہ داری کا والی پارٹیوں سے زیادہ تکلیف کانگریس کو ہوگی۔ قومی امکان ہے کہ 2019کا الیکشن ہندوتوا بمقالہ طبقہ واری سرگرمی پر مشتمل ہوگا۔

حالیہ دنوں میں سینئر وکیل اور کانگریس ترجمان ابھیشک سانگھوی کی لکھی کتاب کی رسم اجرائی کے دوران ایک پینل تبصرہ کے موقع پر میں نے اسپیکرس سے ’’ سکیولرازم ‘‘ کی اصطلاح پر سوال کئے تھے۔

سنگھوی کے تعریفی خطبہ میں سکیولرازم کی پہچان جمہوری ہندوستان کے پہلے اصول قراردی گئی۔تنوع کے فلسفانہ تصور اورمساوات کے ا ئینی ضمانت کے طور پر یقیناًمیں بھی اس سے اتفاق کرتی ہوں ۔ یہ ہندوستان کو منفرد اور خوبصورت بناتا ہے۔مگر میری دلچسپی اس کو تقویت دینے میں تھی کہ کیا اب بھی سیاسی دورائیاں میں یہ ایک نشاندہی کا کام کرے گا۔

کیا سکیولرزام ایک انتخابی نعرے کے طور پر پہچانے جانے والی شئے بن گئی ہے؟۔ ترنمول کانگریس کے دانش ترویدی نے اس کابات کا احیاء کیا اور کہاکہ’’ یہ سکیولرزام کی بحث تمام سیاسی ہے‘‘۔

وہ مذہبی تکثیرت کے مخالف نہیں تھے جس کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وہ بے شمار ہیں ‘ ان کا ریمارکس انتخابی محور پر گردش کررہے تھے۔مگر ان کی پارٹی سربراہ ممتابنرجی او رشیوسینا چیف ادھو ٹھاکرے کے درمیان میں ہوئی ملاقات پر یہ لاگو نہیں ہوتی۔

اپنے والد کے برعکس ادھو وہ ہیں جنہیں میں نے ’’ بے حد بنیاد پرست‘‘ قراردیا ہے۔ان کی پارٹی روایتی شدت پسندی کی وجہہ سے کوئی بھی شیوسینا کو سکیولر فورسس قراردینے میں ہچکچائے گا۔

پھر مغربی بنگال کی چیف منسٹر نے کہاکہ شیوا سینا کے احترام میں ہے کہ بی جے پی سے زیادہ فرقہ پرست کوئی اور نہیں ہے۔ ا سکے بعد سے مخالف مودی فیڈرل فرنٹ فورسس کا ادھو حصہ بن گئے یہاں تک انہوں نے مہارشٹرا میں بی جے پی سے اپنا اتحاد ختم نہیں کیاہے۔