برطانیہ کی علحدگی سے یوروپی یونین کے زوال کا آغاز

محمد ریاض احمد
برطانیہ کے یوروپی یونین میںرہنے یا نہ رہنے کے مسئلہ پر ایک طویل عرصہ سے مباحث جاری تھے بعض برطانوی سیاسی جماعتیں خاص کر انڈی پینڈنٹ پارٹی کے قائدین گذشتہ دو دہوں سے برطانیہ کی یوروپی یونین سے علیحدگی کی مہم چلارہے تھے لیکن انہیں اپنی مہم میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی تاہم جمعرات کو اس مسئلہ پر ہوئے ریفرنڈم یا استصواب عامہ  میں 52 فیصد عوام نے یوروپی یونین سے علیحدگی اختیار کرنے اور 48 فیصد نے یونین کا حصہ بنے رہنے کے حق میں ووٹ دیا جس کے ساتھ نہ صرف برطانیہ بلکہ یوروپی یونین کے28 رکن ممالک میں ایک طرح کی بے چینی اور سیاسی ہلچل مچ گئی ہے اور اس کے اثرات ایشیائی ممالک میں بھی محسوس کئے جارہے ہیں خود برطانوی وزیر اعظم مسٹر ڈیویڈ کیمرون نے جو ہمیشہ اپنے ملک کے یوروپی یونین میں شامل رہنے کے حامی رہے ریفرنڈم کے نتائج سے اس قدر مایوس ہوئے کہ انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کے باوقار عہدہ سے مستعفی ہونے کا اعلان ہی کردیا۔ دوسری طرف جرمنی ، فرانس اور یوروپی یونین میں شامل دیگر اہم ملکوں نے برطانیہ کے یوروپی یونین سے نکل جانے کی راہ ہموار ہونے پر شدید مایوسی ظاہر کی ہے۔ بعض قائدین نے تو اسے مایوس کن اور تباہ کن دن سے تعبیر کیا۔ آپ کو بتادیں کہ یوروپی یونین ایک 28 رکنی ادارہ جس میں برطانیہ کے علیحدہ ہوجانے کے بعد 27 ممالک ہی باقی رہ گئے ہیں اور اب تو ان 27 ملکوں میں سے بعض نے تو یوروپی یونین سے علیحدہ ہونے کیلئے آوازیں اُٹھانی شروع کردی ہیں ان میں ہالینڈ، پولینڈ اور فرانس جیسے اہم ترین یوروپی ملک بھی شامل ہے، یہ آوازیں اگر ہنوز بلند نہ ہوسکیں لیکن آنے والے دنوں میں بلند ہونے کے قوی امکانات پائے جاتے ہیں۔ یوروپی یونین کے دیگر رکن ممالک میں آسٹریا، بیلجیم، بلغاریہ، کروشیا، قبرص، چیک جمہوریہ، ڈنمارک، اسپتونیا، فن لینڈ، فرانس، جرمن، یونان، ہنگری، آئر لینڈ، اٹلی، لاوتویا، لیتھونیا، لکسمبرگ، مالٹا، نیدر لینڈ، پولینڈ، پرتگال، رومانیہ، سلواکیہ، سلوانیہ، اسپین اورسویڈن شامل ہیں، اگر اس میں برطانیہ کو شامل کرکے اس کی ( یوروپی یونین کے رکن ممالک ) کی آبادی اور اس کے رقبہ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان ملکوں کا مجموعی رقبہ 4,334,782 کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے اور ان میں 508 ملین لوگ بستے ہیں۔ یوروپی یونین نے یوروپی کونسل، کونسل آف دی یوروپین یونین، یوروپی پارلیمنٹ، یوروپی کمیشن، کورٹ آف جسٹس آف یوروپی یونین، یوروپین سنٹرل بینک اور یوروپین کوٹ آف آڈیٹرس جیسے اپنے اداروں کے ذریعہ اٹھائیس ملکوں کے اس بلاک کو مستحکم کیا۔

اس یونین نے اپنے رکن ممالک کی معیشت اور عالمی سیاست میں ان کے موقف و مضبوط بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی لیکن یورو کرنسی متعارف کروانے کے بعد ابتداء میں وہ کافی مستحکم رہی لیکن عالمی معاشی انحطاط نے یورو کرنسی کی قدر کو شدید متاثر کردیا۔ اس طرح امریکی ڈالرس اور برطانوی اسٹرلنگ پاؤنڈس کے شانہ بہ شانہ چلنے والی یورو کرنسی کی قدر خطرناک حد تک گھٹ گئی اور وہیں سے یوروپی یونین میں اختلافات اور ایک طرح سے زوال کا آغاز ہوگیا۔ برطانوی عوام کی اکثریت (چاہے وہ 2فیصد کی اکثریت کیوں نہ ہو ) کے یوروپی یونین سے علیحدہ ہونے کے حق میں ووٹ دینے کے بعد تو سب سے بڑا بحران برطانیہ میں پیدا ہوگیا ہے۔ اس ریفرنڈم میں 52 فیصد لوگوں نے یوروپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا۔ 48 فیصد نے مخالفت کی۔ ویسٹ مڈلینڈ، ایسٹ مڈ لینڈ، نارتھ ایسٹ  یارک شائر اینڈ دی ہبر، ایسٹ، نارتھ، ویسٹ، ساؤتھ ویسٹ ویلز اور ساؤتھ ایسٹ وغیرہ میں عوام نے یوروپی یونین سے علیحدہ ہوجانے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ شمالی آئرلینڈ لندن، اسکاٹ لینڈ کے عوام نے یوروپی یونین میں شامل رہنے کی حمایت کی۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس اہم ترین ریفرنڈم میں 71.8 فیصد رائے دہی ہوئی، نتائج سے متعلق منظر عام پر آئے اعداد و شمار کے مطابق تین کروڑ سے زائد لوگوں نے ووٹ ڈالے جن میں سے 17410742  لوگوں نے یوروپی یونین سے علیحدہ ہونے اور 16141241 لوگوں نے یوروپی یونین میں شامل رہنے کی تائید کی۔اس سے معلوم ہوا کہ صرف 2فیصد لوگوں کی رائے نے عالمی سطح پر ایک ایسی تبدیلی لائی ہے جس کے عالمی سیاست و معیشت پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔

اس ریفرنڈم کا پہلا شکارخود برطانوی وزیر اعظم ڈیویڈ کیمرون بنے، نتائج کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی مایوس کیمرون نے 10ڈااؤننگ اسٹریٹ پر عجلت میں طلب کردہ پریس کانفرنس میں عہدہ وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ وہ اکٹوبر میں اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجائیں گے۔ ان نتائج کا دوسرا اثر برطانوی کرنسی اسٹرلنگ پاؤنڈس کی قدر پر پڑا ہے۔ برطانوی اسٹاک مارکیٹ شدید متاثر ہوئی ہے۔ چنانچہ 1985 کے بعد یعنی پورے 31سال بعد امریکی ڈالرس کے مقابل اسٹرلنگ پاؤنڈس کم ترین سطح پر آگیا ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اسٹرلنگ پاؤنڈس کی قدر میں مزید کمی آئے گی اس کے داخلی اور خارجی پالیسی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ درآمدات و برآمدات کے علاوہ ادائیگیوں پر اثر پڑے گا۔ اگر برطانوی ریفرنڈم کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ 1992 کے الیکشن کے بعد یہ ووٹنگ کی سب سے زیادہ شرح تھی جس نے یوروپی یونین سے علیحدہ ہونے والے پہلے ملک کا برطانیہ کو اعزاز دلایا لیکن یہ ایسا اعزاز ہے جس سے یوروپی یونین کے ممالک میں افسو س کی لہر دوڑ گئی ہے لیکن برطانوی اقتدار کی راہداریوں میں یہ پیش قیاسیاں زوروں پر ہیں کہ لندن کے سابق میئر بورس جانس ڈیویڈ کیمرون کے جانشین ہوں گے۔ حال ہی میں پاکستانی نژاد صادق خاں جن کے جانشین بنے تھے۔ برطانوی انڈی پینڈنٹ پارٹی کے قائد نائجل نے اسے برطانیہ کا یوم آزادی قرار دیا ہے اس کے برعکس یوروپی یونین میں برطانیہ کے شامل رہنے کے حامیوں کے خیال میں یہ فیصلہ تباہ کن ہے جس کے منفی اقدامات یوروپی ممالک کے سیاسی ، سماجی، اقتصادی شعبوں پر ضرور مرتب ہوں گے۔ برطانوی عوام کے فیصلہ سے ڈیوڈ کیمرون ، یوروپی یونین کے سربراہ اور جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کو کافی دُکھ پہنچا ہے۔ دوسری طرف ترکی کو بھی اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ ایک مسلم ملک ہونے کے ناطے یونین میں اس کی شمولیت کو روکنے والوں کی کوشش کامیاب ہوجائیں گی کیونکہ یوروپی یونین میں اب برطانیہ نہیں رہا ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ جن سٹے بازوں نے ریفرنڈم میں برطانیہ کے یوروپی یونین میں شامل رہنے پر اربوں ڈالرس اور پاؤنڈس کا سٹہ لگایا تھا انہیں منہ کی کھانی پڑی۔

جرمنی کے وزیر خارجہ فرینک والٹر نے ریفرنڈم کے نتائج کو سارے یوروپ کیلئے تباہ کن قرار دیا ہے۔ برسلز میں یوروپی یونین کے قائدین کافی بے چینی سے برطانوی ریفرنڈم کے نتائج کا انتظار کررہے تھے۔ انہیں اُمید نہیں تھی کہ عوام ریفرنڈم کے ذریعہ برطانیہ اور یوروپی یونین کی 40سالہ رفاقت کا خاتمہ کردیں گے۔ ویسے بھی یوروپی یونین پہلے ہی تارکین وطن یعنی پناہ گزینوں کے بحران سے دوچار ہے۔ معاشی بحران میں بھی وہ گھرا ہوا ہے۔ علاقہ میں روس کے بڑھتے اثر سے بھی وہ کمزور ہوگیا ہے۔ مسلم پناہ گزینوں کی کثیرتعداد کو لے کر وہاں عوام میں غلط فہیمیاں پیدا کی جارہی ہیں ، اب یوروپی باشندوں کو سب سے زیادہ فکر یورو کرنسی کی قدر کو لیکر ہے۔ جمعرات تک بھی کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ 1951 اور 1958 میں بالترتیب یوروپین کول اینڈ اسٹیل کمیونٹی (ECSC) اور یوروپین اکنامک کمیونٹی (EEC) کی حیثیت سے 6ملکوں کی رکنیت سے قائم یکم نومبر 1993 کو یوروپی یونین میں تبدیل ہونے والے اس بلاک پر ایسا بھی وقت آئے گا جب وہ اپنا شیرازہ بکھرنے کے قریب ہوجائے گا۔
mriyaz2002@yahoo.com