برطانیہ میں مساجد کا قابل تقلید عمل

غضنفر علی خان
یکم فبروری 2015 کو لندن میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں یعنی مساجد میں اغیار کو دین اسلام کے بارے میں صحیح فہم و ادراک فراہم کرنے کے لئے ’’میری مسجد میں آیئے‘‘ Visit My Masque پروگرام رکھا گیا تھا ۔ اس تعطیل (اتوار) کے دن لندن کے غیر مسلموں اور مساجد کے آئمہ ، علمائے دین اور عام مسلمانوںکے درمیان ربط پیدا ہوا ۔ کئی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا ۔ یہ ایک ایسی احسن کوشش ہے کہ اس کی تقلید ہر شہر ، ہر ملک حتی کہ قریہ قریہ میں ہونی چاہئے تاکہ اسلام کے تعلق سے یہ اغیار کی خود ساختہ غلط فہمی اور بدگمانی ختم ہو کہ خدانخواستہ اسلام دہشت پسندی کا مذہب ہے ۔ یہ تاثر دن بدن گہرا ہوتا جارہا ہے کہ ’’سارے مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتے لیکن سارے دہشت گرد مسلمان ہوتے ہیں‘‘ ۔

ایسا تاثر پیدا کرنے میں مغربی ممالک کے میڈیا نے اہم رول ادا کیا ہے ۔ امریکہ کے ٹریڈ سنٹر پر حملہ کے بعد یہ نعرہ لگایا گیا تھا کہ ’’مسلمان اور دہشت گردی میں گہرا تعلق ہے‘‘ ۔ برطانیہ ، فرانس ، جرمنی جیسے مغربی ممالک میں تارکان وطن لاکھوں مسلمان برسوں سے آباد ہیں ۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہوگا جہاں کی آبادی مسلمانوں کا کچھ نہ کچھ فیصد حصہ نہ ہو ۔ خاص طور پر متذکرہ بالا ممالک میں علاوہ امریکہ ، آسٹریلیا ، مشرقی یوروپ کے ممالک میں مسلمان رہتے ہیں ۔ ان میں سے بعض ممالک کے مسلمانوں نے اپنی شناخت کھودی ، جس کی مثال روس سے ملتی ہے ۔ کمیونسٹ روس میں بسنے والے مسلمانوں نے مقامی اثرات بڑی حد تک قبول کرلئے ہیں ۔ چین میں بھی یہی صورتحال ہے صرف چین کے چند صوبوں میں البتہ مسلمانوں نے اپنی علحدہ اور منفرد شناخت باقی رکھی ہے۔ لیکن ہر جگہ یہی تاثر پیدا کیا گیا کہ دہشت گردی اور مسلمانوں میں تعلق ہے ۔ یہ استدلال کے چند گمراہ اور اسلام سے بے بہرہ مسلمانوں نے اکثر دہشت گردی کی راہ اختیار کی ہے تو اس سے مذہب اسلام کے بارے میں یہ تاثر نہیں دیا جاسکتا کہ اسلام میں دہشت گردی کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ جرمنی کی خاتون صدر نے حالیہ چند واقعات کے بعد اس غلط تاثر کو جو یوورپی ممالک میں پیدا کردیا ہے یہ کہہ کر ختم کرنے کی کوشش کی تھی کہ ’’اسلام جرمنی کا مذہب ہے‘‘ یعنی اسلام کے ماننے والے ان لوگوں نے جنھوں نے جرمنی کو اپنا وطن بنالیا ہے ایسے گھل مل گئے ہیں کہ وہ جرمنی کے کسی باشندے سے کسی اعتبار سے کم نہیں ۔

وزیراعظم برطانیہ نے جہاں صرف دارالحکومت لندن میں لاکھوں مسلمان آباد ہیں ، اسلام کو امن پسند مذہب قرار دیا ہے ۔ فرانس کے ہفتہ وار اخبار کی گستاخی کے بعد وہاں جو دہشت پسندانہ حملہ ہوا تھا اس کے بعد سارا فرانس دہل گیا تھا ۔ اہل اسلام کو یہ سوچنا ہے کہ کیوں چند مٹھی بھر مسلمانوں کی وجہ سے اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے ۔ اگر کوئی گروہ کسی بھی سماج میں غلط اور تشدد کی راہ اختیار کرتا ہے تو کیا اس کی بے راہ روی کی وجہ سے اس سارے سماج کو ، معاشرہ کو ، عقیدہ کو ، بدنام کرنا درست ہے ؟ امریکہ میں سیاہ فام باشندہ جو مذہبی عقیدہ کے لحاظ سے بے شک عیسائی ہیں ، حد درجہ مجرمانہ اور پرتشدد سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں لیکن امریکہ نے کبھی تمام امریکی سیاہ فام باشندوں کو مجرم اور دہشت پسند قرار نہیں دیا تو پھر چند ایک بھٹکے ہوئے مسلمانوں کی وجہ سے دین مبین کو بدنام کرنے کا کیا جواز ہے ؟ لیکن یہ منفی تاثرات مسلمانوں کی منظم اور مسلسل کوششوں ہی سے ختم کیا جاسکتا ہے ۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ اغیار کا پیدا کردہ تاثر ہماری سب سے بڑی آزمائش ہے ۔ یہ ہماری سب سے بڑی اور بنیادی ذمہ داری ہے ۔ اسلام دشمنوں نے تو وہ کام کردیا جو وہ کرنا چاہتے تھے ۔ اسلام سے ان کی ازلی دشمنی اس کی اصل وجہ ہے ۔
لیکن اسلام تو ہم سے سوال کرے گا کہ غیروں نے مجھے رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تم نے جو میرے ماننے والے ہیں میری آبرو بچانے کے لئے کیا کیا ؟ کبھی ہم اپنے دامن میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم نے کبھی اسلام کی رسوائی کو ختم کرنے اس کو اس کی اصلی شکل میں پیش کرنے کی کوئی کوشش کی ۔ مغربی ذرائع ابلاغ تو کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اسلام کو رسوا کرنے ، وہ تو اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہورہے ہیں ، ہم مسلمان جو کسی قوم سے زیادہ ’’امت‘‘ کا وسیع تر تصور رکھتے ہیں ۔ اسلام کی صحیح شکل پیش کرنے کے لئے کوئی اپنے ذرائع ابلاغ پیدا کرنے کی کوئی کوشش کی ۔ کیا تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک کے پاس ذرائع اور وسائل کی کوئی کمی ہے ۔ ہمارے اپنے ذرائع ابلاغ پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا نہیں ہوں گے تب تک ہم یونہی مظلوم رہیں گے ۔ ہر واقعہ کے بعد مسلمانوں ہی کو مود الزام ٹھہرانے کی یہ روش اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک ہم ایسی ہر حرکت کا موثر اور مدلل جواب نہیں دیں گے ۔یہ کام چنداں مشکل نہیں لیکن اس پر کبھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی ۔ وسیع تر بنیادوں پر انسانی سماج خود ایک برادری ہے ۔ہر انسان ’’احسن تقوم‘‘ پر پیدا کیا گیا ہے ۔ ہمیں لگ بھگ 1450 برس قبل ہی یہ پیام رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے خطبہ حجتہ الوداع میں دیدیا ہیکہ ’’انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہیں کسی گورے کو کالے پر کسی کالے کو گورے پر کوئی فوقیت اور افضلیت نہیں سوائے معیار تقوی کے‘‘ ۔ انسانی برادری کے لئے آج تک دنیا نے ایسی مکمل مساوات کی کوئی مثال نہیں پیش کی ۔ لیکن وائے مجبوری کہ اس عظیم الشان پیام کے علمبردار آج دہشت گرد کہلاتے ہیں ۔

برطانیہ کی مساجد میں اغیار سے رابطہ کا جو کام ہورہا ہے وہ ساری دنیا میں ہونا چاہئے تاکہ اہل زمین کو یہ تو معلوم ہو کہ اسلام نے کبھی پرتشدد راہ اختیار نہیں کی ، نہ اس کی تعلیمات میں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ مبارکہ میں تشدد کا کوئی شائبہ نہیں ملتا ۔ اتنی روشن تعلیمات کے باوجود کیوں آج دین مبین کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں بعض مسلم ممالک میں ایسے شدت پسند اور اتنہا پسند عناصر موجود ہیں جو اسلام کی رسوائی کا ذریعہ بن رہے ہیں خواہ وہ پشاور ، اسلام آباد ، لاہور میں ہو کہ عراق و شام میں ہوں ۔ ان عناصر کو مسلم امت سے علحدہ اور دور کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ کام دوسروں سے زیادہ خود اپنی اصلاح سے ہوسکتا ہے انتہا پسند کبھی مسلمان نہیں ہوسکتا ، اسلام نے تو اعتدال پسندی کا راستہ بتایا ہے ۔ اس طرح انسانیت پر ظلم کرنے ، قتل ، غارتگری کا بازار گرم کرکے یہ انتہا پسند اسلام کی بدخدمتی کررہے ہیں ۔ انھیں ساری امت سے الگ کرنے اور ان کے خلاف قلم اور زبان سے منظم تحریک چلانے اور ذرائع ابلاغ پر غلبہ حاصل کرکے اسلام پر لگائے جانے والے ان بدنما داغوں کو دھویا جاسکتا ہے ۔