عبداللہ محمد عبداللہ
اللہ عزوجل جس کسی بندہ پر رحم فرماتے ہیں تو اسے ایمان کی دولت سے مالا مال کرتے ہیں اللہ کے جو بندے اپنی زندگیوں میں ایمان پر قائم رہتے ہیں اور ایمان پر ان کی زندگی کا خاتمہ ہوتا ہے تو وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل برطانوی سفیر متعینہ سعودی عرب سائمن کولیس نے دامن اسلام میں پناہ لی کو اللہ تعالیٰ نے حج کی سعادت سے بھی بہرور فرمایا ہے۔ سائمن کولیس کے اسلام قبول کرنے پر ساری دنیا بالخصوص مغربی دنیا میں ہلچل مچ گئی ہے۔ سفارتی حلقہ حیران و پریشان ہیں، عام و خاص سائمن کے اسلام قبول کرنے پر آپس میں یہ کہنے لگے ہیں کہ اسلام کو دہشت گردی شدت پسندی اور انتہا پسندی سے جوڑنے کے باوجود لوگ جوق درجوق آخر اسلام کیوں قبول کررہے ہیں۔ برطانوی سفیر سائمن کولیس کو اس بات کا اعزاز حاصل ہوگیا ہے کہ انہوں نے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے حج کی سعادت حاصل کی۔ اس خوش نصیب جوڑے کی تصویر جس میں سائمن کولیس احرام میں اور ان کی اہلیہ ہدیٰ سفید لباس میں دیکھے جاسکتے ہیں، فوزیہ البکرنے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پوسٹ کی ہے۔ اس تصویر کے ساتھ فوزیہ نے کچھ اس طرح تحریر کیا ہے ’’مملکت میں برطانیہ کے سفیر سعادت حج حاصل کرتے ہوئے کولیس پہلے برطانوی سفیر ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس برطانوی جوڑے نے مکہ مکرمہ میں دامن اسلام میں پناہ لی منگل کو ایک نیوز سائٹ المرشد نے اس تعلق سے ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ برطانوی سفیر سائمن کولیس اور ان کی اہلیہ ہدیٰ مجرکیش نے اس ٹوئٹ کے لئے فوزیہ سے اظہار ممنونیت کیا ہے۔ فوزیہ ایک ادیبہ اور جہدکار ہیں۔ کولیس کی سرکاری سوانح حیات کے مطابق کولیس جنہوں نے عربی سیکھنے کے بعد 1978ء میں دفتر خارجہ و دولت مشترکہ میں شمولیت اختیار کی مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء کے کئی ملکوں میں برطانوی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ان کی پہلی پوسٹنگ بحرین میں ہوئی جہاں انہوں نے سیکنڈ سکریٹری کی حیثیت سے 1981-1984 خدمات انجام دی، 1988-1990 انہیں تیونس میں ڈپٹی ہیڈ آف مشن کے طور پر کام کرنے کا موقع حاصل ہوا۔ اردن کے دارالحکومت امان میں بھی 1990 تا 1996کولیس نے ڈپٹی ہیڈ آف مشن کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دیں۔ دوبئی میں وہ سال 2000 تا 2004 قونصل جنرل کے عہدہ پر فائز رہے۔ اس طرح 2004-2015 بصرہ میں قونصل جنرل کے طور پر کام کیا۔ مسٹر کولیس کو 2005ء میں قطر میں برطانوی سفیر مقرر کیا گیا۔ وہ اس عہدہ پر 2005 تا 2007 فائز رہے۔ کولیس دمشق میں بھی 2007 تا 2012 برطانوی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہیں 2015 میں ہی حکومت برطانیہ نے سعودی عرب میں اپنا سفیر مقرر کیا تھا۔ برطانیہ کے موقر انگریزی روزنامہ دی ٹیلیگراف کے مطابق جیسے ہی برطانوی سفیر کے اسلام قبول کرنے اور سعادت حج حاصل کرنے کی اطلاع عام ہوئی۔ سارے عالم اسلام سے انہیں مبارکباد دیئے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 60 سالہ برطانوی سفیر جنہیں عربی زبان پر کافی عبور ہے۔ ٹوئٹر کے ذریعہ منظر عام پر آئی رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ’’اللہ آپ تمام پر رحم کرے مختصراً یہ کہ مسلم معاشرہ میں زائد از 30 سال سے رہنے کے باعث اور ہدیٰ سے شادی سے پہلے میں نے اسلام قبول کیاہے۔ کولیس کے اسلام قبول کرنے اور سعادت حج حاصل کرنے کی اطلاع عام ہوتے ہی سعودی عرب اور عالم اسلام سے مبارکبادی کے پیامات کا سلسلہ شروع ہوا جس میں انہیں ’’حاجی سائمن‘‘ کے نام سے مخاطب کیا گیا ہے۔ دی ٹیلیگراف کے مطابق سائمن نے ہدیٰ سے شادی سے کچھ عرصہ قبل سال 2011 میں اسلام قبول کیا۔ ہدیٰ شامی نژاد ہیں۔ اگرچہ ان کے دامن اسلام میں پناہ لینے کے بارے میں چند ساتھی سفارتکار واقف تھے، لیکن یہ اطلاع ریاض یا دیگر مقامات پر عام نہیں ہوئی تھی جبکہ برطانوی دفتر خارجہ نے اس ضمن میں کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ مسٹر کولیس کا مذہب ان کا اپنا شخصی معاملہ ہے۔ مسٹر کولیس نے میڈیا کو انٹرویوز دینے سے بھی انکار کردیا۔ سعودی حکومت کے مطابق اس سال 1.8 ملین (18 لاکھ) عازمین نے حج کی سعادت حاصل کی۔ اہم بات یہ ہے کہ دی ٹیلیگراف نے حج کیا ہے، کب کیا جاتا ہے اور کہاں کیا جاتا ہے اور کیسے کیا جاتا ہے اس بارے میں تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ سالانہ 25 ہزار برطانوی شہری سعادت حج حاصل کرتے ہیں۔ جہاں تک کولیس کا سوال ہے انہوں نے کریسٹ کالج کیمبرج سے گریجویشن کیا اور وہ 5 بچوں کے باپ ہیں۔