برانڈ ایمبیسڈر کا احترام ضروری

محمد نعیم وجاہت

ثانیہ مرزا تنازعہ پر
کے سی آر کی خاموشی معنی خیز

تلنگانہ میں اپنی حکومت کے 50 دن مکمل کرنے والی ٹی آر ایس نے ایک ہی کابینی اجلاس میں 43 اہم فیصلے کرتے ہوئے حکومت پر اُنگلیاں اُٹھانے والوں کو یقینا حیرت زدہ کردیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان فیصلوں پر عمل آوری ممکن ہے؟ کیا سرکاری خزانے میں اتنا فنڈ موجود ہے؟ عہدیداروں کی تقسیم کا عمل ہنوز سست روی کا شکار ہے۔ ان فیصلوں کو مقررہ وقت کے اندر مکمل کیا جائے گا۔ تلنگانہ کیلئے جان نچھاور کرنے والوں کو بہت بڑا انعام دیا جارہا ہے جو اس کے حقیقی مستحق بھی ہیں۔ اقلیتوں کی ترقی اور بہبود کیلئے بجٹ میں 1000 کروڑ روپئے مختص کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ فیصلہ بھی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کیلئے راحت فراہم کرنے والا ہے۔ غیر منقسم ریاست آندھراپردیش میں کانگریس حکومت نے اقلیتوں کیلئے 1027 کروڑ روپئے کا اقلیتی بجٹ مختص کیا تھا

جس کی مکمل اجرائی نہیں ہوئی۔ اقلیتی بجٹ ’’نام بڑے درشن چھوٹے‘‘ کے مترادف تھا۔ چیف منسٹر تلنگانہ مسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے اقلیتوں کے لئے بجٹ میں 1000 کروڑ کی گنجائش فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔کیا یہ بجٹ بھی مکمل جاری ہوگا یا ماضی کی روایت برقرار رہے گی۔ اقلیتوں کی ترقی اور بہبود کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ بجٹ کے مطابق اسکیمات تیار کرنے اور اس سے اقلیتوں کو بھرپور فائدہ پہنچانے کی ضرورت ہے۔ تب ہی بجٹ بہتر استعمال ہوگا۔ کانگریس حکومت میں گزشتہ 5 سال کے دوران اقلیتی بجٹ کا ایک بڑا حصہ صرف فیس ری ایمبرسمنٹ اور اسکالرشپس پر خرچ ہوا ہے۔ غریب اور متوسط طبقہ کو روزگار کے علاوہ دوسرے کاموں میں تعاون کرنے والے اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کی تمام سرگرمیاں منسوخ کرتے ہوئے اس کو صرف فیس ری ایمبرسمنٹ اور اسکالرشپس کے محکمہ تک محدود کردیا گیا ہے۔ اقلیتی بہبود کی وزارت چیف منسٹر مسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے اپنے پاس رکھی ہے تاکہ اقلیتوں کی ترقی کا راست جائزہ لے سکیں۔

چیف منسٹر ماضی کا جائزہ لیں اور نقائص اور لاپروائی کو دور کرنے کیلئے ضروری اقدامات کریں۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو بینکوں سے قرضوں کی اجرائی کو یقینی بنانے کے لئے بینکرس کا علیحدہ اجلاس طلب کریں۔ آر بی آئی کے رہنمایانہ خطوط پر عمل آوری ہورہی ہے یا نہیں اس کا جائزہ لیں۔ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دی گئی تو اقلیتوں کا بہت بڑا فائدہ ہوگا۔ حکومت نے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا جائزہ لینے کیلئے ایک کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے اور بھی کئی فیصلے کئے ہیں مگر دونوں فیصلے متنازع بن گئے ہیں۔ کنٹراکٹ پر خدمات انجام دینے والے تمام ملازمین کی خدمات مستقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے جہاں کنٹراکٹ ملازمین خوش نظر آرہے ہیں وہیں تلنگانہ تحریک میں اہم رول ادا کرنے والے عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبہ ناراض ہوگئے ہیں۔ شہر حیدرآباد کے علاوہ اضلاع میں طلبہ نے احتجاج کرتے ہوئے ریاستی وزراء ہریش راؤ اور کے ٹی آر کے علاوہ دوسرے وزراء کا گھیراؤ کیا ہے۔ چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ کے پتلے نذر آتش کئے گئے۔ حیدرآباد میں پولیس نے طلبہ کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے لاٹھی چارج کیا۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود حکومت نے طلبہ کو اعتماد میں لینے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کوئی بیان جاری کیا ہے۔ 50 دن میں حکومت کے خلاف دو احتجاج ہوئے ہیں۔ قرضوں کو مشروط بنانے پر کسانوں نے احتجاج کیا جس سے حکومت نے دستبرداری اختیار کرلی۔ کنٹراکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کے مسئلہ پر طلبہ احتجاج کررہے ہیں۔

ایک طرف مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کی جہاں بی جے پی مخالفت کررہی ہے وہیں کانگریس حکومت کی جانب سے مسلمانوں کو تحفظات فراہم کرنے کی مخالفت کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ کو ایڈوکیٹ جنرل کی حیثیت سے نامزد کیا ہے جس پر مسلمانوں میں حکومت کے خلاف ناراضگی پائی جاتی ہے۔ موجودہ ایڈوکیٹ جنرل نے ہائیکورٹ کی تین علیحدہ علیحدہ بنچس کے علاوہ سپریم کورٹ میں بھی مسلم تحفظات کی مخالفت کی ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے حکم التواء کی وجہ ریاست میں 4 فیصد مسلم تحفظات پر عمل آوری جاری ہے۔ اس پر جب دوبارہ سپریم کورٹ میں مباحث شروع ہوں گے تو تکنیکی اور قانونی طور پر اس میں شامل نہیں ہوسکتے کیونکہ جس ایڈوکیٹ نے مسلم تحفظات کی مخالفت کی ہے وہ دوبارہ اس کی تائید ہرگز نہیں کرسکتے۔ سپریم کورٹ میں سینئر وکلاء مباحث میں حصہ لیتے ہیں مگر حکومت کی طرف سے تحریری طور پر ایڈوکیٹ جنرل کو حلف نامہ پیش کرنا پڑتا ہے۔ ان باریکیوں کا جائزہ لئے بغیر چیف منسٹر تلنگانہ مسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے ایڈوکیٹ جنرل کا تقرر کردیا۔ 4 فیصد مسلم تحفظات کی مخالفت کرنے والے یہ ایڈوکیٹ جنرل 12 فیصد مسلم تحفظات کیلئے قانونی مسائل پیدا ہوں گے تو کیا کریں گے یہ بہت بڑا سوال ہے۔ کیا وہ اس کی تائید کریں گے؟ کیا چیف منسٹر نے ایڈوکیٹ جنرل نامزد کرنے سے قبل ان سے اس مسئلہ پر مشاورت کی ہے یا اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ کانگریس کے ڈپٹی فلور لیڈر کونسل و سابق وزیر مسٹر محمد علی شبیر نے مخالف مسلم تحقیقات کی پیروی کرنے والے وکیل کو ایڈوکیٹ جنرل نامزد کرنے پر سخت اعتراض کرتے ہوئے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا اعلان کیا۔

چیف منسٹر تلنگانہ مسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے جیسے ہی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کو تلنگانہ کا برانڈ ایمبیسڈر نامزد کیا، بی جے پی چراغ پا ہوگئی۔ ثانیہ مرزا کو پاکستانی بہو ہونے کا نہ صرف ریمارک کیا بلکہ تلنگانہ تحریک سے ان کی عدم وابستگی کو مسئلہ بناتے ہوئے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی کی توہین کی ہے اور حیدرآباد میں ان کی پیدائش نہ ہونے کا بہانہ کرتے ہوئے ان کے برانڈ ایمبیسڈرشپ پر سوال کھڑا کردیا۔ امیتابھ بچن گجرات کے، شاہ رُخ خان مغربی بنگال کے اور ہیما مالنی اترانچل کی برانڈ ایمبیسڈر ہیں وہ جن ریاستوں کے برانڈ ایمبیسڈر ہیں ان کا اُن ریاستوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور اُن ریاستوں کی تحریکات میں اُنھوں نے کبھی بھی حصہ ہے۔ عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی ہمیشہ ذات پات مذہب اور علاقہ واریت سے بالاتر رہتے ہیں۔ انھیں ان معاملات میں ملوث کرتے ہوئے اس کو متنازعے بنانا کسی کو زیب نہیں دیتا۔ ہندوستان کے سابق وزرائے اعظم آئی کے گجرال اور ڈاکٹر منموہن سنگھ پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ہندوستان میں جلیل القدر عہدے پر فائز ہوئے۔ دونوں قائدین جب وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تو پاکستان میں ان کے پیدائشی مقام پر جشن منایا گیا۔ بی جے پی کے قدآور لیڈر مسٹر ایل کے اڈوانی پاکستان میں پیدا ہوئے۔ بی جے پی سے مخالفت کی تو توقع کی جاسکتی ہے مگر سیکولرازم کا دعویٰ کرنے والی کانگریس کے سینئر قائد مسٹر وی ہنمنت راؤ نے بھی اس کی مخالفت کرتے ہوئے سب کو حیرت زدہ کردیا۔ ثانیہ حیدرآبادی ہیں اور سارے ملک کو اِن پر فخر ہے۔ ثانیہ مرزا کی حب الوطنی شکوک سے بالاتر ہے۔ عالمی ٹینس کھلاڑی نے ان کے برانڈ ایمبیسڈر نامزد کئے جانے پر حیدرآباد کے بشمول ملک بھر میں تنازعہ کھڑا ہونے پر صدمہ کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ وہ ہندوستانی ہیں اور آخری سانس تک ہندوستانی رہیں گی۔ ثانیہ مرزا کے اس بیان کے بعد بی جے پی کو تنازعے فوری بند کردینا چاہئے۔ مرکزی وزراء اور بی جے پی کے سینئر قائدین نے اس نازک گھڑی میں ثانیہ مرزا کی تائید کرتے ہوئے ملک بھر میں اپنی خراب ہونے والی شبیہ کو درست کرنے کی کوشش کی ہے۔

تلنگانہ بی جے پی فلور لیڈر ڈاکٹر لکشمن کے اعتراض کو ذاتی قرار دیتے ہوئے اس معاملہ سے پیچھا چھڑانے میں کوئی تاخیر نہیں کی۔ پہلے ہی شیوسینا کے ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے ایک مسلم روزہ دارکو زبردستی روٹی کھلانے کی کوشش نے ہندوتوا طاقتوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ بی جے پی مزید کسی بکھیڑے سے بچنے کیلئے فوری ثانیہ مرزا کی تائید میں اُتر آئی ہے۔ شادی ثانیہ مرزا کا ذاتی معاملہ ہے۔ پاکستانی کرکٹ کھلاڑی شعیب ملک سے ان کی شادی کو مسئلہ بناتے ہوئے ان کی حب الوطنی پر انگلی اُٹھانا درست نہیں ہے۔ ہند ۔ پاک کرکٹ میچ کے دوران ہمیشہ ثانیہ مرزا نے ہندوستان کی کامیابی کی خواہش کی ہے۔ قومی سطح پر ثانیہ مرزا کو تلنگانہ کا ایمبیسڈر بنانے پر بحث چھڑگئی ہے۔ مگر بی جے پی کے بشمول دوسرے قائدین نے ثانیہ مرزا کا ساتھ دیا ہے۔ تاہم اس سارے معاملہ میں چیف منسٹر تلنگانہ مسٹر کے چندرشیکھر راؤ کی خاموشی معنی خیز ہے۔ سارے ملک میں بحث چل رہی ہے اور چیف منسٹر لب کشائی سے گریز کررہے ہیں۔ جو ہوا سب بھول کر ثانیہ مرزا کا احترام کرنا چاہئے۔ دوسری ریاستوں کے ایمبیسڈرس کو جو عزت و اہمیت دی جاتی ہے وہی رتبہ ثانیہ مرزا کو بھی دینے کی ضرورت ہے۔