برابر بیٹھنے والے بھی کتنے دور تھے دل سے

مہاراشٹرا…اقتدار کیلئے اصول اور نظریات کا سودا
مرکزی کابینہ میں داغدار وزراء کی شمولیت

رشیدالدین
اقدار ، اصول اور نظریات کبھی ہندوستانی سیاست کی اہم خصوصیات تھیں جس نے دنیا بھر میں ہندوستانی جمہوریت کو امتیازی مقام عطا کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاست کے اصول تبدیل ہونے لگے اور صورتحال یہ ہے کہ نظریات اور اصول کے لئے کوئی جگہ نہیں، اس کی جگہ اقتدار کی ہوس اور موقع پرستی نے لے لی ہے۔ سیاسی جماعتیں اقتدار اور سیاسی مقصد براری کیلئے کچھ بھی کرسکتی ہیں۔ نظریات اور اقدار کے دعوے محض دھوکہ اور دکھاوے کے سواء کچھ نہیں۔ برسوں تک مخصوص نظریہ کی تائید کرنے والے ہم خیال بھی الگ الگ راستہ پر چلنے تیار ہیں۔ اقتدار اور سیاسی مفاد کیلئے اصول اور نظریات کو قربان کرنے کا مظاہرہ مہاراشٹرا میں دیکھنے کو ملا جہاں بی جے پی حکومت کو بچانے کیلئے سیکولر نظریات کی دعویدار این سی پی نے اہم رول ادا کیا ہے۔ مہاراشٹرا اسمبلی میں بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں ہے لیکن شرد پوار کی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی نے اسمبلی میں ووٹنگ سے دور رہ کر بی جے پی حکومت کو اعتماد کا ووٹ جیتنے میں مدد کی ۔ اس طرح بظاہر دو علحدہ نظریات کی حامل پارٹیوں میں ناپاک کٹھ جوڑ دیکھنے کو ملا ۔ سیاسی مقاصد کیلئے نظریات کو قربان کرنے کا آغاز اسی وقت ہوگیا تھا جب بی جے پی ۔ شیوسینا اور کانگریس ۔ این سی پی اتحاد الیکشن سے قبل بکھر گئے اور تنہا مقابلہ کا اعلان کیا گیا ۔ انتخابی نتائج کے بعد نظریاتی ہم آہنگی کے باوجود ان پارٹیوں پر سیاسی مقصد براری کا جنون سوار رہا۔ این سی پی نے بی جے پی حکومت کی غیر مشروط تائید کا اعلان کرتے ہوئے طویل عرصہ سے چہرے پر لگا سیکولرازم کا نقاب اتار پھینکا۔ 15 برس تک کانگریس کے ساتھ اتحاد رکھنے والے شرد پوار نے بی جے پی کی تائید کیا کردی،

بی جے پی کو اپنی 25 سالہ حلیف شیوسینا سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا مو قع مل گیا۔ چونکہ شیوسینا اقتدار میں مساوی حصہ داری کا مطالبہ کر رہی تھی۔ لہذا بی جے پی نے این سی پی کے سہارے اسے نظر انداز کردیا۔ کانگریس سے این سی پی کی دوری ہو یا بی جے پی کی شیوسینا سے کنارہ کشی یہ محض اقتدار کی خاطر تھا اور نظریاتی اختلاف کے باوجود در پردہ میچ فکسنگ کرلی گئی ۔ این سی پی کی درپردہ تائید سے 13 دن کی بی جے پی حکومت اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے کامیاب ہوگئی۔ سیاسی فائدہ کیلئے پارٹیوں کی موقع پرستی کے سبب سیاستدانوں ، پارٹیوں حتیٰ کہ سیاسی نظام پر سے عوام کا اعتماد اٹھنے لگا ہے۔ جس انداز میں اسمبلی میں بی جے پی حکومت نے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا ، وہ ڈکٹیٹرشپ اور آمریت کی روش کا مظاہرہ ہے۔ ڈرامائی انداز میں ندائی ووٹ سے کامیابی کا اعلان فل پروف فراڈ اور پارلیمانی جمہوریت کا قتل ہے۔ جس حکومت کو بھی اکثریت کے بارے میں شبہات ہوتے ہیں، وہ ندائی ووٹ کا سہارا لیتی ہے۔ جس انداز میں فڈنویس سرکار نے اعتماد حاصل کیا،

اس پر آندھراپردیش اسمبلی میں بھاسکر راؤ حکومت کی تحریک اعتماد کی یاد تازہ ہوگئی۔ جس نے 1984 ء میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود ندائی ووٹ سے کامیابی کا اعلان کیا تھا لیکن صرف ایک ماہ میں حکومت کا زوال ہوگیا۔ اگر شیوسینا اپوزیشن میں بیٹھنے کے اعلان پر قائم رہتی ہے تو مہاراشٹرا اسمبلی کا حشر بھی دہلی اسمبلی کی طرح ہوسکتا ہے۔ اگر بی جے پی کو اکثریت حاصل تھی تو اسے ندائی ووٹ کے بجائے ووٹنگ کا سامنا کرنا چاہئے تھا۔ یقیناً دال میں کچھ کالا ضرور ہے تبھی تو بی جے پی نے پارلیمانی جمہوریت کے اصولوں کو تار تار کیا ۔ بی جے پی کسی بھی حالت میں مہاراشٹرا میں حکومت تشکیل دینا چاہتی تھی تاکہ نریندر مودی لہر کے نام پر جموں و کشمیر اور جھارکھنڈ کے مجوزہ انتخابات پر اثر انداز ہوسکے۔ کہاں گئے وہ جمہوری اقدار اور اصول جن کی نریندر مودی دہائی دیتے رہے ہیں۔ کیا یہ وہی صاف ستھرا نظام ہے جسے مودی ملک بھر میں رائج کرنا چاہتے ہیں؟ شیوسینا کے مضبوط موقف سے خوف زدہ بی جے پی نے این سی پی کا سہارا لیا اور اسے کھل کر میدان میں لانے کے بجائے پس پردہ رکھا گیا۔ بی جے پی کو امید تھی کہ موجودہ حالات میں شیوسینا میں پھوٹ پڑجائے گی، جب یہ ممکن نہیں ہوا تو اس نے این سی پی کا سہارا لینے میں عافیت محسوس کی۔

تحریک اعتماد کے وقت کانگریس کے پانچ ارکان کی دو سال کے لئے اسمبلی سے معطلی دراصل اپوزیشن کو دھمکانے کی کوشش ہے۔ جمہوری اور پارلیمانی روایت کے مطابق عوامی منتخب نمائندوں کے ساتھ اس طرح کے سلوک کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسپیکر کا اقدام حکومت کے دباؤ کا نتیجہ اور ان لاکھوں رائے دہندوں کی توہین کے مترادف ہے جنہوں نے ان پانچ ارکان کو منتخب کیا ۔ شیوسینا کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرتے ہوئے بی جے پی نے مہاراشٹرا میں پارٹی کے استحکام کے سلسلہ میں اس کے احسانات کو فراموش کردیا ہے ۔ مہاراشٹرا بنیادی طور پر شیوسینا کا ہے اور اسی کے سہارے بی جے پی نے وہاں اپنے قدم جمائے۔ جب تک بال ٹھاکرے زندہ تھے، بی جے پی قائدین ان کے در پر ماتھا ٹیکتے رہے اور جب کبھی مخلوط حکومت تشکیل دی گئی ، چیف منسٹر کا عہدہ شیوسینا کے پاس رہا۔ لوک سبھا چناؤ میں نریندر مودی لہر کے بعد بی جے پی مہاراشٹرا میں اوور کانفیڈنس ہوچکی تھی لیکن نتائج توقع کے مطابق نہیں رہے۔ مودی لہر اور اس کا تسلسل پائیدار ثابت نہیں ہوسکتا اور آنے والے دنوں میں بی جے پی کو اس کا حقیقی موقف سمجھ میں آجائے گا۔ بی جے پی حکومت کی تائید سے این سی پی کچھ زیادہ امیدیں وابستہ نہ کرے کیونکہ آنے والے دنوں میں دوبارہ بی جے پی شیوسینا اتحاد کی صورت میں اس کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس وقت این سی پی کس منہ سے عوام کا سامنا کرے گی ۔

مہاراشٹرا اور دہلی میں توہین کے باوجود شیوسینا ابھی بھی اقتدار میں حصہ داری کے بارے میں پرامید ہے۔ اقتدار نہ ملنے سے اس کا حال ماہی بے آب کی طرح ہوچکا ہے ۔ دوسری طرف بی جے پی اور این سی پی کی درپردہ میچ فکسنگ نے شرد پوار کو بے نقاب کردیا ۔ شرد پوار جو بظاہر سیکولرازم کا لبادہ اوڑھے اور مخالف فرقہ پرستی کا ڈھونگ کر رہے تھے ، دراصل وہ اندرونی طور پر سنگھ پریوار کا حصہ تھے۔ ان کے تار بھی ناگپور سے جڑتے نظر آرہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نتائج کے ساتھ ہی بے طلب تائید کا اعلان کردیا۔ مہاراشٹرا میں مستحکم حکومت کے نام پر بلی تھیلے کے باہر آگئی اور شرد پوار اصلیت پر لوٹ آئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ صرف اقتدار کیلئے انہوں نے سیکولرازم کا نقاب پہن لیا تھا اور یو پی اے کے 10 سالہ دور حکومت میں اقتدار میں حصہ دار رہے۔ سیکولرازم اور ملک کی مذہبی رواداری کی روایات کی پاسداری کا دعویٰ کرنے والے ملائم سنگھ اور شرد پوار میں کوئی فرق نہیں۔ ملائم سنگھ یادو نے بھی بابری مسجد شہادت کے ذمہ دار کلیان سنگھ کو نہ صرف گلے لگایا تھا بلکہ ان کی پارٹی سے انتخابی مفاہمت کی تھی۔ شرد پوار کے اس اقدام سے کانگریس میں چھپے ہوئے سنگھ پریوار کے ہمدرد اور نمائندے بے نقاب ہونے لگے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران شرد پوار نے سیکولرازم پر قائم رہنے کا اعلان کیا تھا ۔ خیر عمر کے آخری حصہ میں سہی ان کی اصلیت عوام پر آشکار ہوچکی ہے۔ دوسری طرف نریندر مودی حکومت میں داغدار وزراء کی شمولیت سے حکومت پر آر ایس ایس کے کنٹرول کا پھر ایک بار ثبوت ملتا ہے۔ مودی نے ’’کم سے کم حکومت زیادہ سے زیادہ حکمرانی‘‘ کا نعرہ لگایا تھا لیکن حکومت کے پانچ مہینے میں ان کے وزراء کی تعداد 66 ہوگئی۔ مودی نے صاف ستھری سیاست کے اپنے دعوے سے انحراف کرتے ہوئے کئی سنگین جرائم میں ملوث افراد کو کابینہ میں جگہ دی ہے۔ گزشتہ سال اگست میں سپریم کورٹ نے چیف منسٹرس اور وزیراعظم کو مشورہ دیا تھا کہ داغدار وزراء کو وزارت میں شامل نہ کریں۔ مودی نے سپریم کورٹ کے احکامات کی کوئی پرواہ نہیں کی اور گزشتہ ہفتہ کی گئی توسیع میں ایسے افراد کو شامل کیا جو فرقہ وارانہ نوعیت کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق مودی وزارت کے 21 فیصد وزراء مجرمانہ ریکارڈ کے حامل ہیں جن میں تین سنگین مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مودی کی وزارت میں گری راج سنگھ کی شمولیت باعث حیرت ہے جنہوں نے انتخابی مہم کے دوران مخالف مودی افراد کو پاکستان بھیجنے کی بات کہی تھی۔ اس قدر متنازعہ بیان کے باوجود انہیں وزارت میں شامل کرنا نریندر مودی کی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔

گری راج سنگھ کے خلاف الیکشن کمیشن کی ہدایت پر مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا ۔ سیاسی مبصرین نے تبصرہ کیا کہ مودی وزارت میں مختلف طبقات کے ساتھ ہندوتوا کو بھی مناسب نمائندگی دی گئی ہے۔ کانگریس نے ریمارک کیا کہ گری راج سنگھ کی شمولیت کیا مخالفین مودی کو پاکستان بھیجنے کی تیاری تو نہیں؟ مودی وزارت میں داغدار وزراء اور خاص طور پر گری راج سنگھ جیسے افراد کی شمولیت پر عوام کو اس لئے بھی حیرت نہیں کہ جس پارٹی کا قومی صدر خود سنگین مقدمات کا سامنا کر رہا ہو، اس سے صاف ستھرے کردار کے حامل افراد کے انتخاب کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ امیت شاہ گجرات کے فسادات اور فرضی انکاؤنٹرس کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مودی حکومت نے نہ صرف مرکزی وزارت بلکہ گورنر جیسے دستوری عہدہ پر بھی آر ایس ایس پرچارکوں کو نامزد کیا ہے۔ دراصل مودی حکومت اپنے سیاسی سرپرست آر ایس ایس کے ایجنڈہ پر کاربند ہے اور تمام اہم عہدوں پر سنگھ پریوار کے نمائندوں کے انتخاب کے ذریعہ ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی سازش ہے۔ ہندو راشٹر کا منصوبہ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے لئے محض ایک خواب ثابت ہوگا کیونکہ 125 کروڑ ہندوستانیوں کی اکثریت سیکولرازم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر یقین رکھتی ہے۔ مہاراشٹراکی سیاسی تبدیلیوں اور موقع پرستی پر یہ شعر صادق آتا ہے ؎
میرا ماتھا جب ہی ٹھنکا فریب رنگ محفل سے
برابر بیٹھنے والے بھی کتنے دور تھے دل سے