کے این واصف
اس ہفتہ ایک بار پھر ہم نے شادیوں کے مسائل پر کچھ لکھنے کا ذہن تب بنایا ہے جب پچھلے ہفتہ ہم نے اخبار میں راجستھان سے آئی ایک خبر پڑھی۔ اپنے خیالات کو قرطاس پر منتقل کرنے بیٹھے ہی تھے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی تحریر کا ایک جملہ ذہن میں ابھرا جو انہوں نے مسلمانان ہند سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاتھا ۔ وہ جملہ یوں تھا ’’تم سے بہتر تو کفار مکہ تھے جن کے سامنے صرف 360 بت تھے اور تم نے اپنے خواہشوں کے ہزاروں بت تراش رکھے ہیں‘‘۔
جی ہاں۔ انسان کے دل میں خواہشات کے ہزاروں بت بیٹھے ہوتے ہیں اور انسان ان جا و بے جا خواہشات کو پورا کرنے نت نئے بہانے تراش لیتا ہے ، سماجی رسم و رواج کا سہارا لیتا ہے وغیرہ۔ ہمارے سماج میں رائج شادی کے رسم و رواج بھی خواہشوں کے خود ساختہ بتوں میں سے ہی چند ہیں۔
خیر آئیے اب اصل موضوع کی طرف چلتے ہیں۔ ہندوستانی اخبارات میں پچھلے دنوں ایک خبر شائع ہوئی تھی کہ راجستھان کے شہر جئے پور کے قاضی نے اعلان کیا کہ مسلم شادی جس میں گانے بجانے یا DJs میوزک سسٹم وغیرہ رکھا جائے ، ایسی شادیوں میں قاضی حضرات نکاح نہیں پڑھائیں گے کیونکہ یہ چیزیں غیر اسلامی ہیں، اس کے علاوہ ان کے انتظام پر کافی بڑا خرچ بھی آتا ہے جو سراسر اصراف ہے۔ جئے پور کے صدر قاضی کا یہ فیصلہ بجا، درست بلکہ قابل ستائش و قابل تقلید بھی ہے۔ شادیوں یا دیگر تقاریب میں ہم رسم و رواج پر بے دریغ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ اس کی تاویل یہ پیش کی جاتی ہے کہ یہ سماج کے طور طریقے ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو سماج میں ہماری ہجو ہوگی ۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہم سماج خود سماج حصہ ہیں اور سماج ہم سے ہے ۔ ہم ہی نے ان روایتوں اور رسم و رواج کو جنم دیا ہے ۔ رسم و رواج کے یہ بت خود ہم نے تراشے ہیں اور ہم ہی ان سے خوف زدہ بھی رہتے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میں سے ہی کوئی اٹھے اور رسم و رواج کے ان بتوں کو توڑے۔ ایسا نہیں ہے کہ اب تک ہم میں سے کوئی ایسا شخص نہیں اٹھا جو ان بتوں کو توڑنے کی کوشش نہ کی ہو۔ برسوں ایسے لوگ ہم سے اٹھتے رہے ہیں جو ان بے جا رسم و رواج ختم کرکے شادی کی رسم کو آسان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ جئے پور کے قاضی کا فیصلہ بھی ان ہی کوششوں کا ایک حصہ ہے ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان کے دیگر شہروں کے صدر قاضی بھی اسی طرح کا عہد کریں اور اعلان کریں کہ وہ بھی ایسی کسی شادی میں نکاح نہیں پڑھائیں گے جہاں اصراف ہورہا ہو اور اسلامی اقدار پامال ہورہے ہوں۔
فلم اداکار عامر خان جو مختلف سماجی برائیوں کو سامنے لانے کیلئے ’’ستیہ میو جئتے‘‘ نام سے ایک ٹی وی شو پیش کرتے ہیں ، نے بھی اس موضوع کو اپنے ایک پروگرام میں اٹھایا تھا اور شادیوں میں ہونے والے کثیر اخراجات اور اس کے سماج پر پڑنے والے خراب اثرات پر ایک تحقیقی رپورٹ پر مبنی اسکرپٹ پرانہوں نے ایک شو پیش کیا تھا ۔ اس شو میں برہانپور سے آئے ایک گروپ کو پیش کیا گیا تھا جو ایک سماجی تنظیم چلاتا ہے، بتایا گیا تھا کہ اس تنظیم نے برہانپور میں یہ اعلان کیا کہ شہر میں کسی مسلم شادی میں لڑکی والے شادی کے روز کوئی ڈنر کا انتظام نہیں کریں گے اور تنظیم نے کسی طرح سارے شہر کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ شادی میں کوئی ڈنر کا اہتمام نہیں کریں گے اور بتایا کہ آج سارے برہانپور میں کسی شادی میں لڑکی والے ڈنر کا اہتمام نہیں کرتے۔ اس طرح لڑکی والے ایک بڑے خرچ سے بچ گئے۔ برہانپور کی تنظیم کی اس کوشش نے بھی روایت کے ایک بت کو توڑا ۔ یہ شو ہندوستان سمیت ساری دنیا میں دیکھا گیا ہوگا ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کم از کم ہندوستان کے دیگر شہروں میں کچھ تنظیمیں اس قسم کے عمل کو آگے بڑھاتیں کیونکہ ہم برائیوں کے ایک ایک بت کو توڑیں گے تو جب جاکر ہمارا سماج برائیوں سے پاک ہوگا۔ ہمیں یاد ہے کہ کچھ برس قبل حیدرآباد کے علماء و مشائخ نے بھی اجتماعی طور پر طئے کر کے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ایسی کسی شادی کی تقریب میں شرکت نہیں کریں گے جہاں نظر آئے گا اور اسلامی تعلیمات اور اقدار کی پامالی ہوگی۔
حیدرآباد میں روزنامہ سیاست اور ڈیولپمنٹ فورم نے بھی رشتوں کے طئے ہونے اور شادیوں کے انجام پانے میں کئی برس سے قابل ستائش اقدام کر رہے ہیں۔ محترم زاہد علی خاں کی سرپرستی و رہنمائی میں فورم کی جانب سے منعقد ہونے والے ’’دو بہ دو پروگرام‘‘ کے بہترین نتائج آرہے ہیں۔ فورم کا یہ کام بھی لڑکیوں کی شادی طئے ہونے میں حائل مشکلوں کو بڑی حد تک دور کر رہا ہے ۔ فورم نے اپنا دائرہ کار سارے ریاست تلنگانہ میں پھیلا دیا ہے ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی سماجی تنظیموں کو بھی اس طرح کے اقدام کرنے چاہئیں۔
ابھی چند ہفتہ قبل ہم اس کالم میں ڈاکٹر علیم خاں فلکی کی بنائی ایک مختصر فلم کا ذکر کیا تھا جس کے ذریعہ انہوں نے جہیز ، لین دین اور گھوڑے جوڑے جیسی روایات پر کاری ضرب لگائی تھی۔ یہ مرد مجاہد علیم خاں فلکی پچھلے کئی برس سے لڑکیوں کی شادی کے انجام پانے میں حائل لین دین کی لعنت سے لڑ رہا ہے۔ سعودی عرب کے مختلف شہروں دیگر خلیجی ممالک اور ہندوستان کے کئی شہروں کا دورہ کرتے ہوئے وہ سماج میں اس لعنت کے خلاف لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ علیم خاں فلکی اپنے اس مشن پر اپنا تن ، من ، دھن سب کچھ لگائے ہوئے ہیں چونکہ ان کی بنائی ہوئی فلم سماج پر اچھا اثر قائم ہوا تھا اور سماج پر اس مثبت نتائج بھی سامنے آئے ہیں علیم خاں کا یہ پیام Youtube کے ذریعہ بہت بڑی تعداد تک پہنچا تھا ۔ اس لئے علیم خاں نے ایک اور مختصر فلم تیار کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ہوسکتا ہے اس منصوبہ کو حقیقت میں ڈھلنے میں کچھ وقت لگ جائے اور اس تاخیر کی وجہ بھی آپ سب جانتے ہی ہیں کیونکہ اس قسم کے پراجکٹس کی تکمیل پر کافی صرفہ آتا ہے ۔ اگر کچھ تنظیمیں یا اہل خیر حضرات علیم خاں کے اس مشن میں ان کے ساتھ ہوجائیں تو یہ کام بہتر انداز میں اور جلد تکمیل پاسکتا ہے ۔ برائی کے خلاف علیم خاں فلکی کی یہ جنگ برسوں سے تنہا لڑ رہے ہیں۔ اگر کچھ اور لوگ ان کے ہم رکاب ہوجاتے ہیں تو فتح قریب اور آسان ہوسکتی ہے ۔ برائی کے ان بتوںکا خاتمہ کرنے کیلئے سماجی تنظیموں اور قوم کا درد رکھنے والے ہر شخص کو آگے آنا چاہئے ۔ ہم اپنی اس گفتگو کو علامہ اقبال کے اس شعر پر ختم کرنا چاہیں گے۔
بت شکن اُٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیم بدر اور پسر آزر ہیں
knwasif@yahoo.com