بدل گیا ہندوستان بجرنگ دل کی مسلح تربیت

محمد ریاض احمد
ملک میں بی جے پی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ایک عجیب قسم کی بے چینی پھیل گئی ہے ۔ افسوس تو اس بات پر ہیکہ دستور پر عمل پیرا رہنے کا عہد کرنے والے ارکان اسمبلی ‘چیف منسٹرس  یہاں تک کہ کچھ گورنرس بھی ایسے غیر شائستہ الفاظ استعمال کررہے ہیں جنہیں سن کر بڑا دکھ ہوتاہے ‘ ساتھ ہی ہندوستان اور ہندوستانی شہریوں کی حالت پر رحم بھی آتا ہے ۔ نریندر مودی حکومت میں بعض ایسے افراد کو شامل کیا گیا ہے جو کسی بھی طرح ان عہدوں پر فائز ہونے کے لائق نہیں ۔ کچھ گورنرس اور چیف منسٹرس بھی گورنری اور چیف منسٹری کے باوقار عہدوں پر فائز ہونے کے قابل ہی نہیں تھے لیکن مودی حکومت نے شائد اپنی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کا حکم بجا لاتے ہوئے ان کے تقررات عمل میں لائے ۔ مثال کے طور پر اترپردیش کے گورنر رام نائک کے بعض بیانات ‘ اعظم خان جیسے قائدین کے ساتھ ان کی لفظی جھڑپ ‘ اداکار سے سیاستداں بنے گوئندا پر ان کے الزامات کے بارے میں سن کر پڑھ کر اور جان کر ان ( رام نائک) کی ذہنی حالت پر شبہ ہونے لگتا ہے ۔ حال ہی میں اترپردیش کے ایودھیا میں بجرنگ دل نے اپنے کارکنوں کیلئے حفاظت خود اختیاری کی تربیت کا اہتمام کیا جس میں نوجوانوں کو لاٹھی اور بندوق چلانے کی اجازت دی گئی ۔ اس ٹریننگ کے تعلق سے جو ویڈیو منظر عام پر آیا اس میں ان ہندو نوجوانوں کو سروں پر ٹوپی پہنے دشمنوں کے خلاف لڑتے ہوا دکھایا گیا ۔ اس ویڈیو میں سر پر ٹوپی پہنے دشمنوں کو پیش کرنے کا مقصد دراصل بھولے بھالے ہندوؤں کو یہ بتانا تھا کہ مسلمان تمہارے دشمن ہیں اورتمہیں ان دشمنوں کے خلاف ہمیشہ چوکس رہنا چاہیئے ۔ اس قسم کے تربیتی کیمپ کا اہتمام اترپردیش میں کیا گیا جہاں بی جے پی کی حکومت نہیں بلکہ ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی کی حکومت ہے ۔ بڑی شرم کی بات ہیکہ ملائم سنگھ یادو جنہیں کبھی ہندو طنزیہ انداز میں مولانا ملائم کہا کرتے تھے ‘فرقہ پرستوں کی حرکتوں پر بالکل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ مظفر نگر سے لیکر علیگڑھ تک پیش آئے فسادات ‘ ہندو فرقہ پرستوں کی درندگی ‘ آگرہ میں ہندو تنظیموں کے قائدین اور مرکزی وزراء کی مسلمانوں کے خلاف اشتعمال انگیزی پرملائم سنگھ کی طرح ان کے بیٹے اکھلیش یادو کی حکومت مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ۔ ملائم سنگھ اور ان کے چیف منسٹر بیٹے کو شائد اندازہ نہیں کہ فرقہ پرست درندوں کی درندگی پر کانگریس کی خاموش‘ بزدلی اور ہیجڑے پن نے آج اسے سیاسی خاتمہ کی طرف آگے بڑھا دیا ہے ۔ اگر کانگریس کی مرکزی و ریاستی حکومتیں ہندو فرقہ پرستی کے خلاف سخت اقدامات کرتی تو آج ملک میں فرقہ پرستی کی بیماری میں مبتلا درندوں کا خاتمہ ہی ہوجاتا ۔نفرت کی گندی نالی کے یہ کپڑے ماحول کو تعفن زدہ نہیں کرپاتے۔ اب فرقہ پرستوں کے خلاف سخت کارروائی سے گریز سے متعلق ملائم سنگھ اور اکھلیش یادو کی پالیسیوں سے محسوس ہورہا ہیکہ یو پی میں سماج وادی پارٹی کا سیاسی موقف ٹھکا نے لگنے والا ہے ۔

سطور بالا میں ہم اترپردیش کے ’’ منہ پھٹ‘‘ گورنر رام نائک کا ذکر کررہے تھے ۔گورنر جیسے باوقار عہدہ پر فائز ہونے کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہیکہ رام نائک اپنے فرائض سے واقف ہی نہیں ۔ وہ اچھے اور برے میں تمیز کی صلاحیتوں سے محروم ہوگئے ہیں ۔ ملک کے غداروں یعنی فرقہ پرستوں اور حب الوطن ہندوستانیوں میں فرق کرنے سے وہ قاصہ ہیں ۔ اپنی عمر کے آخری حصہ میں پہنچ چکے رام نائک نے ایودھیا میں بجرنگ دل کے کارکنوں کو اسلحہ کی تربیت کی مدافعت کرتے ہوئے کہا کہ لوگ جو خود کا دفاع نہیں کرسکتے وہ اپنے وطن کی حفاظت بھی نہیں کرسکتے ۔

انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے رام نائک نے پُرزور انداز میں یہاں تک کہہ دیا کہ اگر چند نوجوان حفاظت خود اختیاری کے مقصد کے تحت اسلحہ چلانے کی تربیت بامسلح تربیت حاصل کررہے ہیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ۔ ایک گورنر کا اس طرح مسلح تربیت کی مدافعت کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان میں فرقہ پرستی سرچڑھ کر بول رہی ہے ‘کچھ ملک دشمن عناصر ملک کے غدار اور جدوجہد آزادی میں انگریزوں کی مخبری کرنے والوں کی اولاد جان بوجھ کرم ہندوستان میں فرقہ پرستی کا زہر گھول رہے ہیں ۔ بھولے بھالے ہندوؤں کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف اکسا رہی ہے ۔ دروغ گوئی کا سہارا لیتے ہوئے ہندوؤں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا رہی ہیکہ مسلمان تمہارے دشمن ہیں ۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں مسلمان تو جنت نشان ہندوستان کے غداروں ‘ فرقہ پرست حیوانوں اور انگریزوں کے چھوڑے ہوئے ایجنٹوں کی اولادوں کے دشمن ہیں جو ملک میں ہندو مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے درپر ہیں ۔ گورنر رام نائک اور وشوا ہندو پریشد و بجرنگ دل کے قائدین کو یہ جان لینا چاہیئے کہ اگر آج ان کے کارکن مسلح تربیت حاصل کرتے ہیں تو کل مسلمان اور عیسائی بھی حفاظت خود اختیاری کے تحت اسلحہ کی تربیت حاصل کرسکتے ہیں ‘ ملک کے بعض مقامات پر کچھ مسلم تنظیموں نے ایسا کیا تو ان پر پابندیاں عائد کی گئیں جس کی مثال حیدرآباد کی ایک تنظیم درگاہ جہاد و شہادت ہے اگر مسلم نوجوانوںکا حفاظ خودمختاری کے مقصد کے تحت اسلحہ کی تربیت حاصل کرنا جرم ہے تو بجرنگ دل کو یہ کس نے حق دیا کہ وہ اپنے فرقہ پرستوں کو اسلحہ اور لاٹھیاں چلانے کی تربیت فراہم کرے ۔ اگر مسلم نوجوان بھی حفاظت خود اختیاری کے تحت مسلح تربیت حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کریں تو کیا رام نائک ان کی بھی مدافعت کریں گے ؟ کمیونسٹ لیڈر برندا کرت نے رام نائک کے اس بیان پر جس سے ان کا ذہنی دیوالیہ پن ظاہر ہوتا ہے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ‘ان کے خیال میں گورنر دستوری اقدار کی برقراری اور اس کے تحفظ کا پابند ہوتا ہے اسے پامال کرنے والا نہیں ۔ دلچسپ اور حیرت کی بات یہ ہیکہ بجرنگ دل کارکنوں کی اس مسلح تربیتی کیمپ کے بارے میں اترپردیش کی چوکس پولیس اور حکومت کو کانوں کان خبر نہ ہوسکی ‘ تاہم جس طرح یہ مجرم اپنے جرائم کے ثبوت چھوڑ جاتا ہے

اسی طرح بجرنگ دل کارکنوں میں سے ہی کسی نے اس تربیتی کیمپ کا ویڈیو سماجی رابطہ کی سائٹس پر جاری کردیا ۔ تب کہیں جاکر اترپردیش پولیس خواب غفلت سے بیدار ہوئی اور برائے نام کارروائی کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کیا جس میں بجرنگ دل کے 50کارکنوں کے نام شامل کئے گئے ۔اس واقعہ کو بھی بی جے پی قائدین نے اپنے ’’آقا‘‘ نریندر مودی کی جھوٹی تعریف اور ستائش کا ذریعہ بنالیا ۔ چاپلوسی کی تمام سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے بہار سے تعلق رکھنے والے بی جے پی قائد شاہنواز حسین نے کچھ یوں کہا کہ دہشت گردوں سے مقابلہ کیلئے ہماری سیکیورٹی فورسیس کافی ایک ‘ ہمارے پاس نریندر مودی کی حکومت ہے ‘ کسی کو بھی اس بارے میں فکر نہیں کرنی چاہیئے ۔ بجرنگ دل کے ایک لیڈر روی اننت نے کھسیانی بل کھمبانوچے کے محاورہ پر عمل کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان نوجوانوں کو خواتین کی مدد کی تربیت فراہم کی جارہی تھی ۔ ان تربیتی کیمپوں میں دوسرے مذاہب کے ماننے والے نوجوانوں کا بھی خیرمقدم ہے ۔ بجرنگ دل کارکنوں کی مسلح تربیت پر سماجی رابطے کی سائٹس پر آر ایس ایس ‘ بی جے پی ‘ وشوا ہندو پریشد اوربجرنگ دل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ سماجی رابطہ کی سائٹس پر ایک شخص نے بجرنگ دل کی اس نازیبا بلکہ ملک دشمن حرکت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر دوسرے مذاہب کے مانینے والے ایسی ٹریننگ کا اہتمام کرتے تو آر ایس ایس ‘ بی جے پی ‘ وی ایچ پی کی نظر میں وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں ۔ نتیش نامی ایک اور شخص کے مطابق آر ایس ایس ‘ بی جے پی اور بجرنگ دل کے ان لیڈڑوں کو شرم آنی چاہیئے جو دوسرے ہندوستانیوں سے لڑائی کیلئے غریب ہنددؤں کا مذہبی استحصال کررہے ہیں ۔ مودی کے بارے میں ستیش کا کہنا تھا کہ حسب توقع مودی مجرمانہ خاموشی اختیار کریں گے ‘ ویسے بھی بجرنگ دل ‘ وی ایچ پی ‘ آر ایس ایس اور مودی ایک ہی نظام اور ایجنڈہ کا حصہ ہیں ۔ دیو نامی شخص کے خیال میں ان فرقہ پرستوںبیوقوفوں کو لڑنے اور اسلحہ چلانے کا اتنا ہی شوق ہے تو پھر وہ سرحد پر جاکر دشمنوں سے مقابلہ کیوں نہیں کرتے ‘ انہیں مختلف ریاستوں میں موجود نکسلائٹس کا خیال کیوں نہیں آتا ‘ اگر ان میں ہمت ہے تو نکسلائٹس کے خلاف اسلحہ اٹھاکر دکھائیں ۔

آج لڑکیوں کی حفاظت اور حفاظت خود اختیاری کے نام پر فرقہ پرست اسلحہ چلانے کی تربیت حاصل کررہے ہیں اور اس تربیتی کیمپ میں انہیں فرضی مشق کے دوران مسلمانوں کو ہلاک کرتے ہوئے دکھایا جارہا ہے لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہیکہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے غریب اور پسماندہ ذات سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں کا جینا حرام کردیا ہے ۔ ملک بھر میں دلت لڑکیوں اور عورتوں کی اجتماعی عصمت ریزی کے واقعات عام ہوچکے ہیں ۔ اگر بجرنگ دل کو ہندوؤں کی حفاظت کا اتنا ہی خیال ہے تو پھر انہیں ہندوؤں میں پائی جانے والی اونچ نیچ کرنی چاہیئے ‘ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں ‘ برہمنوں کو چاہیئے کہ دلت لڑکیوں کو اپنے گھر کی بہوئیں اور ۔دلت لڑکوں کو داماد بنائیں ۔ آج ہندوستان کو سماجی برائیوں سے بچانے کی ضرورت ہے اوریہ مسئلہ اسلحہ کی تربیت حاصل کرنے سے نہیں بلکہ اسلحہ اٹھانے والوں کی سرکوبی سے حل ہوتا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی اور آر ایس ایس میں ان کے آقاؤں کو یہ جان لینا چاہیئے کہ ملک میں خوشحالی ‘ آپسی بھائی چارگی ‘ہم آہنگی کے ذریعہ آتی ہے نفرتوں اور اسلحہ چلانے کی تربیت سے نہیں آتی ۔ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کو سب سے پہلے انسانیت کا درس حاصل کرناہوگا اور اگر وہ چاہیں تو محبان وطن ہندوستانیوں خاص کر مسلمان ان کیلئے انسانیت کے تربیتی کیمپس منعقد کرنے کیلئے تیار ہیں ۔
mriyaz2002@yahoo.com