بدلتی فکر و فضا

میں یہ سمجھ رہا تھا کہ اردو صحافت یا تو بوڑھی ہورہی ہے یا پھر تھک چکی ہے۔ انگریزی میں ایک بہترین اصطلاح ہے Burnt Out یعنی جل چکی ہے۔ اس کا قریب ترین مفہوم تھک جانا اور اندرونی طورپر ہار مان لینا ، ہلکان ، نیم جان ہونا ہے ۔ ہر شعبے میں یہ کیفیت دیکھی جاتی ہے ۔ ملازمتوں اور خاص طور سے سرکاری ملازمتوں میں یہ کیفیت عام ہے جہاں پر نوکری جانے کا ڈر نہیں ہوتا اور معقول وظیفے کا یقین رہتا ہے مگر اردو صحافت میں یہ کیفیت دیکھ کر مجھے بڑا رنج ہوتا ہے ۔ مگر 8 جون 2014 ء کے سیاست سنڈے ایڈیشن کو پڑھ کر میرے اندیشے غلط ثابت ہوئے ۔ اب بھی کئی زندہ دل صحافی ہیں جو مایوسی کو امیدوں اور خوشیوں میں بدل سکتے ہیں۔ نہ جانے کتنے قارئین نے یہ محسوس کیا ہے اور کتنے اپنے ردعمل کا اظہار کریں گے ۔ اس میں میں اپنے مضمون کو شامل نہیں کررہا ہوں۔

مگر یہ ایڈیشن اردو صحافت کے زندہ ہونے کا ثبوت ہے ۔ رشیدالدین صاحب کا مضمون مودی کی آزادانہ حکومت پر بہترین تجزیہ اور تبصرہ تھا اس کے ساتھ حسن سرور The Hindu کے مضمون کا اچھا ترجمہ حالات کی صحیح ترجمانی کیا ۔ سروری صاحب کی نظر دکھتے سماجی مسائل پر ہے اور جن جذبات سے وہ اس کا اظہار کرتے ہیں وہ ہمیشہ سے لاجواب رہے ہیں ۔ بہرحال یہ سنڈے میگزین میں مضامین بھرتی کے نہیں بلکہ فکرانگیز تھے ۔ لوگ جو میرے مضامین پڑھتے ہونگے ان کو اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کہ کیسے میرے خیالات نریندر مودی کے تعلق سے منفی سے مثبت ہوتے جارہے ہیں۔

رشیدالدین صاحب کے خیالات سے میں مکمل طورپر متفق ہوں ۔ نریندر مودی کی ڈکٹیٹرشپ اور آمرانہ حکومت کی نوعیت کے بارے میں میں نے بھی بہت کچھ لکھا ہے مگر میں نے غالباً ایک غلطی کی تھی ، میں اور دوسرے لوگ پورے وثوق کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ نریندر مودی کی حکومت کبھی بھی نہیں بنے گی ۔ جس اکثریت سے یہ حکومت بنی ہے اُس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں ملتی ۔ سارے تجربہ کار سیاسی ماہر منہ کی کھائے ۔ میں نے ایک اور بات لکھی تھی کہ مودی کی شخصیت میں نہ صرف آمریت اور مطلق العنانی ہے اور آر ایس ایس کے آدمی ہونے کی وجہ سے یہ ڈر اور خطرہ تھا کہ کہیں فاشسٹ حکومت تو نہیں آئیگی ، اس فکر کی بنیادی وجہ تاریخی ہی تھی اور لوگ ہٹلر کی حکومت سے خوفزدہ تھے۔

خیر ہندوستان کی اتنی صحتمند اور مضبوط جمہوریت میں یہ ممکن نہیں ہے مگر مودی کے طرز حکومت سے چند دنوں کے اندر یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ یہ انتہائی سخت گیر مالک حکومت ہے۔ وزراء کے انتخاب کا تجزیہ بڑا دلچسپ ہے۔ سمرتی ایرانی کی جگہ میناکشی لیکھی کا انتخاب انتہائی موزوں تھا وہ بھی دہلی سے کپل سبل کو شکست دی تھی مگر غالباً مودی نے اس میں بحث و تکرار کی روش دیکھی تھی اور سمرتی ایرانی کی شخصیت کو ترجیح دیا۔
ظفر آغا صاحب کا مضمون جذباتی قیادت کی ناعاقبت اندیشی ان کی بیباک اور صاف گوئی کا مظہر ہے ۔ یکساں سیول کوڈ کا موضوع نئی حکومت میں چھیڑ دیا گیا ہے۔ کتنے لوگ اس کے مختلف پہلوؤں سے واقف ہیں کہنا مشکل ہے مگر موضوع میں مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی طاقت ضرور ہے ۔ ظفر آغا صاحب رقمطراز ہیں کہ مسلمان اپنے لائحہ عمل میں بنیادی تبدیلی لائیں اور انتہائی دوراندیشی کا مظاہرہ کریں ۔ یہ جذبات کا نہیں بلکہ فکر کا دور ہے ۔ موجودہ صورتحال میں فوری حکمت عملی یہی ہوسکتی ہے کہ مسلمان کسی بھی مسئلہ پر جذباتی ردعمل سے گریز کریں (انتہائی موزوں و مفید وقتیہ مشورہ ) دور اندیشی اسی میں ہے کہ مسلمان جدید فکر کی حامل ایک نئی قیادت کرنے کی کوشش کریں جو نریندر مودی کے ہندوستان میں قوم کو صحیح راستہ دکھاسکے ۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ ، مہاراشٹرا کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں موجودہ حکومت سے یہ کہا گیا کہ اگر آئین میں چھیڑ چھاڑ کی تو اس کے نتائج خطرناک ہوں گے ۔
ظفرآغا صاحب کا کہنا ہے کہ اگرہم اسی لب و لہجہ اور جذباتی انداز میں کام کرتے رہے تو قوم کا بہت بڑا نقصان ہوگا جب کہ ہماری جذباتی قیادت کا دور دور تک کہیں پتہ بھی نہ ہوگا۔ ایک اور دھماکہ خیز اظہار خیال انھوں نے کیا ہے جو اردو صحافت میں ایک نئی جرأت اور شفافیت کو عیاں کرتی ہے ۔ حیدرآباد میں دیکھئے آج تک کسی کی مجال نہیں ہوئی تھی کہ وقف بورڈ کی کارستانیوں کا افشاء کرے اب جبکہ ایک دلیر عہدیدار ان گورکھ دھندوں کی صرف چھان بین کررہا ہے تو واویلا مچ گیا تھااور اس کے تبادلے کا مطالبہ شروع کردیا گیا تھا مگر اب فکر و فضا دونوں بدل چکے ہیں اور ظفرآغا صاحب کا یہ مضمون حالات حاضرہ کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔

آگے لکھتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان خود سے یہ سوال کریں کہ کیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور وہ تمام مسلم تنظیمیں جو مسلم مفاد کا دم بھرتی ہیں ۔ کیا وہ اس بات کی اہل ہیں کہ مسلم مفاد میں دوراندیشی سے کوئی حکمت عملی یا لائحہ عمل تیار کرسکیں۔ راقم الحروف کی رائے سے اکثر افراد کو اتفاق نہیں ہوگا لیکن راقم الحروف کی رائے میں ہندوستانی مسلمانوں کی کوئی تنظیم ایسی نہیں ہے جو حالات زمانہ کو سمجھ کر مسلم مفاد میں کوئی کام انجام دے سکے ۔ ( یہ تو بڑی سنگین تہمت مسلمانوں کے تنظیموں کے وجود کے تعلق ہی سے لگائی گئی ہے )
آگے لکھتے ہیں کہ مسلم قیادت کا کام محض جذباتی بیانات دے کر مسلمانوں میں ہیجان پیدا کرنا ہوتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جذباتی اور ہیجانی اقدامات سے قوم کو نقصان پہنچتا ہے پھر جب قوم ان خود ساختہ قائدین ملت کے جذباتی اعمال کا نتیجہ بھگت رہی ہوتی ہے تو یہ قائدین ایسے سخت وقتوں میں کہیں نظر نہیں آتے ۔

میں یہاں پر پورا مضمون تو پیش نہیں کرسکتا مگر جو لوگ اس کو پڑھے ہیں وہ ضرور متاثر ہوئے ہونگے اور اگر اُن کے تاثرات شائع ہوں تو جب پتہ چلے گا کہ یہ قوم زندہ ہے ۔ پابندی سے سیاست پڑھنے والے ایک قاری سے جب میں نے اس مضمون کے تعلق سے پوچھا تو معذرت چاہتے ہوئے انھوں نے کہاکہ پڑھ نہیں سکا اور جب پڑھے تو میرا شکریہ ادا کئے ۔ ایسے بیباک مضامین کی اشاعت اردو صحافت میں ایک نئی جان ڈال دی ہے ۔
بدلتی فکر و فضا کی بہترین مثال حالیہ لوک سبھا کے انتخابی نتائج سے ظاہر ہے ۔ خاص طور سے اُترپردیش میں 80 سیٹوں میں 72 سیٹوں پر بی جے پی نے قبضہ جمایا ۔ ان میں کم از کم 30 سیٹیں ایسی تھیں جہاں پر مسلم ووٹس کے بغیر کوئی امیدوار کامیاب ہو نہیں سکتا تھا ۔ مسلمان اور خاص طور سے نوجوان طبقہ حالات کا صحیح اندازہ لگایا اور پرانی ہر قسم کی قیادت کی گمراہی کو بھانپ لیا اور بی جے پی کا ساتھ دیا۔
ان تمام حالات کی صحیح ترجمانی جو اب اردو صحافت میں دیکھی جارہی ہے وہ بڑی خوش آئند تبدیلی ہے ۔