نئی دہلی ، 27 اگست (سیاست ڈاٹ کام) مجرمانہ پس منظر رکھنے والوں کو وزراء بننے کیلئے نااہل قرار دینے سے گریز کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے وزیراعظم اور چیف منسٹرس کو یہ سخت مشورہ دیا کہ ایسے افراد کو جو مجرمانہ پس منظر رکھتے ہو اور کرپشن کے مقدمات میں ملوث ہوں، انہیں وزارت نہ دی جائے۔ ایک سنگ میل فیصلے میں سپریم کورٹ نے آج ایسی عرضی خارج کردی جس کے ذریعہ مبینہ مجرمانہ پس منظر والے لوگوں کو مرکز یا ریاستوں میں وزراء بننے سے روکنے کی استدعا کی گئی تھی۔ ’’ہم اسے وزیراعظم کی دانائی پر چھوڑتے ہیں کہ آیا مجرمانہ پس منظر والے لوگوں کو مقرر کیا جائے یا نہیں،‘‘ فاضل عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بات کہی جبکہ منوج نرولا کی داخل کردہ عرضی خارج کردی، جنھوں نے سیاست کو مجرمانہ رنگ دینے کے خلاف ہدایت چاہی تھی۔ تمام تر ذمہ داری پوری طرح وزیراعظم اور چیف منسٹروں پر ڈالتے ہوئے فاضل عدالت نے یہ تذکرہ بھی کیا کہ دستور نے وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ پر کافی بھروسہ کیا ہے اور
ان سے ذمہ داری اور دستوری اصول کی مطابقت میں عمل کرنے کی توقع ہوتی ہے۔ یہ چیف جسٹس آف انڈیا آر ایم لودھا زیرقیادت پانچ رکنی بنچ کی متفقہ رولنگ رہی، جس کے دیگر ارکان دیپک مصرا، مدن بی لوکور، کوریان جوزف اور ایس اے بوبڈے رہے۔ جہاں تمام پانچوں ججوں نے جاری کردہ فیصلہ کی تائید کی، وہیں اُن میں سے دو جسٹس کوریان اور جسٹس لوکور نے پُرزور اصرار کیا کہ اگر مشکوک دیانت داری کے حامل کسی شخص کو سیول سرویسز سے ہٹا دیا جاتا ہے تو مجرمانہ پس منظر والے سیاست دانوں کو بھی کابینہ سے دور کردینا چاہئے۔ پانچ رکنی بنچ نے یہ رائے ظاہر کی کہ بدعنوان سیاستدانوں کو کابینہ کا حصہ نہیں ہونا چاہئے لیکن یہی بات کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری وزیراعظم پر چھوڑ دی گئی۔ عدالت نے کہا کہ وزیراعظم پر دستوری بھروسہ کی تکمیل کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور انہیں قومی مفاد میں عمل کرنا چاہئے۔ ’’ہم اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کہہ رہے، اور نہ ہی کم ۔ نیز یہ طئے کرنا پی ایم پر منحصر ہے‘‘