عرفان جابری
یکم فبروری کو مودی حکومت کے سالانہ بجٹ 2018 ء کی پیشکشی مقرر ہے۔ موجودہ این ڈی اے (نیشنل ڈیموکریٹک الائنس) حکومت اپنی زائد از دو تہائی میعاد پوری کرچکی ہے۔ اس پوری مدت میں ملکی اقتصادیات اور بجٹ تیاری کے معاملے میں وزیراعظم کی سرپرستی میں وزیر فینانس ارون جیٹلی کا نمایاں رول رہا ہے حالانکہ وہ بنیادی پر پیشہ ور وکیل ہیں۔ بہرحال ارون جیٹلی کی یہ چوتھی سالانہ بجٹ پیشکشی رہے گی۔ چونکہ اس حکومت کا یہ آخری مکمل بجٹ ہے، اس لئے نہ صرف اگلے جنرل الیکشن بلکہ کئی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کو بھی ملحوظ رکھتے ہوئے بعض حکومتی اقدامات متوقع ہے۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور مجوزہ ایف آر ڈی آئی (فینانشیل ریزلیوشن اینڈ ڈپازٹ انشورنس) بل جیسی غیرمقبول تبدیلیوں نے شہریوں کو بالعموم حکومت سے خائف کررکھا ہے۔ شاید اسی لئے مودی حکومت کیلئے عوام میں اپنی تیزی سے گرتی ساکھ بچانے کا یہ آخری موقع ہے۔ جیسا کہ گزشتہ ’سنڈے ایڈیشن‘ میں شائع تحریر میں وزیر فینانس کیلئے بجٹ کی تیاری اور اسے قطعیت دینے میں ملکی مفاد کی بعض تجاویز کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا، اس کا بقیہ حصہ ملاحظہ کیجئے۔
٭ ہماری زندگی میں سبھی کیلئے روٹی ، کپڑا کے بعد آسرا (مکان) کی ناگزیر ضرورت آن پڑتی ہے۔ اس لئے ایک تجویز یہ ہے کہ ہوم انشورنس کو لازمی بناتے ہوئے اس کے پریمیم پر ٹیکس چھوٹ کی پیشکش کی جائے۔ اس ضمن میں ممبئی میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی مثال لیتے ہیں۔ ایسی آفت سماوی پر کسی بھی انسان کو جو صدمہ ہوسکتا ہے وہ تو شاید فطری امر کہلایا جاسکتا ہے مگر ایسے حالات پیش آنے پر ہوم انشورنس پالیسی سے ضرور متعدد لوگ مالی تناؤ سے بچ سکتے ہیں۔ ’ہوم انشورنس‘ کو وسیع تر بنانے کیلئے تمام گوشوں بشمول حکومت کی طرف سے ٹھوس کوشش ضروری ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ہوم انشورنس کو لازمی بنائے اور پالیسی کے تئیں ادا کئے جانے والے پریمیم پر انکم ٹیکس چھوٹ فراہم کرتے ہوئے مکان کے خریداروں کو ترغیبی پیشکش دی جائے۔
٭ انکم ٹیکس ایکٹ کے سیکشن 80C کے تحت مختلف طریقوں ؍ عنوانات پر رعایتیں حاصل ہوتی ہیں۔ موجودہ طور پر سرمایہ کاروں کو متعدد اسکیمات اور دفعات پر بہرحال نظر رکھنا پڑتا ہے تاکہ 80C کے تحت موجودہ استثناؤں کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اس ضمن میں حکومت کو علیحدہ ’انفرادی ریٹائرمنٹ اکاؤنٹ‘ (IRA) متعارف کرانا چاہئے۔ ایسا ہونا چاہئے کہ آمدنی کا کچھ متناسب حصہ ٹیکس سے مستثنا رہے تاوقتیکہ اسے آئی آر اے کیلئے مختص کیا جاتا رہے اور اسے کوئی بڑی مدت (مثلاً 20-30 سال) تک نکالا جائے۔ سرمایہ کار کو کسی بھی زمرہ میں سرمایہ مشغول کرنے اور اسے مرضی کے مطابق کسی اور گوشہ کو منتقل کرنے کی آزادی ہونا چاہئے۔
٭ جی ایس ٹی (گڈز اینڈ سرویسز ٹیکس) لاگو ہونے کے ساتھ ہی ’ٹیکس ریٹرن‘ (محصول کی تفصیل کا گوشوارہ) کے ادخال کا طریقۂ کار پیچیدہ ہوگیا ہے۔ جی ایس ٹی کونسل نے حال میں اسے بزنس کمیونٹی کیلئے سہل بنانے کیلئے بعض اقدامات کئے ہیں۔ تاہم، تجویز ہے کہ ٹیکس ریٹرن فائلنگ کو انفرادی اشخاص کیلئے ’آٹومیٹک‘ (خودکار) بنادیا جائے۔ ٹیکس ادا کرنے والے پہلے سے ہی ٹیکس گوشوارے داخل کرنے کیلئے آن لائن پورٹل استعمال کررہے ہیں، جہاں شخصی اور ادا شدہ ٹیکس کی معلومات ٹیکس فارم میں پہلے سے مندرج ہوتی ہے۔ حکومت اس کو ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے پہلے سے متعلقہ مواد کے حامل ٹیکس فارموں کو ٹیکس ادا کرنے والوں کے پاس اُن کے Form26AS اور اُن کے ’آدھار‘ اور ’پان‘ سے مربوط لین دین کی معلومات کے ساتھ بھیج سکتی ہے۔ ٹیکس ادا کرنے والوں کو ’ریٹرن‘ داخل کرنے سے قبل متعلقہ مواد پر نظرثانی اور ترمیم کا موقع دستیاب ہونا چاہئے۔ اس طرح سے خودبخود بنایا گیا ٹیکس ریٹرن قطعی سمجھا جانا چاہئے ماسوائے متعلقہ فرد اس میں مقررہ تاریخ سے قبل کوئی ترمیم کرے۔
٭ رئیل اسٹیٹ شعبے میں قیمتیں عوام کی مالی سکت سے مسلسل دور ہوتی جارہی ہیں۔ اس میں ڈیولپرس کا بڑا رول ہے۔ وہ اگر تعمیراتی اشیاء ؍ سامان ذخیرہ کرکے رکھتے ہیں تو اس پر ٹیکس عائد کرنا چاہئے تاکہ رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں میں کمی لائی جاسکے۔ حکومت امکنہ کو واجبی بنانے کیلئے بعض اقدامات کررہی ہے۔ تاہم، ہمارے ملک میں اونچی رئیل اسٹیٹ قیمتوں کے سبب استطاعت ہنوز اہم مسئلہ ہے۔ بجٹ میں چند تحدیدی پالیسی اقدامات سے پراپرٹی کی قیمتوں کو معقول ؍ واجبی بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ بلڈرس اور اونچی خالص قدر والے سرمایہ کاروں میں اپنے گوداموں کو خالی نہ رکھنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اس بجٹ میں 10% ٹیکس ایسے ڈیولپرس کیلئے متعارف کرنا چاہئے جو بلڈنگ کی تعمیر کے تمام مرحلوں کی تکمیل اور occupation certificate حاصل کرلینے کے بعد بھی تعمیراتی اشیاء ؍ سامان کا اپنے پاس ذخیرہ کرتے ہیں۔ اس سے بلڈرس تکمیل شدہ پراجکٹوں میں سامان کو گھٹانے پر مجبور ہوں گے اور سپلائی میں اضافہ قیمتوں میں کمی لائے گا۔ تاہم، اس اقدام کا اثر اسی وقت تک رہے گا جب تک موجودہ سامان باقی رہے۔
٭ گولڈ (سونا) کیلئے خصوصی جی ایس ٹی شرح (3%) رکھی گئی ہے۔ گولڈ کو جی ایس ٹی کے ساتھ ہم آہنگ بنانے کیلئے اس پر درآمدی محصول گھٹانا چاہئے، جو 10% کی اونچی شرح پر ہے۔ وسیع تر اقتصادی اصلاحات کو کامیاب بنانے اور گولڈ کے معاشی رول کو بڑھاوا دینے کی خاطر اس قیمتی دھات کو ضرور اصل دھارے میں لانا چاہئے۔ اس مقصد کیلئے سونے پر مجموعی ٹیکس کو کسٹمز ڈیوٹی میں قابل لحاظ کٹوتی کے ذریعے واجبی بنانے کی ضرورت ہے۔
٭ موجودہ طور پر سرمایہ کاروں کا ٹیکس فوائد سے استفادہ مختلف مقررہ مدتوں کے تابع ہے، جو اصل سرمایوں کی نوعیت پر مبنی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ELSS (حصص سے مربوط بچت اسکیم) میں تین سال کی طے شدہ مدت ہوتی ہے، جبکہ طویل میعادی سرمایہ پر ٹیکس فائدہ سے استفادہ کی مدت حصص کی سرمایہ کاریوں کیلئے ایک سال ہے، اور debt investments کیلئے تین سال ہے۔ بینک ایف ڈیز کیلئے یہی مدت پانچ سال اور ای پی ایف اور پی پی ایف سرمایوں کیلئے مختلف ہے۔ ٹیکس فوائد کو اصل سرمایہ کے زمرہ کی بجائے سرمایوں کی طوالت کے اعتبار سے ہم آہنگ کرنے پر سرمایہ کاروں کو ٹیکس کے معاملے میں مخمصے میں پڑے بغیر اپنے سرمایہ کاری فیصلے کرنے کی سہولت ملے گی۔
٭ پنشن پلانس کو ٹیکس کے معاملے میں سازگار بنایا جاسکتا ہے۔ ایک آر بی آئی رپورٹ کے مطابق زائد از 65 سال عمر والے ہندوستانیوں کی معمولی تعداد نے ہی پرائیویٹ پنشن پلانس میں بچت کی ہے اور جملہ آبادی کے بڑے حصے نے ریٹائرمنٹ کے دوران معقول معاشی حالت کو یقینی بنانے والے کوئی اقدامات نہیں کئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ پنشن پلانس کا قابل محصول ہونا ہے۔ موجودہ طور پر اگر کوئی سرمایہ کار میچورٹی پر طے شدہ سالانہ رقم سے استفادہ نہ کرے تو مجموعی سرمایہ کے 66% پر ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ طے شدہ سالانہ رقم والے پنشن کو بھی آمدنی شمار کرتے ہوئے ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں ٹیکس قواعد میں نرمی لانا چاہئے تاکہ لوگوں کی پنشن پلانس میں سرمایہ مشغول کرنے کیلئے حوصلہ افزائی کی جاسکے۔
٭ رئیل اسٹیٹ کیلئے جی ایس ٹی شرح فروخت کی رقم کا 12% ہے۔ جی ایس ٹی سے قبل سرویس ٹیکس لگ بھگ 4.5% اور اضافی قدر ٹیکس (VAT) 1% تھا، جس سے جملہ ٹیکس شرح 5.5% ہوتی تھی۔ اب تعمیراتی اشیاء کی خریداری پر ٹیکس کو ملحوظ رکھیں تو جی ایس ٹی شرح ہنوز اونچی ہے جبکہ اسٹامپ ڈیوٹی کا اطلاق باقی ہے جس سے جائیداد خریدنے والے کیلئے لاگت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ ریاستی حکومتوں کو چاہئے کہ اسٹامپ ڈیوٹی برخاست کردیں یا اسے جی ایس ٹی شرحوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔
٭ سینئر سٹیزنس کیلئے ٹیکس راحت کی پیشکش ہونا چاہئے۔ معمر شہریوں کو سود کی گھٹتی شرحوں نے زک پہنچائی ہے، جن میں حصص پر مبنی اسکیمات کیلئے جوکھم مول لینے کا حوصلہ فطری طور پر کم رہتا ہے۔ اس اثر ؍ نقصان کو زائل کرنے کیلئے 10 لاکھ روپئے سالانہ تک آمدنی والے سینئر شہریوں کو طے شدہ فوائد والی اسکیمات پر سود کے تئیں 75,000 روپئے چھوٹ کی پیشکش ہونا چاہئے۔ علاوہ ازیں، اُن کے معمول کے طبی اخراجات کیلئے 50,000 روپئے کی کٹوتی کی اجازت بھی دی جاسکتی ہے۔
٭ این آر آئیز (غیرمقیم ہندوستانی افراد) کو رشتے داروں کے علاج کیلئے ٹیکس کٹوتی کی گنجائش رکھنا چاہئے۔ این آر آئیز کیلئے ٹیکس قواعد مقیم ہندوستانیوں کیلئے قابل اطلاق قواعد سے کافی مختلف ہیں۔ ٹیکس رپورٹنگ کا عمل کافی تفصیلی ہے، ٹی ڈی ایس (آمدنی پر منہا کیا جانے والا ٹیکس) والے قواعد بہت سخت ہیں اور انھیں بعض ٹیکس مراعات حاصل نہیں جس کے عام شہری اہل ہوتے ہیں۔ مثلاً، این آر آئیز اپنی سرپرستی والے کسی معذور رشتہ دار کا طبی علاج کرانے کی صورت میں سیکشن 80DD کے تحت ٹیکس کٹوتی کیلئے اہل نہیں ہیں، یا سیکشن 80DDB سے بھی استفادہ نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ بے قاعدگی اس بجٹ میں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی این آر آئی انڈیا میں رشتے داروں کے علاج کیلئے ادائیگی کرے تو اسے مقیم شہریوں کے برابر ٹیکس کٹوتیوں کا اہل بنانا چاہئے۔ (ختم شد)
irfanjabri.siasatdaily@yahoo.com