دانش قادری
سال 2017 – 18 کیلئے مرکزی بجٹ نے ابھی سے توجہ حاصل کرنی شروع کردی ہے جبکہ وزیر فینانس ارون جیٹلی نے ابھی یہ بجٹ پیش بھی نہیں کیا ہے ۔ بجٹ پیش کرنے کی تاریخ کو چار ہفتے قبل کردیا گیا ہے ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ریلوے بجٹ کو بھی عام بجٹ میں شامل کردیا جائیگا ۔ اس اقدام کا طویل وقت سے انتظار تھا اور اب آئندہ مالیاتی سال میں ساری نظریں گڈس اینڈ سرویس ٹیکس ( جی ایس ٹی ) پر مرکوز ہونگی ۔ تاہم اس سال کا بجٹ تاریخی ہوسکتا ہے اگر آئندہ اصلاحات کی نئی لہر شروع کرنے کیلئے اس موقع سے استفادہ کیا گیا ۔ ہندوستانی صنعتی حلقوں نے چار بڑی سفارشات کی ہیں جو ہم سمجھتے ہیں کہ مختصر مدتی ‘ درمیانی مدتی اور طویل مدتی معاملہ میں ہمارے امکانات کو بہتر بناسکتے ہیں۔ سرمایہ کاری کو بحال کرنا ہماری سب سے فوری معاشی ضرورت ہے ۔ ہمارے خیال میں درج ذیل پہل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سرمایہ کاروں کے جذبات کو تقویت حاصل ہو ۔ اس کیلئے ڈسمبر 2017 کی مہلت کا تعین کیا جانا چاہئے ۔
سب سے پہلے تو گذشتہ پانچ سال سے عوامی شعبہ کی یونٹوں میں سرمایہ نکاسی کے نشانوں کی تکمیل نیہں ہو پا رہی ہے ۔ ہمیں 100 کمپنیوں کو ختم کرنے کا نشانہ مقرر کرنا چاہئے جن میں 74 ایسی ہیں جن کی نشاندہی نیتی آیوگ نے کی ہے اور پھر ہمیں سرمایہ نکاسی کے عمل کو مکمل خانگیانے کی سمت لیجانے کی ضرورت ہے ۔ اشوکا ہوٹل ایک بہترین اور پرائم پراپرٹی ہے اس کو دنیا کی بہترین ہوٹل بنانے کی ضرورت ہے اور ائر انڈیا کو بھی دنیا کی سب سے بہترین ائر لائینز بنانا چاہئے ۔ دنیا کی بہترین ہوٹل چلانے اور دنیا کی بہترین ائرلائینز کیلئے دنیا کے بہترین انتظامیہ کی ضرورت پڑتی ہے اور ان دونوں کو یہ فراہم کرنا چاہئے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ کیلکر کمیٹی کی سفارشات جو انفرا اسٹرکچر شعبہ میں پی پی پی ماڈل میں نئی جان ڈالنے سے متعلق ہیں وہ بھی وزارت فینانس کے پاس زیر التوا ہیں۔ ان پر عمل آوری کی ضرورت ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ تنازعات کے حل کے میکانزم کے ذریعہ پی پی پی طریقہ کار میں جو تنازعات ہیں ان تمام کی یکسوئی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ موجودہ اثاثہ جات کی ری سائیکلنگ پر توجہ دے ۔ مثال کے طور پر ریلویز نے پی پی پی بنیادوں پر ریلوے اسٹیشنوں کو ترقی دینے کا آغاز کیا ہے ۔ کیا بجٹ میں یہ اعلان کیا جاسکتا ہے کہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے یہ 50 ریلوے اسٹیشنس عصری ہونگے ۔ اس کے ذریعہ ملک بھر میں اہم ترین مقامات پر ریلوے اسٹیشنوں کو قیمتی رئیل اسٹیٹ میں بدلنے کی گنجائش موجود ہے ۔
اس کے علاوہ بہتر معیاری روزگار فراہم کرنے کے واقعی اخراجات میں کمی کرتے ہوئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔ معیشت میں کئی غیر رسمی خدمات کے ذریعہ اور کنٹراکٹ لیبر کے ذریعہ کئی روزگار فراہم کئے گئے ہیں۔ ایسے میں مسئلہ روزگار کی تعداد کا نہیں ہے بلکہ اس کے معیار کا ہے ۔ معیاری روزگار کیا ہے ؟ ۔ ایسا روزگار جو فرمس کو مناسب لچک فراہم کرے جب وہ ملازمین کو مناسب تحفظ فراہم کریں۔ جہاں تک موجودہ فرمس کا سوال ہے ہماری دو تجاویز ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ تمام شعبہ جات کیلئے نئی پالیسی میں ٹیکسٹائیلس اور پارچہ جات کیلئے پالیسی دائرہ کار فراہم کیا جائے ۔ اس کے نتیجہ میں مقررہ معیاد کی ملازمت ممکن ہوسکے گی اور پراویڈنٹ فنڈ ادائیگی میںآجر کے حصہ کا بھی تعین ہوسکے گا ۔
نئی فرمس کیلئے سبسڈی اور مراعات سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ سرکاری قوانین کا بوجھ کم ہو ۔ اس کے نتیجہ میں آئندہ پانچ سال میں دس ملین اسٹارٹ اپس شروع ہوسکتے ہیں۔ جو کام ہمیں لازمی کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ان اسٹارٹ اپس کو خود اعلامیہ کے ذریعہ تمام قوانین پر عمل کروایا جائے ۔ اس میں حکومت کی جانب سے ابتدائی پانچ سال تک تمام امور کا احاطہ کیا جانا چاہئے ۔ اسٹارٹ اپ کی تشریح یہ ہونی چاہئے کہ جو کوئی فرم پانچ سال سے کم پرانی ہو اسے اسٹارٹ اپ قرار دیا جائے اور اس کیلئے کوئی دوسری شرط عائد نہ کی جائے ۔ ملک میں ضروری ہے کہ ٹکنالوجی کے شعبہ میں سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے ۔ چاہے یہ فرمس کے ذریعہ ہو یا پھر اعلی تعلیم میں ہونے والی سرکاری ریسرچ کے ذریعہ ہو ۔ اعلی تعلیم کے شعبہ میں ریسرچ میں جو عوامی سرمایہ کاری ہوتی ہے وہ جملہ گھریلو پیداوار کا صرف 0.4 فیصد ہے ۔ اسی طرح خانگی شعبہ کی سرمایہ کاری فی الحال جملہ گھریلو پیداوار کا 0.3 فیصد ہی ہے ۔ اس میں پانچ گنا اضافہ کی ضرورت ہے تاکہ اسے جملہ گھریلو پیداوار کے 1.5 فیصد تک لایا جائے ۔ ہم اتنا زیادہ لیکن ضروری اضافہ کس طرح کر پائیں گے ؟ ۔ اس میں ایک تجویز یہ ہے کہ ایک نیشنل تخلیقی فنڈ قائم کیا جائے جس میں کم از کم 10,000 کروڑ کا کارپس فنڈ ہو ۔ Consolidated Fund Of India میں ٹکنالوجی امپورٹس کے ذریعہ حاصل کئے جانے والے سیس کی شکل میں موجود ہے ۔ اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ یہ فنڈز ان فرمس کو فراہم کئے جاسکتے ہیں جو اعلی مسابقتی تجاویز کے ساتھ خود بھی سرمایہ فراہم کرسکیں۔
دوسری تجویز یہ ہے کہ حکومت خود مختار لیبریٹریز میں ریسرچ کیلئے سالانہ فنڈز فراہم کرے ۔ فنڈز میں کسی بھی اضافہ کو اعلی تعلیم کے اداروں میں ہونے والی عوامی ریسرچ سے مربوط کیا جانا چاہئے ۔ یہ کام بھی انتہائی مسابقتی بنیادوں پر ہونا چاہئے ۔ اس سے نہ صرف ریسرچ کو فائدہ ہوگا بلکہ اس سے ملک میں روشن نوجوان ذہن بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔ تاہم تعلیم ہی سب سے زیادہ نفع بخش ہوسکتی ہے ۔ انتہائی کم خانگی سرمایہ کاری کے پس منظر میں اور نوٹ بندی کے پیش نظر ہماری سب سے اہم تجویز یہ ہے کہ کارپوریٹ محاصل کو کم کیا جائے اور تمام مراعات کو ختم کیا جائے ۔ یہ تجویز بھی قابل غور ہے کہ کارپوریٹ ٹیکس کو تمام سرچارجس کی شمولیت کے ساتھ 18 فیصد کردیا جائے ۔ اس کے بدلے میں ہم تمام ٹیکس مراعات ‘ رعایتیں وغیرہ کم کرسکتے ہیں اور سابقہ مراعات کو جاری رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوسکتی ۔ 18 فیصد کارپوریٹ ٹیکس کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہی سب سے اقل ترین متبادل ٹیکس شرح ہے جو کمپنیوںکو بہرحال ادا کرنا ہوتا ہے ۔ ان اقدامات کے ذریعہ ہندوستان کو انتہائی پرکشش بین الاقوامی سرمایہ کاری مقام جیسے سنگاپور ‘ سری لنکا ‘ برطانیہ اور ترکی کی صف میں لایا جاسکتا ہے ۔ اس سے ہندوستانی صنعت اور عالمی سرمایہ کاروں کو یہ پیام دیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان سرمایہ کاری کیلئے ایک پرکشش مقام ہے ۔ اس کے علاوہ یہاں میک ان انڈیا کو فروغ دیا جاسکتا ہے ۔
مرکزی حکومت نے حوصلہ مندی سے کام کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے ۔ ایک سینئر بیوروکریٹ کا کہنا ہے کہ اگر حکومت راتوں رات ملک کی کرنسی کے 86 فیصد حصے کے چلن کو بند کرسکتی ہے تو پھر وہ کچھ بھی کرسکتی ہے ۔ یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اس بجٹ کے ذریعہ اصلاحات کی آئندہ لہر شروع کرنے کے موقع سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ اس کیلئے سرمایہ کاری کو بحال کیا جاسکتا ہے ‘ معیاری روزگار فراہم کرنے کے اخراجات کو کم کیا جاسکتا ہے ‘ ایک تخلیقی ہندوستان تعمیر کیا جاسکتا ہے اور ہمارے کارپوریٹ ٹیکس نظام کو دنیا کا سب سے پرکشش سرمایہ کاری نظام بنایا جاسکتا ہے ۔ 2017 کو اس طرح سے 1991 کے بجٹ سے مشابہ کیا جاسکتا ہے جو دنیا کی تاریخ میں درج ہے ۔