بال نہ گرنے کیلئے وظیفہ

سوال : چار ماہ قبل ٹسٹ کروانے پر پتہ چلا کہ مجھے تھائراڈ ہے، ڈاکٹر نے صبح نہار گولی کھانے کیلئے کہا ۔ اس کے باوجود گلے پر سوجن نظر آرہی ہے اور بال بھی بہت جارہے ہیں، سوجن تھوڑی ہی ہے اور زیادہ نہ بڑھے اس لئے کوئی وظیفہ بتایئے اور بالوں کے لئے بھی کوئی وظیفہ بیان کریں۔ میرے دو لڑکے بھی آپریشن سے ہیں، گلے میں سوجن ز یادہ آجائے تو ڈاکٹر نے آپریشن کیلئے کہا ہے ۔ براہ مہربانی وظیفہ بتائیں تاکہ گلہ نارمل رہے اور بال نہ جھڑیں۔
نام …
جواب : بیماری سے شفاء کیلئے بہت سی قرآنی آیات و وظائف ہیں۔ سب سے آسان اور مجرب سورۃ الفاتحہ ہے ۔ اس کو سورۃ الشفاء بھی کہتے ہیں، اس کے دم کرنے میں مہلک بیماریوں سے بھی شفاء ہے ۔ اس لئے آپ روزانہ صبح و شام سات سات مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھ کر کھانے پانی پر دم کر کے استعمال کریں۔ اس کے ساتھ الذی خلقک فسواک فعدلک پڑھا کریں اور بالوں کیلئے ’’و انبتھا نباتا حسنا‘‘ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے پڑھا کریں۔

اللہ اور پیغمبروںکو نہیں ماننا
سوال : میرا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کہ میرے خسر نے تقریباً دس افراد کے سامنے یہ بات کہی کہ وہ اللہ تعالیٰ اور پیغمبروں کو نہیں مانتے ہیں (نعوذ باللہ) لہذا میرے خسر کے بارے میں شریعت کی روشنی میں کیا حکم ہے ؟ مجھے معلوم ہے کہ جو شخص اللہ اور رسول کو نہیں مانتا وہ اسلام سے خارج ہے۔
میرا اہم سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں میری بیوی پر کیا حکم بنتا ہے ۔ میرے خسر کے گھر کو جانا آنا کھانا پینا شرعاً درست ہے یا نہیں ؟
محمد نجیب مانصاحب ٹینک
جواب : جو شخص اللہ تعالیٰ اور پیغمبران کرام علیھم السلام کا انکار کرے ازروئے شرع وہ اسلام سے خارج ہے ۔ سوال میں ذکر کردہ کلمات کفر یہ ہیں ۔ کوئی مسلمان اپنی زبان سے ایسے کلمات نکالتا ہے تو وہ فی الفور اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ کسی مسلمان سے یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنی زبان سے ایسے کلمات ادا کرے گا ۔ بسا اوقات بعض مسلمان لڑائی اور اختلافات کی صورت میں گرم مباحثہ کے د وران فریق مخالف کے استدلال کو قبول نہ کرتے ہوئے ایسے کلمات استعمال کردیتے ہیں تو ایسی صورت میں فریق مخالف ایک بات کو پکڑ کر اچھال دیتے ہیں۔ جب تک دونوں پہلو سامنے نہ ہوں اور جو جملہ ادا کیا گیا ہے اس کا سیاق و سباق نہ دیکھا جائے اور جب تک یہ جملہ ادا کرنے والے سے اس کی حقیقت کے بارے میں نہ پوچھ لیا جائے کسی پر کفر کا حکم لگانے میں احتیاط کرنا چاہئے ۔لہدا بہتر صورت یہی ہے کہ متعلقہ شحص مفتی صاحب سے رجوع ہو، پورے تفصیلات کا ذکر کرے، بعدہ مفتی صاحب شریعت کی روشنی میں رہبری فرمائیں گے۔ اگر آپ کے خسر سے مذکورہ السئوال کلمات ادا ہوئے ہیں تو آپ کی بھی ذمہ داری ہے کہ آپ ان کو اس جملہ کی سنگینی سے واقف کرائیں۔ یہ نہیں کہ آپ ان کو کافر سمجھیں اور ان کے ساتھ کافروں کی طرح معاملہ کریں۔ ولوبالفرض کسی لڑکی کے ماں باپ مسلمان نہ بھی ہوں تو لڑکی اپنے ماں باپ کے پاس جاسکتی ہے ، ملاقات کرسکتی ہے ، ان کے گھر میں حلال و جائز اشیاء کھا پی سکتی ہے۔

کرسی پر نماز پڑھنے والے صف کے درمیان پڑھیں یا کنارہ پر
سوال : فرض نمازوں کی ادائیگی کیلئے صفوں کو درست کرنے کی سخت تاکید ہے، اسی طرح سے مونڈھے سے مونڈھا ملاکر دیوار کی طرح صفوں کو درست کرنے کی تاکید کی گئی تاکہ درمیان میں جگہ خالی نہ رہے۔ موجودہ حالات میں مساجد میں کرسیوں کا انتظام کیا گیا ہے تاکہ ضعیف ، معذور، بیمار مصلیوں کو نماز ادا کرنے میں سہولت ہو، دیکھا یہ جارہا ہے کہ اگر یہ حضرات کرسیاں لیکر صف میں جہاں جگہ خالی ہو شریک ہوکر نماز ادا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے خالی جگہ چھوٹ رہی ہے۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ کرسیوں پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے حضرات صف میں کہاں نماز ادا کریں جہاں جگہ خالی ہو وہاں پڑھیں یا صف کے کنارہ پر پڑھیں۔
محمد شاہد صدیقی ، پرانی حویلی
جواب : حیدرآباد اور مضافات میں کرسیوں پر نماز پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتے جارہا ہے، اس کی وجہ سے بعض شکوک و شبہات بھی پیدا ہورہے ہیں۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں شرعاً معذور (جس کو عذر لاحق ہو) کو بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے ۔ ازروئے شرع معذور اور غیر معذور شخص کے لئے صف میں کوئی جگہ مختص نہیں ہے ۔ سب یکساں صف میں نماز پڑھیں گے ۔ کرسی پر نماز پڑھنے کی وجہ مونڈھے سے مونڈھا نہ ملنے اور صف میں اتصال باقی نہیں رہنے کا اندیشہ ہورہا ہے تو اس کے لئے بہتر صورت یہی ہے کہ مسجد میں اتنے حضرات ہوں کہ جن سے صف پوری ہوجاسکتی ہے ۔ ضعیف و معذور اصحاب کو چاہئے کہ وہ درمیان صف پڑھنے کے بجائے کنارہ پر نماز پڑھ لیں اور اگر اقامت کے وقت اتنے لوگ نہ ہوں جن سے صف مکمل ہوتی ہو تو ایسے وقت ضعیف و معذور اصحاب صف جہاں ختم ہورہی ہے وہاں کھڑے ہوجائیں۔ بعد میں آنے والے حضرات ان کے بازو نماز ادا کر یں گے، اس کی وجہ سے صف میں اتصال نہ ہونے کا اندیشہ نہ کیا جائے کیونکہ یہاں عذر ہے، عمداً جگہ نہیں چھوڑی جارہی ہے ۔ نیز ہر حال میں ضعیف اور معذور حضرات کو صف کے کنارے پر نماز ادا کرنے کیلئے کہا جائے تو بسا اوقات صف مکمل نہیں ہوتی اور درمیان میں جگہ خالی رہ جائے گی جو مناسب نہیں ہے اور اقامت وقت اتنے افراد ہوں جن سے صف مکمل ہوسکتی ہو تو ایسے وقت ضعیف معذور اصحاب کا درمیان صف نماز پڑھنے پر اصرار کرنا مناسب حال نہیں۔

ویزٹ ویزا پر عمرہ کرنے والے کیلئے احرام
سوال : میرے بچے سعودی عرب جدہ میں ملازمت کرتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ وہاں مقیم ہیں۔ مجھے اور میری اہلیہ کو وزٹ ویزا پر بلانا چاہتے ہیں تاکہ ہم دونوں عمرہ کا شرف حاصل کرسکیں اور روضۂ مبارک کی زیارت سے سرفراز ہوں۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ عمرہ کا احرام باندھنے کیلئے ہماری میقات کونسی جگہ ہوگی ۔ ہم حیدرآباد سے جدہ جارہے ہیں۔ وہ بھی وزٹ ویزا پر گو کہ عمرہ کی نیت اور ارادہ ہے اور ہم جدہ کے مقیم بھی نہیں کہلاتے۔ شرعی احکام کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں تو مجھے اور میرے جیسے اور لوگوں کیلئے باعث رہنمائی ہوگی۔
نام …
جواب : میقات سے باہر رہنے والے (آفاقی) کا ارادہ اگر حرم جانے کا ہو تو اسے میقات ہی سے عمرہ کا احرام باندھنا ضروری ہے اور اگر وہ (حل) میقات کے اندر کسی ایسی جگہ جو حرم کے باہر ہو جیسے خلیص جدہ وغیرہ کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے بغیر احرام میقات سے گزرنے کی اجازت ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی میقات سے متعلق ایک طویل حدیث شریف کے آخری حصہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ منقول ہے کہ فرمایا ومن کان دون ذلک فمن حیث انشاء حتی اھل مکۃ من مکۃ عمدۃ القاری 139/9 اور درمختار میں ہے۔ امالو قصد موضعا من الحل کخلیص وجدہ حل لہ مجاوزتہ بلا احرام فاذا احل بہ التحق باھلہ۔
پس صورت مسئول عنھا میں آپ نے بغرض عمرہ ملاقاتی ویزا (ویزٹ ویزا) حاصل کیا ہے اور عمرہ ہی کی نیت سے گھر سے نکل رہے ہیں تو آپ کو میقات سے پہلے ہی احرام باندھ لینا ضروری ہے اور اگر آپ کا مقصد جدہ میں آپ کے بچوں سے ملاقات ہو تو آپ احرام کے بغیر جدہ جاسکتے ہیں اور وہاں جانے کے بعد آپ عمرہ کا ارادہ کریں تو وہیں سے احرام باندھ سکتے ہیں اور ہندوستانی حجاج و معتمرین کیلئے یلملم میقات سے گزرنا ہوتا ہے اور وہ ہوائی جہاز سے سفر کے درمیان آجاتی ہے اور دوران سفر احرام باندھنا دشوار ہوتا ہے تو آپ حسب سہولت گھر سے یا ایرپورٹ پر احرام باندھ لیں اور ہوائی جہاز میں سوار ہونے کے بعد میقات کے قریب نیت کرلیں ۔ واللہ اعلم۔

سکرات میں تلقین کی فضیلت
سوال : جو لوگ سکرات میں ہوتے ہیں‘ ان کو کلمہ کی تلقین کی جاتی ہے ۔ شریعت میں تلقین کا کیا حکم ہے اور اس کا فائدہ کیا ہے ؟ اگر شریعت میں اس کی کوئی فضیلت آئی ہے تو بیان کریں؟
ممتاز خاں، ورنگل
جواب : آخرت میں کامیابی و سعادتمندی کا دارومدار صرف اور صرف خاتمہ بالخیر پر ہے ۔ جن کا خاتمہ ایمان پر ہو وہی شحص کا میاب و کامران ہے ۔ اس لئے شریعت مطھرہ میں جو شخص قریب الموت ہو اس کو ’’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کی تلقین کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ حکم مستحب ہے ۔ ردالمحتار ج : 2 ص : 78 میں ہے : لکنہ تجوز لما فی الدرایۃ من أنہ مستحب بالا جماع۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لقنوا موتاکم لا الہ الا اللہ فانہ لیس مسلم یقولھا عندالموت الا انجتہ من النار‘‘ یعنی تم قریب الموت افراد کو ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کی تلقین کرو کیونکہ جو کوئی مومن موت کے وقت یہ کلمہ پڑھتا ہے۔ وہ دوزخ سے نجات پاجاتا ہے ۔ نیز آپ کا ارشاد گرامی ہے : من کان آخر کلامہ لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ ‘ ‘ یعنی جس کا آخری کلام ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ (کوئی معبود نہیں ہے سوائے اللہ کے) وہ جنت میں داخل ہوگا (ابو داؤد) اس لئے تلقین کرنا پسندیدہ ہے۔

بیوی کی تجہیز و تکفین کے مصارف
سوال : ہمارے عزیزوں میں ایک خاتون کا انتقال ہوا ‘ وہ صاحب جائیداد تھیں‘ ان کے شوہر بہ حیات ہیں اور ان کو تین لڑکے ہیں جو ماشاء اللہ اچھا کماتے ہیں۔ بیوی کے انتقال کے بعد ان کی تدفین کے بارے میں کچھ دقت پیش آئی۔ ان کے آبائی قبرستان میں جگہ تھی لیکن ایک قبر کیلئے ذمہ دار حضرات نے تقریباً چالیس ہزار روپئے کا مطالبہ کیا ۔ بالآخر وہ رقم شوہر نے ادا کردی ۔ اس طرح تجہیز و تکفین کے اخراجات کی تکمیل ہوئی۔ تقریباً پچپن ہزار روپئے تجہیز و تکفین پر خرچ ہوئے ۔ اب مرحومہ کی جائیداد تقسیم ہونے والی ہے ۔ شوہر کا کہنا ہیکہ تجہیز و تکفین پر جو رقم خرچ ہوئی ہے وہ رقم ان کو ان کے حصہ کے علاوہ ادا کی جائے ۔ ایسی صورتحال میں شرعی احکام کیا ہے۔ مطلع فرمائیں۔
محمد منصور، سیف آباد
جواب : بیوی کی تجہیز و تکفین کے مصارف ازروئے شرع شوہر پر واجب ہیں۔ اگرچہ بیوی مالدار کیوں نہ ہو اور شریعت میں یہ قاعدہ مقرر ہے کہ زندگی میں جس پر نفقہ واجب ہے۔ وفات کے بعد اس کی تجہیز و تکفین کے مصارف بھی اسی پر واجب رہیں گے ۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 1 میں ہے : واختلف فی الزوج والفتوی علی وجوب کفنھا ان ترکت مالا اور ردالمحتار کے اسی صفحہ میں ہے : الاصل فیہ أن من یجبر علی نفقتہ فی حیاتہ یجبر علیھا بعد موتہ ۔
پس مرحومہ کی تجہیز و تکفین کے مصارف شوہر کے ذمہ رہے۔ شوہر کو مقررہ حصہ رسدی کے علاوہ تجہیز و تکفین کے مصارف متروکہ مرحومہ سے نہیں ملیں گے۔