بالی ووڈ کی تین فلمیں ۔2018 ء میں ہندوستانی مسلمانوں کی پیچیدہ صورتحال کی عکاسی

(منٹو ، ملک اور کیدرناتھ بالی ووڈ کے مسلمانوں کی خطرناک جیتی جاگتی تصویر)

کاویری بمزئی
1947 ء میں بامبے ’’ہندی ، ہندو ، ہندوستان ، مسلمان بھاگو پاکستان‘‘ کے نعرے سے گونج اٹھا۔ مصنف سعادت حسن منٹو جو بامبے کے رہائشی تھے اس نعرہ سے جھنجھلا اٹھے کہ وہ اپنی خود کی سرزمین پر اجنبی کس طرح ہوگئے۔ وہ کون لوگ تھے جو یہ سوچتے تھے کہ ’’بامبے ٹاکیز اسٹوڈیو میں بہت زیادہ مسلمان ہیںاور ان پر پابندی تھی کہ جب کبھی بھی مسلمان علاقہ سے گزریں ، سر پر ٹوپی پہن کر گزریں تاکہ کہیں غیر مسلم تصور کر کے ان کا قتل نہ ہوجائے‘‘ ؟ 70 سال بعد وہی لوگ فلم ملک میں مراد علی محمد کی دیوار پر تحریر کرتے ہیں کہ ’’دہشت گرد پاکستان چلے جا ‘‘ اور کیا یہی لوگ ہیں جو فلم کیندر ناتھ میں منصور کی موجودگی پر سوال اٹھاتے ہیں ، جس کے جواب میں منصور ان کو جواب دیتا ہے کہ ’’ان کے آبا و اجداد سے یہ روایت چلے آرہی ہے کہ وہ زائرین کا سامان لادتے ہوئے شیوا مندر تک انہیں پہنچاتا آرہا ہے اور کہتا ہے کہ ’’تیرتھ ہماری رگوں میں ہے (یعنی زیارت ، ان کے خاندان کی رگوں میں جاگریں ہے)
اس سال ممبئی سینما ہم کو آئینے میں اپنا چہرہ دکھاتا ہے کہ خلیج کہاں ہے اور ہمارے قلوب کو کہاں پر ہونا ہے لیکن فلموں ملک ، منٹو اور کیدر ناتھ میں مسلمانوں کو ان کی اپنی اوقات دکھادی ہے کہ کس طرح ان کو خوف زدہ ماحول ، ڈر ، دھمکی کے سایہ تلے حاشیہ پر زندگی گزارنا ہے ۔ وہ کبھی بھی اس طرح کی صورتحال کا شکار نہیں ہوئے تھے ۔ کیدر ناتھ میں منصور کی ماں بے حد خوفزدہ ہوجاتی ہے جب اس کو پتہ چلتا ہے کہ منصور کو پنڈت کی بیٹی مکو سے محبت ہوجاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ ’’یہ کافر ہے، کمینی ہے ، مکار ہے مگر پورا اسمان پی جاتی ہے کیا کروں ‘‘؟
جب کبھی بھی کوئی سوپر اسٹار عدم برداشت کی بات کرتا ہے تو اس کو پاکستان چلے جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے یا پھر کوئی ڈائرکٹر پاکستانی اداکاروں کو اپنی فلم میں جگہ دیتا ہے تو اس کو کھلے عام معافی مانگنی ہوتی ہے اور ایسے اداکار جو قومیت کا اظہار اپنی فلموں میں اجاگر کرتے ہیں ، ان کو نفرت انگیز خطاب سے نوازا جاتا ہے ، حالانکہ ایسی فلمیں ہمارے لئے نہایت اہم ہوتی ہیں جس میں ہماری تکثیریت و کثرت الوجود کی عکاسی کی جاتی ہے ، اس کے علاوہ ایسے زہریلے ماحول میں فنون جب کبھی بی نفرت کے پرچار پر روک لگانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو غیر معنویت دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کی سب سے بہترین مثال سنجے لیلا بھنسالی کی فلم پدماوت ہے جس میں صرف ہندو و مسلمان کے درمیان ایک طرفہ محبت کی داستان کو پیش کرنے پر دیپکا پڈوکون کے سر کو کاٹ کر لانے کا ایک عجیب و غریب فتویٰ دیا جاتا ہے اور بالآخر احتجاج کے دوران فلم کے عنوان کو تبدیل کرنا پڑا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ آیا ملک کی تقسیم کے زخم کیا ابھی تازہ ہیں یا پھر سیاستداں محض اپنے ووٹوں کے حصول کیلئے گندی سیاست کھیلتے ہوئے نئے زخم دینے کی کوشش تو کر رہے ہیں ؟ فلم ’’ملک‘‘ کے ڈائرکٹر انوبھؤ سنہا نے خیال ظاہر کیا کہ ’’ہر پانچ یا دس سالوں میں کوئی آتا ہے اور کہتا ہے کہ ہندو اور مسلمان یکجا نہیں رہ سکتے لیکن ہم کو اس کانچ کی دیوار کو مسمار کردینا ہے جو ہم کو ایک دوسرے سے جدا کر رہی ہے اور ہمارے لئے کوئی دوسرا یہ کام انجام نہیں دے سکتا ‘‘۔ انہوں نے اس کا ایک نزاعی حل پیش کیا ہے کہ ’’مندر تعمیر کردو اور بانگ دہل کہہ دو کہ اب سب کچھ ہوچکا ہے اور ہندو مسلم کے درمیان کی جنگ ختم ہوچکی ہے اور اب پھر کبھی کوئی دوسرے مندر کی بات نہ کرے ‘‘۔
فلم ’’ملک‘‘ میں یہ مکالمہ دل کو چھونے والا لگتا ہے جس میں ایک مسلمان اجنبی مل کر کہتا ہے کہ ’’مجھے دوبارہ ہندوستانی تصور کرنے پر بہت بہت شکریہ ‘‘ یہ فلم ملک میں دراصل مراد علی محمد کی ہی گونج ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’’میں کس طرح ثابت کروں کہ میری محبت میرے ملک کیلئے ہے اور یہی وہ مکالمہ جو ایس ایس پی دانش جاوید کو یہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ بی جے پی کی دانست میں وہ نہ ہی خراب مسلمان ہے اور نہ ہی اچھا ۔ وہ اپنی ہی کمیونٹی میں ایسے عناصر جو دہشت گردی سے متاثر ہیں، سے نفرت کرتا ہے ۔ فلموں میں ایسے عناصر کی بہترین نشاندہی کی گئی ہے جو عوام کو نہ صرف تقسیم کرتے ہیں بلکہ ان کے درمیان خلیج کو مزید بانٹتے ہیں۔ منٹو کی ڈائرکٹر نندیتا داس نے بیان دیا کہ ان کے فلم کے بنانے کا مقصد سماج میں بڑھتے ہوئے تشدد ، اجنبیت کو بڑھاوا دینے والے عناصر کا پردہ فاش کرنا ہے کیونکہ سعادت حسن منٹو نے کبھی بھی اپنی زندگی میں مذہب کا لبادہ نہیں اوڑھا اور وہ کہا کرتے تھے ’’میں کس طرح اپنے آپ کو ایک ہندوستانی مصنف کہہ سکتا ہوں جبکہ مجھے پورے ہندوستان کا علم نہیں ہے ؟ جبکہ پاکستان تو بہت دور کی بات ہے اور میں ایک چلتا پھرتا بامبے ہوں ‘‘ ۔ وہ اپنے آپ کو ’’بامبے مصنف‘‘ تصور کرتے تھے اور جب وہ اپنے محبوب وطن کو چھوڑ کر لاہور منتقل ہوگئے تھے تو ان کا دل ٹوٹ چکا تھا اور مسز داس نے کہا کہ وہ تقسیم سے بہت رنجیدہ تھے۔ یہ ایک سانحہ بنالیا گیا جس میں مسلمانوں کو کبھی رکھا جاتا اور کبھی اس سے باہر حالانکہ ہماری ہزاروں سال کی تاریخ گواہ ہے جس میں کئی تاریخی یادگاریں گلی ، کوچے ، شہر جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ہم ایک حقیقی یکجہتی کی نشانی رہے ہیں۔
کیدرناتھ کے ڈائرکٹر ابھیشک کپور نے کہا کہ فلم کی کہانی دراصل لارڈ شیوا کے نظریہ پرمبنی ہے جس میں قربانی کے جذبہ کو ابھارا گیا ہے کہ کس طرح لارڈ شیوا انسانیت کی بقاء کیلئے زہر کا پیالہ نوش کرلیا تھا ۔ یہ ایک مذہبی الحاد ہے ’’چاہے کیدرناتھ ہو یا امرناتھ در حقیقت ہندو مسلم مل جل کر پرامن طریقہ سے اس جمہوری ملک ہندوستان میں رہتے آرہے ہیں اور انہوں نے کہا کہ ’’ہر ہر مہادیو ‘‘ کا مطلب جیسا کہ صرف جنگی جنون لیا جاتا ہے ۔ دراصل شیوا کی روح ہمارے میں رچی اور بسی ہوئی ہے چاہے جو کوئی بھی ہوں‘‘۔
مکو کے ہندو انتہا پسند منگیتر کی دھمکی کے باعث کیدر ناتھ کے مسلم دکاندار اور قلیوں نے علاقہ چھوڑ دیا۔ اسی اثناء میں مسلمان مراد علی محمد کا انتہا پسند بھتیجہ کہتا ہے کہ ’’ہمیں لڑ کر اپنی جگہ نہیں ہے ‘‘۔ داس کی پہلی فلم ’’فراق‘‘ (2008) میں 2002 ء کے احمد آباد ہندو مسلم فسادات کو موضوع بحث بنایا گیا تھا لیکن وہ کہتی ہیں کہ فراق اور منٹو میں مسلمانوں کے تنگ نظر تجربات کے برخلاف انسانی تجربات اور تعلقات کو نمایاں کیا گیا ہے۔ فراق میں فسادات کے اختتام پر ہندو مسلم تعلقات ، بدلہ ، غصہ ، امید ختم ہوجانا وغیرہ ، جذبات کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے ۔ فلم منٹو کی کہانی میں ایک مصنف کے اظہار رائے پر پابندی پر اس کے جذبات اور احساسات کو پیش کیا گیا ہے اور خود اس کی اپنے سے جدوجہد کو پیش کیا گیا ۔ دونوں فلموں فراق اور منٹو کے تذکرہ کا یہاں مطلب یہ ملتا ہے کہ دونوں کے موضوعات پر بحث کرنا بلکہ دونوں کی مشترکہ نظریہ یعنی تشخص کی جدوجہد ظاہر کی گئی ہے ۔ فلم ملک میں علی محمد کے وکیل اور بہو آرتی کی شخصیت کی عکاسی کی گئی ہے جس میں دہشت گردی کے ساتھ ساتھ آدی واسی اور اچھوت ذاتوں کے ساتھ ظلم کو پیش کیا گیا ہے ۔ ان تینوں فلموں میں ہندو اور مسلمان دونوں کے علحدہ علحدہ چارہ کے گودام کو دکھایا گیا ہے ۔ فلم ملک میں ایک مشہور مسلمان شخص کی دعوت کے موقع پر پڑوس کی آنٹی جی مخاطب ہوکر کہتی ہیں کہ ’’ہم ان کے یہاں کھانا نہیں کھاسکتے لیکن صرف ناچ گانے کیلئے ٹھیک ہے ‘‘۔ وارناسی میں سنہا کے بچپن کا ذکر ہے ، جن کے والد کے ایک مسلم دوست اشرف ہوا کرتے تھے جو اکثر سنہا کے گھر کھانے پر آتے تھے لیکن ان کی ایک علحدہ پلیٹ ہوا کرتی تھی اور بالآخر جب سنہا تیرہ سال کے ہوگئے تو انہوں نے اپنے والدین سے اس امتیاز برتنے کی شکایت کی۔
میرے والدین تو اس بات پر متفق ہوگئے لیکن اشرف انکل کو معلوم تھا اور ان کو یہ برتاؤ قبول بھی تھا ۔ فلم ’’ملک ‘‘ میں دلچسپ بات یہ تھی کہ ایک جوڑا جو بین مذہبی شادی کر کے لندن جیسے بڑے شہر میں رہنے لگا جہاں پر کسی قسم کی روک ٹوک نہیں تھی اور نہ ہی سوال کرنے والا ہم منموہن دیسائی کی پردہ پر جمہوریت کو ظاہر کرنے والی فلم امر اکبر انتھونی کا ذکر کرتے ہیں جس میں باوجود علحدہ علحدہ عقائد کئے اور شناخت کے تینوں کے قلوب ہمہ تمدنی تھے ۔ اب ہماری پستی کو بڑے سے ملٹی پلکس پردہ پر دکھایا جانے لگا ہے اور اب اس کو چھپانے کی کوئی بھی جگہ باقی نہیں رہی ہے۔ سعادت حسن منٹو نے ایک بار کہا تھا کہ ’’اگر آپ میری کہانیوں کو برداشت نہیں کر رہے ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ناقابل برداشت وقت میں جی رہے ہیں اور اوقات یقیناً ناقابل برداشت ہیں۔