بالغ شخص جس کو داڑھی اور مونچھ نہ ہو نماز پڑھانے کا مسئلہ

سوال : زیدبالغ شخص ہے مگر اسے اب تک داڑھی اور مونچھیں نہیں آئی ہے تو اس کا امامت کرنا کیسا ہے ؟
محمد ولی الدین ،پرانا پل
جواب: جس بالغ کی عمر اتنی ہے کہ ابھی اسے داڑھی مونچھ نکلنے کا زمانہ ختم نہیں ہوا ہے تو اسے امرد کہتے ہیں جس کی اما مت مکروہ تنزیہی ہے ،اور جس کے داڑھی مونچھ نکلنے کا زمانہ ختم ہو گیا ہے اور اب تک نہیں نکلی ایسے شخص کی امامت بلا کراہت درست ہے ۔در مختار کی کتاب الصلاۃ باب الامامۃ میں ہے : وکذا تکرہ خلف امرد ۔رد مختار میں ہے :الظاہر انھا تنزیھیۃ ایضا والظاہر ایضا کما قال الرحمتی ان المراد بہ صبیح الوجہ لانہ محل الفتنۃ۔اسی صفحہ میں ہے :سئل العلامۃ الشیخ عبد الرحمن بن عیسی المرشدی عن شخص بلغ من السن عشرین سنۃ وتجاوز حد الانبات ولم ینبت عذراہ فھل یخرج ذٰلک عن حد الامردیۃ وخصوصا قد نبت لہ شعرات فی ذقنہ تؤذن بانہ لیس من مستریدی اللحی فھل حکمہ فی الامامۃ کا لرجال الکاملین ام لا ؟اجاب سئل العلامۃ الشیخ احمد بن یونس المعروف بابن شبلی من متا خر علماء الحنیفۃ عن ھذا المسئلۃ فاجاب بالجواز من غیر کراھۃ ،وناھیک بہ قدوۃ ، وکذٰلک سئل عنھا المفتی محمد تاج الدین القلعجی فاجاب کذٰلکج ۔واللہ اعلم بالصواب۔

حرام اشیاء کی خرید و فروخت
سوال : کیا حرام اشیاء کی بیع مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے اس کی وضاحت مطلوب ہے ، تمباکو خریدا و بیچا جاسکتا ہے۔
نام …
جواب : جس چیز کا استعمال شرعا حرام ہے اس کی بیع و شراء یعنی تجارت مسلمانوں کے لئے چاہے وہ کافر کے ساتھ ملکر ہی کیوں نہ ہو شرعا ناجائز ہے در مختار مطبوعہ بر حاشیہ رد المختار مصری جلد ۴ صفحہ ۱۰۸ کتاب البیوع باب بیع الفاسد میں ہے :وبطل بیع مال غیر المتقوم ای غیر مباح الانتفاع بہ ابن کمال فلیحفظ کخمر وخنزیر والمیتۃ ۔کذا فی التہذیب ۔ پس صورت مسؤلہ میں خمر خوک افیون بھنگ سیندھی تاڑی کوکین وغیرہ جنکا استعمال ناجائز ہے ان کا بیوپار بھی شربیعت میں ناجائز ہے ۔
حریر یا طلاء کا پہننا مسلمان مردوں کے لئے اگر چہ حرام ہے مگر عورتوں کے لئے ان کا استعمال جائز ہے ،اس لئے ان کی بیع و شراء درست ہے گُلِ مہوا اگر خالی کھانے سے نشہ پیدا کرتا ہے تو اس کا بیوپار بھی ناجائز ہے اور اگر نشہ نہیں پیدا کرتا تو درست ہے کیونکہ جن اشیاء سے شراب بنائی جاتی ہے اور فی نفسہ وہ نشہ آورنہیں ہے شراب نکالنے والوں کے ہاتھ ان اشیاء کا بیچنا جائز ہے عالمگیریہ کے اسی صفحہ میں ہے :ولا باس بیع العصیر ممن یتخذھا خمرا ولا بیع الارض ممن یتخذھا کنیسۃ کذا فی التاتا رخانیہ ۔تمباکو کے مباح و مکروہ ہونے میں چونکہ اختلاف ہے اس لئے اس کا بیوپار ناجائز نہیں ٹہرایا جا سکتا ۔

حرام چیزوں کا بطور دواء استعمال کرنا
سوال : کیا حرام چیزوں کا بطور دواء استعمال کرنا شرعا جائز ہے یا نہیں ؟
محمد فردوس ، مقطعہ مدار
جواب: حرام چیزوں سے علاج کرنا اس وقت جائز ہے جبکہ مریض کو یا تو بطور خود اس بات کا یقین ہو کہ اس کے استعمال سے شفاء ہو گی یا کوئی مسلمان طبیب اس کو یہ بات کہے اور حرام شیٔ کے سوا اس بیماری کے لئے کوئی جائز دوا بھی نہ ہو ،اگر کوئی حلال علاج یا دواء ہو تو حرام اشیاء سے علاج کرنا ناجائز ہے فتاویٰ رد المختار جلد ۴ صفحہ ۲۲۴ میں ہے :صاحب الخانیۃ والنھایۃ اختارا جوازہ ان علم ان فیہ شفاء ولم یجد دواء غیرہ قال فی النھایۃ وفی التھذیب یجوز للعیل شرب البول والدم والمیتۃ للتداوی اذا اخبرہ طبیب مسلم ان فیہ شفاء ہ ولم یجد من المباح ما یقوم مقامہ ۔ اور اگر طبیب جائز چیز دواء ہو نے کے باوجود یہ کہے کہ اس حرام چیز سے جلد نفع ہو گا تو ایسی حالت میں بعضوں نے حرام چیز استعمال کرنے کو جایز کہا ہے اور بعضوں نے ناجائز رد المختار کے اسی صفحہ میں ہے وان قال الطبیب یتعجل شفائک بہ فیہ وجھان ۔ ایسا ہی اگر بیمار باوجود دوسری دوا ہو نے کے شراب کو بطور دواء کے استعمال کرے تو اس میں بھی علماء کے دو قول ہیں ،چنانچہ اسی جگہ ہے : وھل یجوز شرب العلیل من الخمر للتداوی فیہ وجھان کذا ذکرہ الامام التمر تاشی کذا فی الذخیرۃ ۔چونکہ خاص ان دونوں مسئلوں میں علماء کا اختلاف ہے اس لئے احتاط بیمار کا جلد صحت کے لئے حرام چیز کا استعمال کرنا اور علاج کرنا جبکہ دوسری دواء موجود ہو تو شراب کا بطور دواء استعمال کرنا نائز ہے ۔واللہ اعلم بالصواب۔
قرآن شریف کو دیکھ کر یا زبانی پڑھنا؟
سوال : قرآن شریف کو تلاوت کی غرض سے دیکھ کر پڑھنا افضل ہے یا زبانی ؟؟
نام …
جواب : قرآن شریف کو حفظ سے زبانی پڑھنے کی بنسبت دیکھ کر پڑھنا افضل ہے کیونکہ اس میں دو عبادتیں حاصل ہوتی ہیں ایک تو تلاوت دوسری اس کا دیکھنا ،قرآن شریف پر نظر کرنا بھی ایک مستقل عبادت ہے ،فتاوی قاضیخان مطبوعہ بر حاشیہ عالمگیریہ مصری جلد ۱ صفحہ ۱۶۲ میں ہے :وقرائۃ القرآن فی المصحف اولیٰ من القراء ۃ عن ظھر القلب لما روی عن عبادۃ ابن الصامت رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ انہ قال : افضل عبادتی امتی قراء ۃ القرآن نظراً‘‘ولان فیہ جمیعا بین العبادتین وھو النظر فی المصحف وقراء ۃ القرآن ۔کبیری شرح منیۃ المصلیّ مطبوعہ محمدی صفحہ ۴۶۳ میں ہے وقراء ۃ القرآن فی المصحف افضل لان جمیع بین العبادتی القراء ۃ و النظر ۔عالمگیریہ جلد ۱ صفحہ ۳۱۷ کتاب الکراھۃ باب رابع میں ہے : قراء ۃ القرآن فی المصحف اولی من القراء ۃ عن ظھر القلب ۔ واللہ اعلم بالصواب۔

اولیاء کرام کیلئے ’’ رحمتہ اللہ علیہ‘‘ کا استعمال
سوال : کیا فرماتے ہیں علماء دین متین اس مسئلہ میں کہ حضرت پیران پیر رحمتہ اللہ علیہ کے اسم مبارک کے ساتھ دعائیہ جملہ’’ رحمتہ اللہ علیہ‘‘ تحریر کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے ؟ اس سلسلہ میں شرعاً کوئی نکیر، امرِ مانع یا کوئی پہلو سوئے ادب کا ہو تو کاتب الحروف رجوع اور توبہ و استغفار کی طرف مبادرت کرے !
نام مخفی
جواب : فقہاء نے صحابہ کرام کے لئے ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ تابعین کیلئے ’’ رحمتہ اللہ تعالیٰ ‘‘ اور مابعد تابعین کیلئے ’’ غفراللہ لھم و تجاوز عنھم ‘‘ کے دعائیہ کلمات کو اولیٰ قرار دیا۔ عالمگیری جلد 6 ص : 446 میں ہے ۔ ثم الأولیٰ أن یدعوللصحابۃ بالرضا فیقول رضی اللہ عنطم و للتا بعین بالرحمۃ و یقول رحمہ اللہ ولمن بعد ھم بالمغفرۃ والتجاوز فیقول غفراللہ لھم وتجاوز عنھم۔
متاخرین علماء نے صحابہ تابعین اور دیگر علماء و صالحین کیلئے ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ اور رحمتہ اللہ ‘‘ کے کلمات کو مستحب قراردیا ہے ۔ نزھۃ الناظرین ص : 34 میں ہے : قال النووی رحمۃ اللہ یستحب الترضی والترحم علی الصحابۃ والتابعین و من بعد ھم من العلماء والعبادو سائرلاخیار۔
پس صورت مسئول عنہا میں اگر کوئی شخص حضرت غوث اعظم دستگیرؒ کے لئے ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ ’’ رحمۃ اللہ ‘‘ اور ’’ علیہ الرحمتہ ‘‘ سے کونسی بھی دعائیہ کلمہ استعمال کرے تو شرعاً محمود و پسندیدہ ہے۔

اذان ، وظائف سے قبل تعوذ اور درود پڑھنا
سوال : (1) حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہو یا نام نامی آئے تو ذکر کرنے والے اور سننے والے صرف درود پرھنا چاہئے یا اعوذ باللہ ، بسم اللہ پڑھ کر پھر درود پڑھنا چاہئے ؟ مسنون طریقہ کیا ہے ؟
(2) پنج وقتہ نمازوں میں اعوذ باللہ ، بسم اللہ پڑھ کر پھر درود و سلام پڑھ کر اذان و اقامت کہنا سنت ہے کیا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح اذان دینے کی تعلیم فرمائے ہیں کیا ؟ خلفائے راشدین ، صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین ، ہمارے امام ، امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ و حضرت بلال رضی اللہ عنہ پنج وقتہ نمازوں میں اذا ن و اقامت سے پہلے اعوذ باللہ ، بسم اللہ اور درود و سلام پڑھتے تھے یا نہیں ؟
حافظ جمیل الرحمن، کنگ کوٹھی
جواب : بفحوائے آیت قرآنی فاذا قرأت القرآن فاستعذ باللہ من الشیطان الرحیم (جب تم قرآن کی تلاوت کرو تو تم شیطان سے بچنے کیلئے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجاؤ ) تلاوت قرآن کے آغاز سے قبل تعوذ پڑھنے کا حکم ہے ۔
قرآن مجید کے علاوہ دیگر اذکار و اوراد کے لئے تعوذ (اعوذ باللہ من الشیطان الرحیم) ، پڑھنے کا حکم نہیں۔ نیز ہر کام اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک سے کرنا چاہئے ۔ حدیث شریف میں ہے جو بھی کام بغیر بسم اللہ کے شروع کیا جائے تو وہ نامکمل ہے۔ اس لئے ہر کارخیر و مباح کام سے قبل بسم اللہ پڑھنا چاہئے ۔
یایھاالذین آمنو صلو علیہ وسلموا تسلیما ( اے ایمان والو ! تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھو اور خوب سلام پڑھو ۔ اس آیت میں درود و سلام پڑھنے کا حکم مطلق اور عام ہے ۔ انفرادی طور پر اجتماعی طور پر بیٹھ کر حالت قیام میں پڑھ سکتے ہیں لیکن عہد رسالت و قرونِ اولیٰ میں اذان سے قبل تعوذ و تسمیہ اور درود و سلام جھراً پڑھنا ثابت نہیں۔ اس لئے اذان سے قبل بسم اللہ اور درود پڑھیں تو آہستہ پڑھیں ۔ جہر سے سنانے کا ثبوت نہیں۔
سکرات میں تلقین
سوال : جو لوگ سکرات میں ہوتے ہیں‘ ان کو کلمہ کی تلقین کی جاتی ہے ۔ شریعت میں تلقین کا کیا حکم ہے اور اس کا فائدہ کیا ہے ؟ اگر شریعت میں اس کی کوئی فضیلت آئی ہے تو بیان کریں؟
حافظ یسین شریف، فلک نما
جواب : آخرت میں کامیابی و سعادتمندی کا دارومدار صرف اور صرف خاتمہ بالخیر پر ہے ۔ جن کا خاتمہ ایمان پر ہو وہی شحص کا میاب و کامران ہے ۔ اس لئے شریعت مطھرہ میں جو شخص قریب الموت ہو اس کو ’’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کی تلقین کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ حکم مستحب ہے ۔ ردالمحتار ج : 2 ص : 78 میں ہے : لکنہ تجوز لما فی الدرایۃ من أنہ مستحب بالا جماع۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لقنوا موتاکم لا الہ الا اللہ فانہ لیس مسلم یقولھا عندالموت الا انجتہ من النار‘‘ یعنی تم قریب الموت افراد کو ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کی تلقین کرو کیونکہ جو کوئی مومن موت کے وقت یہ کلمہ پڑھتا ہے۔ وہ دوزخ سے نجات پاجاتا ہے ۔ نیز آپ کا ارشاد گرامی ہے : من کان آخر کلامہ لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ ‘ ‘ یعنی جس کا آخری کلام ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ (کوئی معبود نہیں ہے سوائے اللہ کے) وہ جنت میں داخل ہوگا (ابو داؤد) اس لئے تلقین کرنا پسندیدہ ہے۔