باغیوں کی بڑھتی طاقت

کرنا ہو فرو گر تو سمجھ لیجئے اسباب
طاقت سے جو کچلو تو بڑھے گی یہ بغاوت
باغیوں کی بڑھتی طاقت
یمن میں باغیوں کی بڑھتی طاقت اور ان کے استعمال کئے جانے والے اسلحہ کے بارے میں تشویش اور شبہات کا اظہار کرنے کے دوران اگر سعودی عربیہ کے مقدس شہر مکہ معظمہ کی جانب یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے میزائیل داغے جانے کی خبر بھی افسوسناک ہے۔ اس واقعہ کی اسلامی ممالک نے مذمت کی ہے۔ حکومت سعودی عرب نے اپنے ملک کی دفاعی طاقت اور صلاحیت میں اضافہ کرلیا ہے اور اس کا دعویٰ ہیکہ وہ اس خطے کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن جس میزائیل کے مار گرائے جانے کا سعودی  حکام نے دعویٰ کیا ہے یہ میزائیل سب سے زیادہ دوری پر نشانہ لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حوثی باغیوں کی جنگی صلاحیتیں اور فوجی تیاریوں کو دیکھ کر یہ اندازہ کرلینے میں تاخیر نہیں ہوگی کہ اس گروپ کو دوسری درپردہ بڑی طاقت کی  امداد حاصل ہے۔ حوثی  باغیوں کو ملنے والے اسلحہ و سازوسامان اس خطہ کی سلامتی کیلئے خطرہ بن رہے ہیں۔ مکہ معظمہ کی جانب میزائیل داغے جانے کی خبر کی تردید کرتے ہوئے گروپ کی حمایت کرنے والوں نے سعودی حکومت کے دعویٰ کو مسترد کردیا۔ سعودی حکومت کا مسئلہ 650 کیلو میٹر کے فاصلہ پر میزائیل کو ناکام بنانے کا دعویٰ غلط ہے۔ مکہ معظمہ تمام عالم اسلام کے عوام کیلئے مقدس اور قیمتی ہے۔ یمن کے عوام بھی اس مقدس شہر کا احترام کرتے ہیں لیکن اس حقیقت کے باوجود کہ میزائیل داغا گیا ہے حوثی باغیوں کے خلاف فوری کارروائی نہیں کی گئی۔ عالمی سطح پر اس واقعہ کو مؤثر طور پر نمایاں کرنے میں سعودی حکام ناکام رہے ہیں۔ کوئی بھی گروپ مکہ و مدینہ کو نشانہ بنانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ سعودی عرب نے اس وقت یمن میں اپنے فوجی مورچہ اور اتحادی فوج کو مضبوط بنالیا ہے تو پھر حوثی باغیوں کی جانب سے میزائیل داغے جانے کا واقعہ غور طلب ہے۔ یمن میں قیام امن کیلئے اب تک جتنی بھی کوشش کی گئی ہے یہ ناکام رہی ہے۔ سعودی عرب کے اس الزام کی جانب بھی عالمی اداروں کو توجہ دینے کی ضرورت ہیکہ یمن میں حوثی باغیوں کو باقاعدہ فوجی مدد مل رہی ہے۔ اقوام متحدہ اور امریکہ کے وائیٹ ہاؤز میں اس مسئلہ کو زیرغور لائے جانے کے باوجود یمن کو امن سے ہمکنار کرنے میں کوئی نتیجہ خیز کوشش نہیں کی گئی۔ یمن میں باغیوں کی بڑھتی طاقت ہی اصل تشویش کا باعث ہے۔ سعودی اتحادی فوج حوثی باغیوں کی پیشقدمیوں کو روکنے اور انہیں ناکام بنانے تعاقب کررہی ہے۔ اس کے باوجود خطہ میں جنگ کے ماحول کو ختم کرنے کی کوشش کو کامیاب بنانے کی فکر نہیںکی جارہی ہے۔ حوثی باغیوں پر پابندیاں عائد کرنے کیلئے اقوام متحدہ کئی اجلاس بھی منعقد کرچکا ہے۔ اقوام متحدہ نے یمن کے حوثی باغیوں کو جدید اور خطرناک اسلحہ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کو ناکام بنانے کی بھی بات کہی تھی۔ یمن کی جنگ نے اب تک سینکڑوں افراد کو موت کی نیند سلا دیا ہے۔ یمن کے باغیوں اور حکومت کے حامیوں کے درمیان بھی مختلف علاقوں میں دست بدست لڑائی کے جاری رہنے سے انسانی بحران کا مسئلہ پیدا کردے گا۔ یمن میں لڑائی اس سارے خطہ کیلئے تشویشناک اثرات پیدا کرسکتی ہے۔ یمن کی صورتحال اور یہاں کے مسائل پر سنجیدگی سے بات چیت ہونی چاہئے۔ یمن کو موجودہ بحران سے دوچار کرنے سے زیادہ قابل قبول حل نکالنے کی جانب پیشرفت ہونی چاہئے۔ صدر یمن علی عبداللہ صالح کے 2012ء میں صدارت چھوڑنے کے بعد سے حالات کو دن بہ دن ہوا دیکر نازک بنادیا گیا ہے۔ یمن کا بحران درست سمت میں مضبوط مذاکرات کا متقاضی ہے۔ غذائی بحران بھی ایک تشویشناک بات ہے۔ اس سے یمن کے بچوں کو تغذیہ بخش غذا نہ ملنے سے کئی دیگر امراض کے بڑھنے کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے۔ یمن کو دو طاقتوں کے درمیان خفیہ جنگ کا میدان بنانے سے روکنے کیلئے عرب ممالک کو فوری اقدامات کرنے چاہئے۔ اقوام متحدہ اور امریکہ کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔