میرا کالم سید امتیازالدین
آپ ہم سے متفق ہوں یا نہ ہوں لیکن ہمارا خیال ہے کہ غریبی اور پسماندگی کے نقصانات تو ہیں ہی لیکن خوش حالی اور ترقی کے نقصانات بھی ہیں۔ اگرچہ کہ آج بھی ہمارے ملک کا شمار امیر ممالک میں نہیںہے لیکن پھر بھی حالات پہلے جیسے نہیں ہیں۔ آج کل متوسط گھرانوں کے بچے بھی آٹو رکشا کے ذریعہ اسکول آتے جاتے ہیں۔ سرکاری مدارس سے زیادہ پرائیوٹ اسکولس کی مانگ ہے اور ماں باپ کسی نہ کسی طرح پرائیوٹ اسکولس میںاپنے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرتے ہیں۔ ہم اپنے بچپن میں بھٹا ، گنا ، ہری بوٹ (ہرا چنا) ، گاجر، گینگل وغیرہ کھاتے تھے ۔ اب بچوں کو ان چیزوں کے کوئی دلچسپی نہیںہے۔ آج کل بازار میں نوڈلس، چپس، سرپرائیز بال اور کنڈرجائے، کرکرے کا چلن ہے۔ پہلے ایک آنے یا دو آنے میں بچوں کی تشفی کا سامان ہوجاتا تھا۔ آج بازار کے ایک ہی پھیرے میں چالیس پچاس روپئے یوں نکل جاتے ہیں۔ آج سے چار پانچ سال پہلے جب ہم اپنے پوتے کو اسکول میںداخلہ دلانے کیلئے لے گئے تو پہلے دن ایک خصوصی سیشن سرپرستوں کیلئے رکھا گیا جس میں تمام والدین کو ہدایت دی گئی کہ بچوں کو توشے میں صرف گھر کی بنی ہوئی چیزیں دی جائیں اور جنک فوڈ جیسے نوڈلس ، چپس وغیرہ نہ دی جائیں۔ اتفاق کی باتا ہے کہ چند دنوں بعد گھر میں کچھ دشواری تھی تو ٹفن میں بچے کو ایسی ہی کوئی بازاری چیز دے دی گئی۔ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ کلاس ٹیچر ہر بچے کا ٹفن دیکھتی ہے۔ اس نے ہمارے پوتے کی ڈائری میں لکھ دیا کہ اگر آئندہ ایسی بازاری چیز توشے میں پائی گئی تو اسے پھینک دیا جائے گا اور آپ کے بچے کو بھوکا رہنا پڑے گا۔ اس کے بعد ہم اسکول کی حد تک تو محتاط ہوگئے لیکن گھر کی حد تک ہمارے بچے ایسی ویسی چیزیں کھانے سے باز نہیں آئے۔
پچھلے پندرہ دنوں سے سارے ملک میں میگی، نوڈلس کا جس قدر چرچہ ہورہا ہے ، اتنا تو آج تک کسی سیاسی لیڈر یا بدنام زمانہ ڈاکوکا بھی نہیں ہوا تھا۔ سنا ہے کہ میگی نوڈلس میں سیسہ اور مونو سوڈیم گلوٹامیٹ (MSG) کی مقدار خطرناک حد تک ملی ہوئی ہے۔ ویسے تو ہم نے سائنس پڑھی ہے لیکن ایم ایس جی کیا ہوتا ہے، ہم مطلق نہیں جانتے۔ کوئی ہم سے کہتا ایم ایس جی صحت کیلئے مفید ہے۔ تب بھی ہم یقین کرلیتے۔ اسی طرح ہم سنتے تھے کہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہایت مضبوط ہوتی ہے۔ اب معلوم ہوا کہ یہ دونوں چیزیں نہایت مضر ہیں تو ہمارے ہوش اڑگئے۔ ہم نے توبہ کی اور کان پکڑے (اپنے) ۔ تقریباً تمام ریاستوں نے میگی نوڈلس پر پابندی لگادی ہے اور تو اور نیپال میں بھی میگی دکانوںسے اٹھالی گئی ہے۔ ہمارے ایک دوست جو دور کی کوڑی لانے میںاپناجواب نہیں رکھتے ہم سے پوچھ رہے تھے کہ کہیں نیپال کا زلزلہ میگی نوڈلس کی وجہ سے تو نہیں آیا۔ میگی نوڈلس کے نمونے لیباریٹریز میں بھیج دیئے گئے ہیں۔ کمپنی کے چیف اگزیکیٹیو ہندوستان آگئے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش میں ہیں کہ میگی بے ضرر ہے۔ ایک میگی نوڈلس پر کیا منحصر ہے۔ ابھی لوگوںکی نظر کول ڈرنکس ، طاقت کی دواؤں ، ہمہ قسم کے چاکلیٹ ، زردوں ، پان مسالہ ، مالش کے تیلوں ، طرح طرح کے بسکٹوں ، مکھن اور پنیر کے پیکٹوں ، فٹ پاتھ پر بکنے والی کھانے کی چیزوں پر نہیں پڑی ہے۔ پہلے ادرک ، لہسن ، مرچ کی بکتی گھر میں پیسی جاتی تھی۔ آج کل کی مصروف دنیا میںکسے فرصت ہے کہ ان بکھیڑوں میں پڑے ۔ ہر چیز پسی پسائی پیکٹوں میں دستیاب ہے ۔ گیہوں کا آٹا گیہوں سے زیادہ سستے داموں تھیلوں میں بکتا ہے ۔ بدگمانی اچھی چیز نہیں لیکن پتہ نہیں کس چیز میں کس چیز کی ملاوٹ ہے۔ سگریٹ کی ڈبیوں پر قانونی انتباہ یا وارننگ تو ہوتی ہے لیکن اسے پڑھتا کون ہے ۔ پڑھتا بھی ہے تو سگریٹ کا دھواں ڈبیا پر لکھی ہوئی تحریر کو دھندلا کردیتا ہے۔ ابھی میگی نوڈلس کا قصہ زیر بحث ہے کہ اخبار میں ہم نے پڑھا کہ سبزی ترکاری کا استعمال بھی خطرے سے خالی نہیں۔ بازار میں سبزی لاکر صرف دھونے سے کام نہیں چلے گا۔ سبزی کو دو فیصد نمک ملے ہوئے پانی میں دیر تک ڈبوے رکھئے تاکہ اس پر چھڑکی ہوئی ادویات کا اثر زائل ہوجائے۔ سوال یہ ہے کہ دو فیصد نمک ملے ہوئے پانی کا کیا بھروسہ ہے۔ پتہ نہیں نمک میں کیا ملا ہوا ہے اور پانی کس قدر صاف ہے۔
غرض اس ملاوٹ بھری دنیا میں اگر ہم زندہ ہیں تو یہ بجائے خود ایک معجزہ ہے ۔ ان بازاری چیزوںکے کھانے والے تو خیر خطرات میں گھرے ہوئے ہیں ہی لیکن فی الحال عارضی طور پر ہی سہی ان خطرات کا سامنا ان لوگوں کو بھی ہے جو ایسی کمپنیوں کے اشتہارات میں نظر آتے ہیں اور برانڈ ایمبسیڈر کہلاتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں کماتے ہیں۔ امیتابھ بچن ہمارے عہد کے نہایت اہم اداکار ہیں۔ ان کی بڑی اچھی شبیہ بھی ہے ۔ وہ پولیو ڈراپس کی تشہیر بھی کرتے ہیں جو ایک سماجی فریضہ ہے ۔ جب میگی نوڈلس کا تنازعہ اٹھا تو انہوں نے کہا کہ دو سال ہوئے، انہوں نے یہ اشتہار چھوڑدیا ہے ۔ پھر بھی اگر کوئی قانونی نوٹس آتی ہے تو وہ اپنے وکیل سے مشورہ کریں گے۔ اگر دو سال پہلے انہوں نے یہ اشتہار چھوڑ دیا تھا تو انہیں دو سال قبل ہی اپنے بے شمار مداحوں کو مطلع کردینا چاہئے تھا کہ وہ نوڈلس کھانا بند کرچکے ہیں۔ اسی طرح ماضی قریب کی مشہور اداکارہ جوہی چاولہ کرکرے کا اشتہار کیا کرتی ہیں۔ ایک بار ٹی وی پر ان کی کوئی پرانی فلم لگی تو ایک معصوم بچی نے کہا ’ارے یہ لڑکی تو کرکرے بیچتی ہے اب فلموں میں کام بھی کرنے لگی‘۔ جب سے میگی نوڈلس کی بات سامنے آئی ہے، فلمی ستارے بھی محتاط ہوگئے ہیں۔ امیتابھ بچن آج کل اٹل پنشن یوجنا جیسے اشتہارات میں آنے لگے ہیں جو ایک محفوظ اسکیم ہے ۔ پھر بھی وہ آخر میں کہتے ہیںکہ اس پنشن کے بارے میں مزید معلومات بینک کے مینجر سے حاصل کیجئے میں چلتا ہوں۔ آپ نے شیر مارکٹ کے اشتہارات میں دیکھا ہوگا کہ اشتہار کے آخر میں ایک جملہ نہایت تیزی سے ادا کیا جاتا ہے کہ کمپنیوں کے حصص کی قیمتیں مارکٹ کے اتار چڑھاؤ کے تابع ہوتی ہیں۔ کیا پتہ آئندہ ہمارے برانڈ ایمبسیڈر اس قسم کے اشتہارات دینے لگیں جیسے ’’فلاں بسکٹ کھایئے جو نہایت لذیذ اور وٹامن سے بھرپور ہے ۔ یہ آپ کی اور آپ کے بچوں کیلئے طاقت کا خزانہ ثابت ہوں گے‘‘۔ اس کے بعد برانڈ ایمبسیڈر یہ جملہ نہایت تیزی سے ادا کرے گا جو کسی کی سمجھ میں نہیں آئے گا۔ ’’یہ اشتہاری معلومات بسکٹ بنانے والی کمپنی کی ہیں۔ میرا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ خدا حافظ۔
بہرحال ہمارا خیال ہے کہ برانڈ ایمبسیڈرس کو گرفت میں لینا بالکلیہ درست بھی نہیں کیونکہ اشتہار بازی کا یہ سلسلہ آج سے یا کل سے نہیں برسوں سے چل رہا ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب لکس اور رکسونا صابنوں کے اشتہارات آتے تھے جن میں اس وقت کی مشہور اداکاراؤں کی مسکراتی ہوئی تصویر ہوا کرتی تھی۔ فلمی ستاروں کا حسن بخش صابن ، ثریا ، نرگس اور کامنی کوشل کی تصاویر ہوتی تھیں، جن کے نیچے لکھا ہوتا تھا ’میں اپنی جلد کی حفاظت اور ہمیشہ تر و تازہ دکھائی دینے کیلئے فلاں صابن استعمال کرتی ہوں‘۔ خدا معلوم یہ اداکارائیں کونسا غازہ استعمال کرتی تھیں لیکن سادہ لوح خواتین اشتہار کی بات کو سچ جان کر اسی صابن کا استعمال شروع کردیتی تھیں۔ بناکا ٹوتھ پیسٹ والے ریڈیو سیلون پر ایک نہایت دلچسپ پروگرام پیش کرتے تھے جس کا نام تھا بناکا گیت مالا۔ اس کے اینکر تھے امین سایانی ، مقبولیت اور فروخت کے اعتبار سے شاید 16 گیت بجائے جاتے تھے۔ اس پروگرام کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ سارا گھر ریڈیو کے اطراف جمع ہوجاتا تھا ۔ اس پروگرام سے نہ صرف بناکا ٹوتھ پیسٹ کی تشہیر ہوتی تھی بلکہ فلموں اور میوزک کی مقبولیت بھی بڑھتی تھی۔ سر کے درد کی ایک گولی ہوتی تھی ’ سیریڈون‘۔ یہ کمپنی ایک پروگرام پیش کرتی تھی جس کا نام تھا سیریڈون ریڈیو ترنگ۔ اشوک کمار کا ہیر اسٹائل بہت اچھا تھا ۔ اسی طرح ایک کرکٹ کھلاڑی تھے جی ایس رام چند جن کے بال بہت گھنے تھے۔ بریل کریم کمپنی ان دونوں کو برانڈ ایمبسڈر کے طور پر اپنے اخباری اشتہارات میںپیش کرتی تھی۔ ایک مرتبہ ہم بازار سے گزر رہے تھے ہم نے ایک جراح کی ملگی دیکھی جس کے دونوں پٹ کھلے ہوئے تھے ۔ ملگی کے ایک پٹ پر دلیپ کمار کی پینٹنگ تھی اور دوسرے پٹ پر راج کپور کی ۔ دونوں اداکاروں کو سیدھے ہاتھ پر پٹی باندھا ہوا دکھایا گیا تھا ۔ اگرچہ کہ ان دونوں اداکاروں کے ہاتھ کبھی نہیں ٹوٹے لیکن شاید جراح موصوف کا خیال تھا کہ اگر کبھی ان مشہور فلمی ہستیوں کا ہاتھ ٹوٹا تو وہ سیدھے اسی کے بون سٹنگ سنٹرکا رخ کریں گے۔
اشتہار بازی کی ایک قسم اور بھی ہے ۔ منفی انداز میں مثبت پیام پہنچانا۔ ہم سگریٹ کبھی نہیں پیتے لیکن سناہے کہ امریکہ میں ایک مشہور سگریٹ ہوا کرتا تھا جس کا نام تھا عبداللہ ۔ جب سگریٹ نوشی کے خلاف مہم کا آغاز ہوا تو اس نے اشتہار دیا "Dont Smoke! Not even Abdullah” ’’سگریٹ مت پیجئے ۔ عبداللہ بھی نہیں‘‘ اسی طرح ایک کمپنی مالی پریشانیوں میں گھر گئی تھی اور اسے چھ مہینوں کیلئے بند کرنا پڑ رہا تھا ۔ اس کمپنی نے اشتہار دیا’’چھ مہینوں کیلئے ہمارا پراڈکٹ بازار میں نہیں رہے گا۔ اس عرصہ میں ہم اپنے سرپرستوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ فلاں فلاں کمپنیوں کا سامان خریدلیں‘‘۔ اس اشتہار پر مذکورہ کمپنیوں نے احتجاج کیا کہ بند ہونے والی کمپنی نے سفارش کے پردے میں اپنی فوقیت برقرار رکھی ہے ۔ اس پر کمپنی کو اشتہار واپس لینا پڑا۔
اگر دیکھا جائے تو الیکشن میں بھی مبالغہ آمیز اشتہار بازی ہوتی ہے۔ غلط سلط وعدے کئے جاتے ہیں۔ حکومت بن جاتی ہے لیکن وعدے پورے نہیں ہوتے۔ غذائی اشیاء کے پیکٹ بازار سے ہٹائے جاسکتے ہیں لیکن حکومت کوہٹانے کیلئے عوام کو پانچ سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔
قصہ مختصر میگی نوڈلس کا منظر عام پر آنا محض آغاز ہے ۔ دیکھتے جائیے اور کتنی چیزیں بے نقاب ہوتی ہیں۔ ایک سیدھا سادا اصول یہ ہے کہ گھر کی بنی ہوئی چیزیں کھائیے۔ بچے ضد کریں تو انہیں موسمی میوے کھلایئے کیونکہ انسان ملاوٹ کرسکتا ہے ، قدرت ملاوٹ نہیں کرتی۔