حافظ احسن بن محمد الحمومی
حضرت شیخ الاسلام کی مبارک اور سادہ زندگی کا آنکھوں دیکھا حال دو بزرگوں کے زبانی یہاں ذکر کیاجاتاہے۔ جس میں(۱) ایک توحضرت قبلہ کے شاگردو مرید خاص حضرت مولانا مفتی سیدمحمود کان اللہ لہ، سابق خطیب مکہ مسجد (۲) دوسرے حضرت کے مرید خاص و رفیق حج حضرت مظفرالدین معلی کے نواسے قاضی بر ہان الدین احمد صدیقی علی گڑھ اپنے نانا جان و دیگر بزرگوں کے واقعا ت کو بیان فر ماتے ہے جو یہاں اہل بصیرت کیلئے پیش کئے جارہے ہیں۔ تلمیذ شیخ الاسلام حضرت الحاج مولانا مفتی سید محمود صاحبؒ سابق خطیب مکہ مسجد :
حضرت مفتی صاحب ؒ مولانا فضیلت جنگ کے مرید اور شاگرد خاص تھے ۔ با وجود علالت کے لیٹے لیٹے آپ نے حسب ذیل تقریر کی جسے مدیر مجلہ’’ارشاد ‘‘ نے نوٹ کر لیا تھا۔وفورمحبت سے مفتی صاحب اپنے پیر کو یاد کر کے اور آہیںبھر تے جاتے تھے ۔ بار بار آنسو آنکھوں سے ڈھلکتے جاتے تھے ۔ عجیب رقت انگیز منظر تھا۔ سعادت مند شاگردوں کی ایسی نشانیاں اب آیندہ کہاں دیکھنے میں آئیں گی ۔ میرے پیر الحاج مولانا انوار اللہ خاں نواب فضیلت جنگ بہادرؒ پایے کے زاہد ‘ متقی ‘ شب بیدار اور صائم الدہر تھے ۔ اپنے والد محترم حافظ شجاع الدین ؒ سے ارادت تھی۔ (جو) حضرت شاہ رفیع الدین قندھاریؒ کے خلفاء میں سے تھے ۔ علو م ظاہری کی تکمیل نہایت ہی مستند علماء مثلاً مولوی عبدالحلیم لکھنوی وغیرہ سے کی۔ محکمہ ء مالگزاری میں ملازم ہوئے۔ ڈنلپ نامی کوئی انگریز آپ کے عہدہ دار تھے۔ واکر صاحب معین المہام تھے۔ اس زمانے میں مولانا ظہر کی نمازاس مسجد میں ادا فر ما تے تھے جو اب حضرت عبداللہ شاہ صاحبؒ کی مسجد کے نام سے موسوم ہے۔ ( قریب حسینی علم) ۔ بوجہ خشوع و خضوع نماز طویل ہو جاتی تھی ۔ ایک دن دوپہر میں ڈنلپ نے آپ کو طلب کیا ۔ معلوم ہوا نماز سے واپس نہیں ہوئے۔ اس نے حیرت سے کہا: نوکری اور نماز ۔ کیا تعلق؟
جمعدار پیشی نے جو حضرت کا معتقد تھا آپ کے آنے کے بعد عرض حال کیا۔ آ پ نے اسی وقت ملازمت سے استعفیٰ لکھ دیا ۔ قندھار کی قضائت بھا ئی کے نام کر دی اور ہجرت کر کے مدینہ منورہ چلے گئے ۔ حاجی امداداللہ ؒ سے یہیں سلسلہ ء چشتیہ میں بیعت فر ما ئی ۔ اسی قیام میں ایک مسدس لکھا اوراس کی شرح ’’انوار احمدی ‘‘لکھنا شروع کی ۔ اس پر حاجی صاحب کی تقریظ موجود ہے۔ جس میں لکھا ہے ’’عقائد اہل سنت کے مطابق اور مستند کتاب ہے‘‘۔
مدینہ میں اوقات اشغال واعمال میں صرف ہو تے تھے ۔ باب جبرئیل کے پاس جو کتب خانہ تھا وہاں ذوق مطالعہ کی تکمیل فر ما تے ۔ وہیں سے کئی غیر مطبوعہ قلمی نسخے لیکر نقلیں کیں ۔رمضان گزار کر مکہ آئے تھے ۔ جب مکہ پہونچے حاجی صاحبؒ نے پو چھا: ’’ رات کو بشاریٰ ہوا؟‘‘ جواب دیا: ’’ سر کار ﷺنے دکن جانے کا حکم دیا ہے‘‘۔ حاجی صاحب ؒ نے بھی اجازت دی ، مگر دیار حبیب ﷺ چھوڑ کر جانا بڑا شا ق گزر رہا تھا حج سے واپس آنے پر بیوی بیمار ہو کر انتقال کرگئیں ۔ حاجی صاحبؒ نے کہا: احکام رسول ﷺ کی نافر مانی میں دنیا و عقبیٰ کی خرابی ہے۔ عرض کیا : ’’ ہجرت کی نیت کس دل سے توڑوں ‘‘۔ اسی دوران اٹھارہ سالہ صاجزادے نے انتقال کیا ۔ مو لانا فر مایا کر تے تھے : ’’محمود ! تجھ جیسا ہی تھا میرا بیٹا!‘‘۔
حاجی صاحب نے مکہ بلوا کر دکن جانے کیلئے سختی کی ۔ جدّہ آکر ذریعہ جہاز ہند پہونچے۔ دکن جاکر ایک مدرسہ دینی قائم کر نے کا بارگاہ رسالت سے حکم ہو چکا تھا۔ قیام مدرسہ کے لئے مسجد افضل گنج میں اترے۔ طلباء کو جمع کر کے تعلیم دینا شروع کر دی ۔ تفسیر ، فقہ ، حدیث وغیرہ کی باقاعدہ تعلیم ہو تی ۔ ابتدائی شاگردوں میں مظفرالدین معلی وغیرہ شامل تھے ۔ سال بھر تک اس درس کا سلسلہ جاری رہا۔ اسی سال زماں خاں شہید ؒ کی شہادت واقع ہو ئی تھی ۔ مسیح الزماں استاد شاہ مقرر ہوئے ۔اس کے ساتھ ساتھ توشہ خانہ ، میز خانہ اور جواہر خانہ بھی انہی سے متعلق تھے۔ کثرت کا ر کی وجہ سے پریشان تھے ۔ نواب سالار جنگ سے ذکر کیا ۔ استا دی کے کام کو علٰحدہ کر دیا گیا اور مو لانا انواراللہ خاں ؒ سے خواہش کی گئی کہ استاد شاہ کے فر ائض انجام دیں۔ (۳۰۰) روپے ما ہانہ مشاہر ہ مقرر ہوا ۔ ظہر کی نماز کے بعد سے چار بجے تک مو لانا یہ خدمت انجام دیتے تھے ۔ حضرت مولانا کامعمول یہ تھا کہ شب بیدار رہتے اور اشراق کے بعد آرام فر ما تے ۔ ظہر کو بیدا ر ہو کر خاصہ تناول فر ما تے اور پڑھانے چلے جا تے اس زمانے میں مو لانا نے مدرسہ نظامیہ قائم فر ما یا ۔ پرانی حویلی میں پڑھا کر سید ھا مدرسہ آتے اور مغرب تک نگرانی فر ما تے ۔
گھر پر نصف شب تک خاص شاگردوں کو پڑھاتے پھر تین بجے شب تک تصنیف و تالیف میں مشغول رہتے ۔ پھر فجر تک تہجد میں مصروف رہتے ۔ تہجد کی بارہ رکعتوں میں قرآن شریف ختم فر ما تے ۔ وتر کے سا تھ اذاں ہو تی ۔ بعد نماز فجر تلاوت اور اوراد سے فارغ ہو کر مرا قبے میں بیٹھ جا تے ۔ روزہ نہ رہتے تو نا شتہ آتا ور نہ سحر کر کے تہجد پڑھتے ۔ تصوف کی مشہور کتاب ’’فتوحات مکیہ ‘‘کا درس خاص شاگردوں کو عشاء کے بعد دیتے ۔
میری عمر ۲۱ سال کی تھی ۔ میں نے بھی درس میں شامل ہو نے کی گذارش کی ۔ فر ما یا : تمہاری عمر ابھی اتنی نہیں کہ اس درس میں شامل کئے جا ؤ۔ میں نے ایک دو میری ہی عمر کے شاگردوں کا حوالہ دیا تو فر ما یا : وہ شادی شدہ ہیں ۔ تم بھی شادی کر لو تو تمہیں بھی شریک کر لوں ۔ میں نے عرض کیا: راضی ہو ں آپ ہی کسی سے شادی کرادیں ۔پھر میں نے عرض کیا : الماس حسین کی شادی کہاں ہو ئی ہے؟ انہیں آپ نے شریک فر ما یا ہے۔ مسکر ا کر فر ما یا: شادی سے مطلب غلامی میں راہ سلوک طے کر نا ہے۔ میں نے عرض کیا: آپ کی غلامی میں حاضر ہوں ۔ مجھے بھی مرید فر ما لیجئے ۔ فر ما یا: ۱۱؍ربیع الثانی کو طریقہء قادریہ میں مرید کر ونگا ۔ ( بعد میں مجھے سلسلہ چشتیہ میں بھی مرید فر ما یا) ۔ ایک سال بعد درس میں شریک کروںگا ۔ مگر چالیس دن تک کوئی شک دل میں آئے تو خاموش رہنا ۔ ایک سال بعد درس میں شریک ہو نے کی آرزو پوری ہوئی ۔ مولوی رکن الدین اور میں کتاب کی عبارت پڑھتے اور حضرت مولانا ؒ تفہیم فر ما تے جا تے ۔ پہلے ہی درس میں خیا ل گذرا کہ کتا ب کفریات سے مملو ہے۔ مگر ہر دوسرے روز پہلے روز کے شبہات دھلتے جا تے تھے ۔
چالیس دن کے بعد سبق سے پہلے ہی فر ما یا: محمود ! آج جو چاہے اعتراض کر و ۔ میں نے عرض کیا : آپ کے چالیں روزہ درس کے بعد اعتراض کی کیا گنجایش رہ سکتی ہے۔
کتاب’’فتوحات مکیہ ‘‘ کو مشہور مولف ’’ابن عربی ‘‘ نے کعبے کے سامنے بیٹھ کر لکھا تھا ۔کتا ب لکھ کر کعبے کی چھت پر ڈال دی ۔ سال بھر کے بعد بھی اس کا ایک حرف بھی مٹا نہیں ۔ اس کتاب سے استفادہ کے لئے شیخ پر اعتماد کر کے چالیس روزہ درس لینا پڑتا ہے۔ میرے پیر کے پاس روزانہ ڈھائی گھنٹے اس کا درس ہو تا تھا ۔ ایک دن عبدالقادر کتب فروش آیا ۔ میزان الصرف کی شرح پسند آئی ۔ اس نے قیمت دو روپے بتا ئی ۔ میں نے عرض کیا کتاب تو بارہ آنے میں ملتی ہے۔ مگر حضرتؒ نے مسکرا کر دوروپے ادا کر دئے ۔ اور فر ما یا : وہ ہمارے کام اور ذوق کی کتابیں چن چن کر لا تا ہے۔گھر بیٹھے ہماری خدمت کر تا ہے۔ اس کو قیمت اضافہ دینے میں کو ئی مضائقہ نہیں ۔ جو کتاب بھی لیتے آٹھ دس روز تک مسلسل زیر مطالعہ رکھتے ۔ میرے پیر کی ساری عمرخدمت علم اور خدمت خلق میں صرف ہوئی ۔ آخری عمر میں راج پھو ڑا ہوا ۔ ارسطویار جنگؒ علاج کے لئے مامور ہو ئے اور آپریشن کر نا تجویز کیا ۔ حضرت ؒ آپریشن کے مخالف تھے ۔ مگر حکم سر کار سے آپریشن کیا جانا طے ہوا۔ اس وقت میں میسر م کا مفتی تھا ۔ حضرتؒ مندوزئی کی دیوڑھی میں مقیم تھے ۔ میں بھاگا بھا گا آیا معلوم ہو ا ، آپریشن ہو رہا ہے۔آپریشن کے بعد جب کمرے میں لا ئے گئے تو بیہوشی طاری تھی ۔ دروازے پر حکیم محمود صمدانی متعین تھے ۔ وہ میرے طب کے استا تھے۔ انہوں نے مجھے اندر جانے سے روکا ۔ میں نے کہا: پیر کو دیکھوں گا ۔ بہت روکا مگر زور کر کے اندر گھس گیا ۔ اس وقت تک ہو ش آچکا تھا ۔ کرب و اضطراب بیحد تھا ۔ قبلہ رولیٹے تھے ۔ مجھے دیکھ کر فر ما یا : محمود ! مت رو ۔ اقرباء کا خیال تھا کہ خاندانی ہڑواڑمیں حافظ شجاع الدینؒ کی گنبد کے بازو رکھا جا ئے مگر مو لوی رکن الدین اور میں نے طے کیا کہ مدرسہ نظامیہ میں رکھنا زیادہ مناسب ہے۔ اس وقت اعلحضرت بمبئی میں تشریف فر ما تھے ۔ بمبئی کو تار کئے گئے۔ اور روضہ ء مبار ک آج تک مرجع خلائق خاص و عام ہے۔
میرا ایقان ہے کہ میرے پیر ہی آج تک وہاں سے مدرسہ کا انتظام چلارہے ہیں۔ چالیس سال غلامی میں گذارا ہوں ۔ ایک ایک دن کی تفصیل دماغ پر نقش ہے ۔ کیاکیا کہا جائے ۔ اب بھی انہی کے سر ہانے بیٹھا ہو ں ۔ رات دن انہی کا تصور ہے۔
(۲) حضرت قاضی بر ہان الدین احمد صدیقی بیان فر ما تے ہیں :
الھی آں کہ نامش رابنام خویش ضم کر دی
مراسویش نمودی رہ چھا بر من کر کر دی
(مولانا مرحوم )
مولا نا انوار اللہ خاں بہادر نواب فضیلت جنگ علیہ الرحمہ اہلِ برادر ی میں ’’مولوی صاحب حضرت ‘‘ سے مخاطب تھے ۔ ان کی برادری میں قندھار کے فاروقی ۔ احمد پور ۔ اودگیر اور بیٹر کے قاضی بھی داخل تھے ( اور ان میں اکثر حضرات فریدی تھے) ان میں خاص افراد اہل برادری تھے جو مولا نا کے علمی ۔ دینی مشاغل میں شریک ہو تے تھے ۔ شب کے دس بجے سے محفل جس کو سبق کہا جا تا تھا منعقد ہو تی ۔قابل الذکر حضرات میں راقم الحروف کے حقیقی نانا حضرت معلی ( مولانا مظفر الدین مددگارٹپہ ) قاضی شریف الدین صاحب ۔ مولانارکن الدین ، برہان اللہ حسینی ۔ حکیم محمود صمدانی ۔ عبد الرحیم حاضر باش رہتے تھے ۔ سبق شب کے دس بجے سے نماز ِ تہجدتک ہو تا تھا ۔ اس میں فتوحات مکیہ ۔ قدوری ۔ شرح جامی کا درس اور سلسلہ قادریہ کا ذکر ہو تا تھا ۔ نمازِ فجرادا فر ما کر مولاناآرام فر ما تے تھے ۔ لیکن تعجب ہے کہ روز و شب بیداری ، سر کاری فرائض ، معین المہام امور مذہبی ، صدر الصدور کے ادائی خدمات اور دیوڑھی اعلیٰ حضرت کی حاضر ی میں حائل نہیں ہو تی تھی ۔ مدرسہ نظامیہ کی نگرانی بھی فر ما تے تھے ۔
مجھے اپنے نانا حضرت معلی مرحوم کے ساتھ اکثر تقاریب سرکاری میں شر کت اور مولٰیناکے پاس حاضر ہو نے کا اتفاق ہو ا ہے ۔ چنانچہ میری تسمیہ خوانی مولوی صاحب حضرت کے ہاتھوں نواب فیروز یار جنگ کی دیوڑھی میں انجام پا ئی ۔ حضرت معلی کو مولوی صاحب حضرت سے بیعت حاصل تھی اور حضرت مرحوم ،مو لوی صاحب حضرت کے خاص مریدوں اور دوستوں میں تھے ۔ اسی لئے پورا رمضان حضرت معلی کا اپنے پیرو مر شد کے پاس مند زی کی دیوڑھی واقع شکر کو ٹھامیں گذرتا تھا ۔ مولوی صاحب حضرت اوپر کے حصہ میں رہتے تھے ۔ اور حضرت قبلہ نیچے کے حصہ میں مقیم رہتے تھے۔ رمضان میں خاص چہل پہل اور رونق رہتی تھی ۔ روزانہ پانچ چھ سوروزہ داروں کی ضیا فت کا انتظام ہو تا تھا ۔ دو بجے دن سے تندور سلگتا تھا اور نان کی روٹیا ں تیار کی جا تیں۔ روزانہ ہر روزہ دار کے لئے نان کی روٹی ۔ قورمہ اور کھیر کا انتظام کیا جا تا تھا ۔ داخلہ کے لئے ٹکٹ ( پاس ) دئیے جا تے تھے ۔ اور یہ پاس پورے رمضان کا ہو تا تھا ۔ ان دنوں بخارا کے غریب مسلمان ہزاروں کی تعداد میں ہندوستان ہجرت کر کے آئے ہو ئے تھے ۔ اور حیدر آباد میں بھی ان کی خاصی تعداددرآمد ہو ئی تھی ۔ ان کے لا نبے ۔ موٹے ۔ کثیف چوغہ ۔ سرخ سفید رنگ اور ان چوغوں میں سے میل کی کثیف بو کر اہیت پیدا کر تی تھی مگر مو لوی صاحب حضرت کے دستر خوان پر ان کی خاصی تعداد رہتی تھی ۔ اور مولاناان کے در میان بلاتکلف تشریف رکھتے تھے ۔ اور خاصہ تناول فر ما تے تھے ۔ حضور نظام کے استاد ، حکومت کے وزیر، مسلمانوں کے صدرالصدور اسی کثیف اور میلے ماحول میں بلا تکلف بیٹھ کر تناول وطعام فر ما یا کر تے تھے ۔ شاید ہی کو ئی ایسی مثال اس صدی میں پیش کی جا سکتی ہے۔ حضرت کی سالی صاحبہ جو زنانہ انتظام کی نگران کا ر تھیں آپ کے لئے کو ئی اچھی چیز تیا رکر کے روانہ کر تیں ۔ مگر مولانا اس کو بھی تقسیم فر ما دیتے ۔ مو لو ی عبدالرشید صاحب مرحوم ، مولاناکے خانگی حساب کے محاسب تھے ۔ وہ فر ما تے تھے کہ ماہ رمضان میں تقریبا چار ہزارخرچ ہو جا تے تھے ۔ جس کا تکمیلہ دوسرے شہور کے خرچ کو گھٹا کر کیا جا تا تھا۔ دسترخوان پر ایک ہی وضع کی رکابیاں ۔ کٹورے ہو تے تھے ۔ میں نے کئی ہزار انامل کی رکابیا ں دیکھی ہیں۔ برادری کے اکثر حضرت پورارمضان یہیں گذارتے اور مرید تو حاضر ہی رہتے تھے ۔ ان کے لئے افطار و سحر ہر دووقت کا انتظام ہو تا تھا ۔
میری دادی دولت بی صاحبہ حضرت کی مرید تھیں۔اکثر اپنے پیر و مر شد کے پاس رہتی تھیں چنانچہ وہ اپنے پو توں کے سامنے جب کبھی اپنے فر زندوں جن میں حکیم اسعدالدین صاحب سابق نا ظر الاطباء بھی داخل ہیں خفا ہو تے قدیم دکنی زبان میں یہ گیت گاتیں ۔ ’’ مر گئے انوار اللہ ۔ بجھ گیا میرا چولھا‘‘۔ ان کے بچے فورا ان کا حق ما دری گذار تے ۔
مولانا کے پاس نماز تراویح پابندی سے ہو تی ۔ اگر چہ مولانا خود حافظ قرآن تھے ۔ مگر تراویح میں مولٰینا کے اہل ِ برادری کے ایک بزرگ حافظ شاکر اللہ صاحب صدیقی عرف بغدادی صاحب قرآن مجید سنا تے۔ ۲۶کو ختم ہو تا اور اہل برادری عید کے اہتمام کیلئے اپنے اپنے گھر واپس ہو جا تے ۔ اسی ایک رمضان کا ذکر ہے۔ میر ی عمر نو یا دس سال کی ہو گی کہ فٹ بال میں میرے بائیں ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ۔ حضرت معلی کو معلوم ہوا ۔ انہوں نے مجھے اور میری والدہ کو مولوی صاحب حضرت کے پاس دیوڑھی مندوزی طلب فرمالیا ۔ مولانا مر حوم کے پاس حکیم محمد قاسم صاحب فر و کش تھے جن کا دعوی تھا کہ ہڈی بلا بیانڈیڈ کے جڑی بوٹی سے جڑجا تی ہے۔ مولانا مر حوم اس کا تذکرہ مدار المہام ( وزیر اعظم) وقت نواب سالار جنگ سوم ( نواب یوسف علی خاں) سے فر ما یا ۔ نواب مدارالمہام کو اس پر یقین نہیں آرہا تھا۔
اتفاق سے میرے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹی اور مولانا مر حوم حکیم سے میراعلاج شروع ہوا۔ چند دنوں کے بعد مولانا مر حوم نے مجھے بمعہ حکیم صاحب دو گھوڑوں کی بدوم گاڈی میں دیوان کی دیوڈ ھی روانہ کی گئی ۔ نواب مدار المہام نے حکیم صا حب کو تین سو تنخواہ کر دیا۔ عید کی نماز ادافر ما کر مو لوی صاحب حضرت کنگ کو ٹھی مبارک سے واپسی میں حضرت معلی کے مکان مو قو عہ عثمان شاہی تشریف لا تے ۔ بعد ضیافت تھوڈی دیر سماع ہو تا ۔ محمد علی خاں قوال اپنے مخصوص انداز میں مولانامر حوم کی فارسی غزل گا تے اور محفل پر ایک خاص کیفیت چھا جا تی ۔ ایک شعر مقطع کا مجھے اب تک یا د ہے۔
حا ل چہ گو ئم انو ؔر اتا چہ نمود لطفھا
بددر خویشتن مراعکس جمال یار من
یہ ہے حیدر آباد کے وزیر اور قندھار کے عالم با عمل کی زندگی کا ایک پہلو جو میرے قلب پر نقش کا لحجرہے۔