بارش کی تباہ کاریاں:

کیا قدرتی آفات بھی جانبدار ہوتی ہیں؟
ذمہ دارکون ؟وہ جو آسمان سے پانی برساتا ہے ،یاوہ جو آسمان میںاُڑکرہماری تباہی وبربادی کا نظارہ کرتاہے!

محمدجسیم الدین نظامی
برسات ایک ایساموسم ہے ،جس کا انتظار ..گاؤں کے کچے مکانوں میں زندگی گذارنے والوںسے لیکرشہرکی فلک بوس عمارتوں میں رہائش پذیر افراد تک… اور عام آدمی سے لے کر صاحب ِ اقتدارو اختیار تک، سب کو رہتاہے…..مگراس موسم کی یہ فطرت ہے کہ،یہ اپنے دوش پرجہاں لہلہاتی فصلوںکی بہار لاتی ہے وہیں اپنے ساتھ تباہی اور بربادی کی داستان بھی چھوڑ جاتی ہے،ز یادہ ہوتو سیلاب اوروبائی امراض کی شکل میں، کم ہوتو خشک سالی کی صورت میں،اوراگرمعتدل ہوتو رحمت بن کر، مگریہ انسانوںکی بد بختی ہے کہ وہ اس ابررحمت کا فائدہ اٹھانے میں ناکام ہوجاتے ہیں ۔ تاہم جہاں تک خشک سالی ، سیلاب یا سیلابی کیفیت کی بات ہے….موجود ہ دورمیں یہ عذاب الہی نہیں، بلکہ یہ عذاب موجودہ سسٹم اوراس کو قائم رکھے ہوئے ہمارے حکمراں طبقہ ہیں…. کیونکہ بار بار بارش کی تباہی کے باوجود اس کے سد باب کے لیے… کوئی موثر اقدامات اورمنظم و مکمل منصوبہ بندی کا نہ ہونا ،انتظامیہ حکومت اور سسٹم کا ناقص پن اور نااہلی ثابت کرتا ہے ۔ذرا غور کیجئے !مانسون  سیزن ہر سال آتا ہے اور ہر بارشیں ہرسال آتی ہیں، اور سیلاب بھی آتا ہے ۔لیکن صورت حال کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس وقت ملک میں جو سیلابی صورتحال ہے یا بارشیں ہو رہی ہیں‘ نہ یہ غیر معمولی ہیں اور نہ ہی انھیں ناگہانی آفات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ اس وقت بارش کے سبب جو نقصانات ہو رہے ہیں ان سے بہتر انتظامات کر کے بچا جا سکتا تھا۔ مگرالمیہ یہ ہے کہ آزاد ہندوستان میں کسی بھی حکومت نے اپنی ’’بنیادی ذمہ داریوں‘‘ پر توجہ ہی نہیں دی ۔ان کا سارا زور سیاسی جوڑ توڑ ، کرسی کا تحفظ، بدعنوانی کا فروغ اور بلند بانگ دعوں کے ارد گرد مرکوزہوتا ہے۔ اسکا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی ہنگامی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو اس سے نمٹنے کے لیے مطلوبہ تعداد میں نہ تربیت یافتہ عملہ ہوتا ہے اور نہ ہی متعلقہ اداروں کے پاس اتنے وسائل کہ وہ فوری حرکت میں آتے ہوئے عام آدمی کو راحت پہنچا سکیں۔مرکزی وزارت داخلہ کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی طرف سے جاری کئے گئے

ایک رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ جاریہ سال مانسون کے آغاز سے بارش اور سیلاب کے واقعات میں  تاحال کم از کم 480 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔رپورٹ کے مطابق، تاحال 6,187 مکانات مکمل تباہ ہو چکے ہیں اور 62,599 مکانات کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ بارش اورسیلاب کی قہر سامانیوںنے ملک بھرکی 11ریاستوں(اروناچل پردیش – 38،آسام – 36،بہار – 95،گجرات – 47،جموں و کشمیر – 3،مدھیہ پردیش – 70،مہاراشٹر – 81،میگھالیہ – 4،اڈیشہ – 2،اترپردیش – 32،اتراکھنڈ – 72)  میں تاحال 480اوراب آندھرا، تلنگانہ میں ہونے والی مبینہ25 اموات کو ملالیں تو جاریہ برسات کے موسم میںاب تک 505قیمتی جانوں کی بلی چڑھ چکی ہے۔سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دارہے کون ؟اپوزیش جماعتیں برسراقتدار طبقہ کو اسکے لئے مورد الزام ٹہراتی ہیں اور حکمران طبقہ اپوزیشن اور بعض وقت عوام کو بھی اس کا ـذمہ دار گردانتے ہوئے اپنی ذمہ داریوںسے راہ فرار اختیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوجاتاہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں اور سمندری طوفان بھی آتے ہیں لیکن وہاں جانی اور مالی نقصانات کی شرح انتہائی کم ہوتی ہے۔یوروپ میں شدید بارشیں ہوتی ہیں لیکن وہاں برقی شاک سے ہلاکتیں نہیں ہوتیں اور نہ ہی چھتیں گرتی ہیں۔ سڑکیں اور گلیاں بھی دن رات پانی میں ڈوبی نہیں رہتیں‘ تھوڑی دیر کے لیے پانی جمع ہوتا ہے اور پھر طاقتور سیوریج سسٹم کی بدولت پانی سڑکوں اور گلیوں سے غائب ہو جاتا ہے ۔اس حقیقت سے انکار نہیںکیا جاسکتا کہ ، قدرتی آفات کرئہ ارض پر زندگی کا حصہ ہیں، یہ آتے ہیں اورآتے رہیںگے، قدرت کا جو نظام ہے وہ اپنا کام بہرحال کرے گا۔ پانی جس پر پڑے گا اس کو گیلا کردے گا۔ آگ جہاں لگے گی اسے خاک کردیگی۔ ہوائوں کا طوفان جہاں اْٹھے گا وہ چیزوں کو اْکھاڑ پھینکے گا،تاہم انسان کو قدرت نے عقل دی ہے، وہ متعلقہ وسائل کو بروئے کار لاکر ان سے بچنے کا انتظام کرے ۔ اورراگر نہیں کرتا ہے تو’’ نظامِ قدرت‘‘ سے شکایت فضول ہے۔مگراس ناقابل تردید حقیقت کے باوجود، ذہن کے کسی گوشے میںاک سوال اْٹھتا ہے کہ کیا قدرتی آفات بھی جانبدار ہوتی ہیں ؟ یہ ہمیشہ استحصال زدہ اورمحروم طبقوں کو ہی نشانہ کیوں بناتی ہیں؟ یہ بھی سچ ہے کہ سیلاب یا زلزلے قہر خداوندی ہوتے ہیں لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ یہ قہر پہلے سے عذابوں میں گھرے ہوئے غریبوں پر ہی کیوں نازل ہوتا ہے؟ ۔میری اس تلخ نوائی پر برہم ہونے سے پہلے ہمیں یہ ضرور بتادیجئے کہ دنیا کا وہ کون سا گناہ ہے جواقتدار واختیار کھنے والے طبقوں کے محلات میں نہیں ہوتے؟۔

زلزلوں اور سیلابوں میں ایسے کتنے لیڈران اور کتنے سرمایہ دار مرتے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ وسائل پر قابض یہ طبقہ بارش کی قہرسامانیوں سے بہت دور شہروں کے پاش علاقوں میں بستا ہے۔ان کے بنگلے،بارشوں، سیلابوںاور زلزلوں میں اس لیے متاثر نہیں ہوتے کہ وہ بنائے ہی اس طرح جاتے ہیں کہ اس پراسکا اثر ہی نہ ہوں۔ کیا یہ سچ نہیںہے کہ مگرمچھ کے آنسو بہانے والا یہی طبقہ دراصل ان تباہ کاریوں کا ذمہ دار ہے اور اس سسٹم کا محافظ بھی؟۔ وہ ہیلی کاپٹر سے ہماری بربادیوں کا نظارہ کرتے ہیں، اپنی سیاست چمکاتے ہیں ، پھرفوٹو سیشن ہوتاہے، بعدازاں ریاستی حکومت مرکزی حکومت سے امدادکی اپیل کرتی ہے،مرکزی حکومت عالمی برادری سے امداد کی اپیل کرتی ہے۔اور جب امداد مل جاتی ہے تو یہ امداد نیچے سے لے کراوپر تک بیٹھے بدعنوان لیڈوروںاورافسروں کی’’ غربت ‘‘دور کرنے کے کام آتی ہے۔جبکہ قدرتی آفات سے متاثر ہونے والا عام آدمی کے امدا د کا انتظار ،اتنا طویل ہوتاہے کہ ان تک امدادپہنچتے پہنچتے وہ کسی دوسری آفات تک پہنچ جاتا ہے۔اٰنٹرنیشنل ریڈکراس کے اعدادوشمار کے مطابق 2025 تک دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے 50 فی صد سے زیادہ لوگ سیلاب اور طوفانوں کے خطروں سے دوچار ہوں گے، یقیناً یہ ایک انتہائی خطرناک پیشن گوئی ہے۔قدرتی آفات ازل سے ہی انسانی کی آزمائش بنی ہوئی ہیں۔ مگر ان آفات سے نمٹنے میں اب تک وہی ملک یا قومیں سرخ رو ہوئیں، جنہوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی اور اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہ دونوں صفات نہیں پائی جاتی ہیں۔ ان چیلنجس سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس کوئی موثر منصوبہ بندی ہے اورنہ ہی اتحاد کا وہ مظاہرہ جو ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ملک میں جہاںایسے حالات ہیں وہاں حکمراں اوراپوزیشن طبقہ روایتی طورپر اسکے لئے ایک دوسرے پرالزام عائدکرنے میں مصروف ہیں۔ تلنگانہ میں پچھلے پندرہ دن سے شدید بارش ہورہی ہے ،جان و مال کا نقصان ہورہا ہے،مگر سیاسی قائدین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے بیان بازیوں میں مصروف ہیںاور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔کانگریس اور دیگرسیاسی قائدین بارش ہونے والی تباہ کاریوں کیلئے کے سی آر حکومت کی نااہلی کو ذمہ درار بتار ہے ہیں ،تو ٹی آرایس حکومت اپنے پیشروحکومت کو ،اور مسٹرکے ٹی آرعوام کو …  ضرورت اس بات کی ہے یہ قائدین اپنے مفادات سے بالا تر ہو کرمتحدہ طورپر ان مسائل اور مشکلات سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ آ پکویاد ہوگا،پانچ سال قبل2011 میںجاپان میں جو زلزلہ آیا اور اس کے نتیجے میں جو سونامی آئی، یہ دنیا کی تاریخ کا سب سے خطرناک سیلاب تھا جس نے جاپان کے ایک حصے کو ملیامیٹ کردیا۔

انسانی آبادی، عمارتیں، گاڑیاں، جہاز، تنصیبات حتیٰ کہ نیوکلئیرپاورپلانٹ، اورگھروں کو بھی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسا خطرناک سیلاب جاپانی تاریخ میں کبھی نہیں آیا، مگر وہی جاپانی قوم آج چند برسوں بعدہی اپنی اسی حالت میں واپس آگئی ہے جو سونامی سے پہلے تھی۔ تمام مسائل پر جاپان نے قابو پالیا ہے، معیشت بحال ہوگئی ہے۔ تباہ شدہ علاقوں کے لوگ بحال ہوگئے اور زندگی پھر اس طرح رواں ہے جس طرح پہلے تھی۔وہاں بھی لاکھوں کی تعداد میں انسان بستے ہیں ،مگروہ ان قدرتی آفات کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کی منظم منصوبہ بندی اور موثر انتظامات کی بدولت ان سے ایک حد تک محفوظ رہتے ہیں۔ بے شک ہم قدرتی آ فات سے نہیں لڑ سکتے لیکن ہمیں ان حالا ت کے کیساتھ کیسے جینا ہے ؟ یہ تو سیکھ لینا چاہیے۔ تالابوں کے شکم میں اور نشیبی علاقوں میں واقع وہ بستیاں، جہاں موجود انسانی آبادیوںکو حد سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے، انہیں وہاں سے شفٹ کر تے ہوئے انکے لئے متبادل انتظامات کرنی چاہئے۔بارش کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے نئے آبی ذخائر کی تعمیر، موجودہ آبی ذخائر کی مرمت و صفائی، حفاظتی دیوارو کی مضبوطی، آبپاشی اور دیگر متعلقہ محکموںسے بدعنوانی کے خاتمہ کی ضرورت ہے ۔دراصل حیدرآباددکی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی بھی ایک مسئلہ ہے اور جو شخص مہنگے مکانات خریدنے کی سکت نہیں رکھتے، وہ بے ایمان لینڈ گرابرس کا شکارہوکر تالابوں،نالوں اور نشیبی علاقوں میں جا کر گھر بنا لیتے ہیں اورپھر بعد میں مصائب کا شکارہوجاتے ہیں ۔ بہرحالہم پورے تلنگانہ  کو بارش کی تباہ کاریوں سے نہیں بچا سکتے لیکن مناسب منصوبہ بندی اور موثر اقدامات کے نتیجے میں اہم شہری علاقوں کو ان نقصانات سے ضرور بچا سکتے ہیں۔