باجوا سے بات چیت۔ پاکستان سے گفت شنید ایک سونچ ہے جس کو عملی جامعہ پہنانے کا وقت آگیاہے۔

پاکستانی فوج اور ہندوستان کے درمیان بات چیت کی قیاس آرائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے انڈین آرمی چیف بپن روات نے یہ کہاکہ پاکستان کے اپنے ہم منصب جنرل قمر باجواکو ان کے ساتھ بات چیت کو آگے بڑھانے کے لئے حکومت سے بات کرنے ہوگی۔

راوت کا بیان ان خبروں کے برعکس تھا جو پچھلے سال باجوا پر انہوں نے دیاتھا۔وہیں راوت نے اس کومستر د کرتے ہوئے کہاکہ ‘ وہ سپاہیوں کی سیدھی بات کے یہ راست بات چیت کے موقع کو کھلا رکھنے پر زور دیں گے۔

پاکستانی فوج سے راست موصلات کی پہل کی یہ اچانک سونچ ایک اچھی بات ہوگی۔

آخر کار پاکستانی فوج کو ملک کی خارجی پالیسی ہدایتیں دیتی ہے بالخصوص ہندوستان کی جہاں پر بات آجاتی ہے۔

ہماری توقع یہ ہے کہ پاکستان کی جمہوریت کو بااثر اور ملک کی قیادت کو حتمی انتظامیہ کا اختیار ملنا چاہئے‘ مگر ہمیں اسبات کوتسلیم کرنا ہوگا کہ یہ معاملہ جلد ظاہر ہونا والا مستقبل نہیں ہے۔

اس سے بڑھ کر نئی دہلی کو اسلام آباد کی جانب سے کسی بھی قسم کی تمانعت کے لئے طویل مدت سے انتظار کرنا پڑارہا ہے۔حقیقت میں پاکستانیوں نے نئی دہلی کا اندازہ لگانے کے لئے حالات ’ممکنہ غلطیوں‘ سے دوچار تک کیاہے۔

اس پس منظر کے خلاف یہاں پر حقیقی مرکزی اقتدار جو پاکستان کے روالپنڈی جی ایچ کیو میں ہے سے راست بات چیت کے حالات کو یقینی بنانا چاہئے۔

اور دو آرمی سربراہانکے درمیان بات چیت اس کا حصہ ہوگی۔ اس سلسلہ میں ہندوستان اپنے قدیم نہروایائی مراعات کو روبعمل لاتے ہوئے فوج کو سیاست سے پوری طرح الگ تھلگ رکھنے کاکام کرنے چاہئے۔

اگر امریکہ کی سینئر آرمی جرنلس نااتفاقیوں کے باوجود اپنے پاکستانی ہم منصب سے بات کرسکتے ہیں ‘ تو کیوں ہمارے فوجی سربراہان یہ کام نہیں کرسکتے؟۔

ہندوستان آج ایک سلجھی ہوئی جمہوریت ہے اور حکومت کو اپنے پاکستان پالیسی میں فوج کو شامل کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسو س نہیں کرتی ۔ اپنے سروں کو ایک جگہ رکھ کر انہیں پاکستان کے معاملے کو سلجھانے پر غور کرنا چاہئے۔