بات من کی کریں یا وطن کی کہیں

مسلم خواتین سے ہمدردی … ہجومی تشدد پر خاموش
عام انتخابات کی گونج … اپوزیشن میں اتحاد کی مساعی

رشیدالدین
یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے مسلسل پانچویں مرتبہ خطاب کے دوران وزیراعظم نریندر مودی کو شائد کہیں نہ کہیں یہ اندیشہ لاحق تھا کہ کہیں یہ آخری خطاب نہ ہوجائے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی دوسری اننگز کی تیاری کے طور پر نریندرمودی کا قوم سے خطاب تھا ۔ مودی کا خطاب گزشتہ برسوں کے مقابلہ مختلف تھا اور سیاسی بازیگری ، جملہ بازی اور اپوزیشن کے خلاف طنز کے بجائے ترقیاتی ایجنڈہ پر محیط رہا۔ گزشتہ چار برسوں کے کارناموںکا تذکرہ اور نئی اسکیمات و منصوبوں کا اعلان کرتے ہوئے مودی نے عوام سے دوسری مرتبہ موقع دینے کی عملاً اپیل کردی۔ جملہ بازی اور اپوزیشن پر تھیکے طنز کی کمی سے مودی کا خطاب پھیکا دکھائی دے رہا تھا لیکن مودی کی یہ مجبوری تھی کہ وہ عوام کے درمیان اپنی شبیہہ ایک ترقی پسند اور عوام کی بھلائی کی فکر کرنے والے قائد کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے۔ مودی کے خطاب سے واضح ہورہا تھا کہ ان کے پیش نظر ووٹ بینک ہے۔ ایسے مسائل جن سے ووٹ بینک مضبوط ہوسکتا ہے، مودی نے ان پر زیادہ وقت دیا۔ نوٹ بندی ، جی ایس ٹی اور کالا دھن جیسی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے مودی نے بعض فلاحی اور ترقیاتی اسکیمات کا سہارا لیا۔ چار سالہ رپورٹ کارڈ میں صرف ان باتوں کا ذکر کیا گیا جن سے سیاسی فائدہ ہوسکتا ہے۔ ہندوستان کو ہر شعبہ میں دیگر ممالک سے آگے لیجانے اپنی بے چینی اور بے تابی کا اظہار کرتے ہوئے ہر ہندوستانی کیلئے روٹی ، کپڑا ، مکان ، صحت ، برقی ، پانی اور روزگار جیسی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کا وعدہ کیا گیا۔ عوام کے لئے صحت بیمہ اسکیم کا اعلان ہوا ہے۔ مودی نے بی جے پی کے روایتی ووٹ بینک میں سے کسی بھی طبقہ کو اپنے خطاب میں نہیں بھلایا۔ ملک اور عوام کے تئیں اپنی سنجیدگی ثابت کرنے ان کا یہ جملہ کافی تھا کہ ’’ہم مکھن پر نہیں پتھر پر لکیر کھینچنے والے ہیں‘‘۔ مودی پر انتخابی دھن سوار ہونے کا ثبوت ان کے خطاب سے مل رہا تھا ۔ مودی نے خواتین سے ہمدردی پر خاص توجہ دی اور طلاق ثلاثہ تنازعہ کو چھیڑ دیا ۔ مسلم بیٹیوں اور بہنوں کو انصاف دلانے کا اعلان کیا گیا ۔ طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دینے کیلئے بل کی منظوری میں رکاوٹوں کیلئے اپوزیشن کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مودی نے مسلم خواتین کو شریعت اسلامی سے متنفر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا مقصد مسلم سماج میں پھوٹ اور انتشار پیدا کرنا ہے۔ مسلم بہنوں اور بیٹیوں کی فکر بعد میں کریں، پہلے ان خواتین کی فکر کی جائے جنہیں ریسکیو ہومس کے نام پر ہوس کا شکار بنایا گیا ۔ بہار اور اترپردیش کے 2 ریسکیو ہومس میں ان شرمناک حرکتوں کے لئے بی جے پی قائدین ملوث پائے گئے۔ پہلے ان درندوں کی ہوس کی شکار بہنوں اور بیٹیوں کو انصاف دلائیں۔ ملک میں خواتین کے خلاف مظالم اور جنسی استحصال کے واقعات میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے اور بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں نے ان واقعات کی کثرت ہے۔ کیا ان بیٹیوں اور بہنوں کو تحفظ فراہم کرنا مودی حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے ؟ اترپردیش میں عصمت ریزی کے ملزم بی جے پی رکن اسمبلی کے خلاف آج تک کارروائی نہیں کی گئی۔ بہار اور اترپردیش کے ریسکیو ہومس کے واقعات نے دنیا بھر میں ہندوستان کی نیک نامی کو متاثر کردیا ہے۔ ہندوستان کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہوچکا ہے کہ یہاں خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ نریندر مودی کو خواتین کے تحفظ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی فکر ہے اور انہوں نے انتہائی درد بھرے لہجہ میں تین طلاق کی متاثرہ بہنوں اور بیٹیوں کا ذکر کیا۔ مسلم بہنوں اور بیٹیوں کی فکر کرنے سے پہلے نریندر مودی کیا ہی بہتر ہوتا کہ اپنی شریک حیات کی خیریت دریافت کرتے۔ جس خاتون کے ساتھ زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ کرتے ہوئے 7 پھیرے لئے تھے، آج وہی خاتون آشرم میں بے سہارا کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ خواتین کو انصاف دلانے سے پہلے اس خاتون کی مانگ میں سیندور کا تحفظ کریں جو آپ نے بھرا تھا ۔ جو شخص اپنی گھروالی کو انصاف نہ دے سکے ، وہ بھلا دوسروں کا ہمدرد کیسے ہوسکتا ہے۔ نریندر مودی نے قوم سے خطاب کے دوران ملک میں مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف جاری ہجومی تشدد کے واقعات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ ملک میں بڑھتی عدم رواداری اور نفرت کے نتیجہ میں مختلف عنوانات سے بے قصور مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ سپریم کورٹ نے ان واقعات پر مرکز اور ریاستوں کی سرزنش کی لیکن وزیراعظم نے اپنے خطاب میں اس کا تذکرہ کرنا تک مناسب نہیں سمجھا۔ جارحانہ فرقہ پرست عناصر نے آئندہ عام انتخابات کیلئے جو فضاء تیار کی ہے ، وہ نفرت پر مبنی ہے۔ سماج کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہوئے ہندو ووٹ متحد کرنے کی سازش کی جارہی ہے ، اسی سازش کے نتیجہ میں عدم رواداری کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ۔ سیاسی مبصرین کو اندیشہ ہے کہ ڈسمبر تک اس طرح کے واقعات کی شدت میں مزید اضافہ ہوگا ۔ وزیراعظم نے آسام میں این آر سی سے 40 لاکھ افراد کے ناموں کے اخراج پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ آسام میں بی جے پی حکومت بنگلہ دیشی در اندازوں کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانا چاہتی ہے تاکہ انہیں رائے دہی اور دیگر حقوق سے محروم کیا جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قطعی رپورٹ میں مذکورہ 40 لاکھ افراد غیر ہندوستانی قرار پاتے ہیں تو پھر ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ کونسا ملک انہیں قبول کرنے کیلئے تیار ہوسکتا ہے۔ خود بنگلہ دیش نے اس معاملہ کو ہندوستان کا داخلی معاملہ قرار دیا ہے۔ بی جے پی آسام کی طرح ملک کے دیگر حصوں میں بھی این آر سی پر عمل آوری کی مانگ کر رہی ہے۔ ایسے میں ان ہندو خاندانوں کا کیا ہوگا جو پاکستان ، برما ، سری لنکا ، افغانستان اور بنگلہ دیش سے ہندوستان آئے اور یہاں کی مستقل شہریت حاصل کرلی ۔
نریندر مودی اور ان کے وزیر باتدبیر امیت شاہ نے انتخابی تیاریوں کا عملاً آغاز کردیا ہے ۔ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کیلئے طرح طرح کی حکمت عملی تیار کر رہے ہیں ۔ بی جے پی کے سابق قائدین کے برخلاف موجودہ قیادت میں سیاسی مخالفین کا صفایا کرنے کا جذبہ کچھ زیادہ ہی پایا جاتا ہے۔ ملک کی زیادہ تر ریاستوں میں اقتدار کے سبب بی جے پی 2019 ء میں دوبارہ کامیابی کا خواب دیکھ رہی ہے۔ بی جے پی کیلئے عام انتخابات سے قبل پہلا تجربہ راجستھان ، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں ہوگا جہاں ڈسمبر میں اسمبلی انتخابات مقرر ہیں۔ تینوں ریاستوں میں مودی اور امیت شاہ کی مقبولیت اور صلاحیتوںکا بھی امتحان رہے گا ۔

ملک کی اپوزیشن جماعتوں میں اتحاد کی کوششیں جاری ہیں کیونکہ صرف سیکولر اتحاد کے ذریعہ ہی بی جے پی کو شکست دی جاسکتی ہے اور اس سلسلہ میں اترپردیش کی مثال موجود ہے۔ اسمبلی اور لوک سبھا میں تنہا مقابلہ کے سبب شکست سے دوچار ایس پی اور بی ایس پی نے اتحاد کرتے ہوئے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو شکست سے دوچار کردیا۔ چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ اپنی پارلیمانی نشست نہیں بچا سکے۔ قومی سطح پر اپوزیشن میں قیادت کی کمی ہے۔ علاقائی جماعتیں بی جے پی کا بہتر طور پر مقابلہ کرسکتی ہے لیکن زیادہ تر علاقائی جماعتیں کھل کر یا پھر خاموشی سے این ڈی اے کے ساتھ دکھائی دے رہی ہے۔ ملک میں کمیونسٹ پارٹیاں اپنا اثر کھو چکی ہیں۔ کانگریس ، ترنمول کانگریس ، ایس پی ، بی ایس پی اور آر جے ڈی نے اپوزیشن اتحاد کی سمت پیشرفت کی ہے۔ اس صف میں تلگو دیشم پارٹی شامل ہوسکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نریندر مودی اپوزیشن کو متحد ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں یا پھر اتحاد سے قبل ہی وسط مدتی انتخابات کا اعلان کردیا جائے گا ۔ اپوزیشن کو ملک گیر سطح پر مقبولیت رکھنے والی قیادت کی ضرورت ہے اور موجودہ صورتحال میں نریندر مودی اپنی مقبولیت اور جملہ بازی کے ذریعہ سبقت حاصل کئے ہوئے ہیں۔ اسی دوران سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دیہانت سے بی جے پی سیاسی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اٹل بہاری واجپائی کی خوبیوں اور کارناموں کی اچانک بڑے پیمانہ پر تشہیر شروع کی گئی۔ قومی اور علاقائی میڈیا کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ اٹل بہاری واجپائی کی صلاحیتوں کے اعتراف کے سلسلہ میں نریندر مودی اور امیت شاہ کس حد تک سنجیدہ ہے کیونکہ یہ وہی واجپائی ہیں جنہوں نے گجرات کے مسلم کش فسادات کے بعد نریندر مودی کو ’’راج دھرم ‘‘ نبھانے کا درس دیا تھا ۔ فسادات کے بعد جب اٹل بہاری واجپائی نے وزیراعظم کی حیثیت سے گجرات کا دورہ کیا تو انہوں نے اس وقت کے چیف منسٹر نریندر مودی سے کہا تھا کہ کسی راجہ کیلئے نسل ، ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر عوام کے درمیان تفریق اور بھید بہاؤ نہیں ہونا چاہئے ۔ مودی نے اس مشورہ پر جواباً کہا تھا کہ ہم اسی پر عمل کر رہے ہیں‘‘۔ راج دھرم نبھانے کے مشورہ کے بعد سے واجپائی پارٹی کے کٹر پسند قائدین میں ناپسندیدہ بن چکے تھے ۔ واجپائی نے لوک سبھا میں اپوزیشن قائد کی حیثیت سے بابری مسجد کی شہادت پر معذرت خواہی کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت اڈوانی او رمرلی منوہر جوشی نے ان کی چلنے نہیں دی۔ آج وہی اڈوانی جنہوں نے گجرات میں نریندر مودی کی سیاسی سرپرستی کی تھی ، آج پارٹی میں گوشہ گمنامی ان کا مقدر بن چکی ہے۔ واجپائی نے بھلے ہی راج دھرم نبھانے کا مشورہ دیا تھا لیکن وہ مودی کے خلاف کارروائی نہیں کرسکے ۔ ڈاکٹر راحت اندوری کا یہ شعر موجودہ صورتحال پر صادق آتا ہے ؎
بات من کی کریں یا وطن کی کہیں
جھوٹ بولیں تو آواز بھاری رکھیں