بات ایسی ہے کہ خود سے بھی چھپائی جائے

علامہ اعجاز فروخ
تاج محل کا نام کچھ اور ہوتا تب بھی اسکے حُسن میں کوئی کمی نہ واقع ہوئی ہوتی، نام تو بس ایک پیرہن ہے،ایک شناخت۔ ورنہ حُسن تو صرف حُسن ہے۔ میں کہوں حُسن مکمل وہ ہے جسے دیکھ کر مقابل کو چُپ لگ جائے۔ یا پھرہاتھ میں چکوترہ اور چُھری ہو اور اُنگلیاں کٹنے کا احساس بھی نہ ہو تو اسے حُسنِ انگشت تراش کہہ لیجئے۔ حُسن تو بس مبہوت کرنا جانتا ہے، مسحور کرنا جانتا ہے اور اگر کبھی اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز ہوتو کس پر کیا گذر گئی اُس کی بلا جانے۔ بھلا جس کی تخلیق ہی چاہے جانے کیلئے ہوئی ہو، اُسے کیا خبر کہ کسے ایک کانٹے کی کسک سیر بیاباں کروادیتی ہے اور کس کیلئے ’’عیش نظارہ ہے شمشیر کا عُریاں ہونا۔‘‘
ستمبر کی سہ پہر تھی آگرہ کے لال قلعہ میں مینا بازار کی رونق دیدنی تھی۔ شہزادیاں، اُمراء زادیاں، شریف زادیاں، بیگمات اور ان سب کے اطراف کنیزیں، کوئی کسی بیگم کا پاندان سنبھالے ہوئے اور کوئی کسی شہزادی کے اشارے کی منتظر۔ وردی پوش ازبک عورتیں پہرے پر مامور۔ مینا بازار کے احاطے میں تو کجا دور دور تک کسی کی مجال نہ تھی کہ کوئی مرد دکھائی دے جائے، لیکن شہزادے تو شہزادے ہوتے ہیں۔ منادی نے نِدا دی’’ خبردار، ہوشیار ہوش و خردِ پیش بارگاہ رہے۔ ظلِ ہما سایہ فگن ہو۔ فخرِ ہندوستان جنت نشان، دلبند شہنشاہ عالم پناہ، رونقِ گیتی، ولیعہد سلطنت مغلیہ شہزادہ شہاب الدین محمد خرم رونق افروز ہورہے ہیں‘‘ نقرئی ہنسی کا آبشار تھم گیا۔ راہداری سے گذر کر جیسے ہی شہزادہ بازار میں داخل ہوا، سب مجرئی ہوکر سلام کیلئے جُھک گئے۔ شہزادہ خراماں خراماں بازار سے گذررہا تھا۔ نگاہ اُٹھی تو تھم کے رہ گئی۔ وہ نہفتنہ بہ داماں تھی نہ حشر ساماں، لڑکپن اور جوانی کی دہلیز پر بس ایک خواب تھی جو بدن کے سانچے میں ڈھل گئی تھی۔ عشق کی گرمئی نظر اگر حُسن کو نہ پگھلائے تو پھر عشق کیا ! شہزادے کو تکتا محسوس کرکے حیا سے بوجھل پلکیں بس ایک لمحہ کیلئے اُٹھیں اور پھر نیم وا آنکھوں پر چلمن کی صورت جُھک گئیں۔ شہزادے نے سلام کی یہ صورت کبھی نہ دیکھی تھی نہ محسوس کیا تھا کہ پلکیں جُھک کر کبھی سلام کرتی ہیں اور کبھی سلام قبول کرتی ہیں۔ دراز قامت، روشن پیشانی، ستواں ناک، بڑی بڑی غلافی آنکھیں، حیا سے بوجھل پلکیں جس سے شام نے سرمئی پن کا سلیقہ پایا ہو، سُرخی لب ادہر بلبل کو نغمہ آمادہ کرے تو اُدہر بادِ صبا کو اذن موسیقی عطا کرے۔ لگتا تھا کلی نے کم کم کھِلنا ان ہی لبوں سے سیکھا تھا۔ ایک طرف تو لَٹ رُخسار سے اٹکھیلیاں کرے تو دوسری طرف آگے کو پڑی ہوئی گھنے بالوں کی چوٹی۔ جیسے خزانے پر سانپ کا پہرہ۔ سانسوں کا زیرویم جیسے موجِ دَر موج تلاطم۔ مرمر تو سفید ہوتا ہے لیکن اس پر طرفہ ذرا سا صندل کی آمیزش ہو تو بانہیں گلے کا ہار ہونے کی آرزو تودستِ دُعا کی طرح اُٹھتی ہے۔ شہزادہ مسحور بھی تھا مبہوت بھی، چُپ بھی لگی تھی لیکن خاموشی کا بھی تکلم ہوتا ہے۔ اُس کی موسیقی ستار کی جھنکار جھرنے کے ترنم اور بانسری کے ساتویں سُر سے الگ اپنی ایک الگ راگنی رکھتی ہے۔ یکایک سکوت ٹوٹا۔ کنیز نے آگے بڑھ کے کہا ’’حضور پان حاضر ہے۔‘‘ شہزادے نے چونک کے دیکھا، گلوری اُٹھائی اور مینا بازار سے مثمن برج کی طرف نکل گیا۔
شام کے سائے دراز ہوچلے تھے، شہزادہ خرم مثمن برج میں کھڑا جمنا کے دودھیا آنچل کو تک رہا تھا۔ اُس نے رُخ بدلے بغیر پوچھا ’’ کون ؟ خواجہ سرا حنیف کوزنش میں خمیدہ ہوگیا، کہا ’’ حضور غلام حاضر ہے‘‘ شہزادے نے پلٹ کر دیکھا۔ خواجہ سرا نے دھیمے لہجے میں کہا ’’ حضور جاں بخشی فرمائیں تو عرض کروں‘‘ شہزادے نے نظر اُٹھا کر دیکھا گویا اجازت مرحمت ہوئی۔ خواجہ سرا پھر جھک کر سلام بجا لایا، اور کہا’’ حضور وہ ابوالحسن کی دختر نیک اختر ہیں، مرزا غیاث بیگ اعتمادالدولہ کی پوتی، ملکہ عالیہ کی برادر زادی‘‘ … یہ کہہ کر خوجہ سرا چُپ ہوا۔ ’’ کچھ اور ‘‘ شہزادہ خرم نے پوچھا۔ ’’ حضور والا چودہ برس سن ہے، غلام کی حد اس سے آگے نہیں‘‘۔ تم سے کس نے کہا تھا کہ یہ معلومات حاصل کرو۔ اگر ہم نے پیشگی تمہاری جان بخشی نہ کی ہوتی تو تمھاری گردن اُڑادی جاتی‘‘۔ خواجہ سرا نے عرض کی ’’ غلام حضور کا نمک خوار ہے۔ بھولے سے اسے حقِ نمک سمجھ بیٹھا سو نادِم ہے‘‘ خرم ایک لمحے کیلئے خاموش رہا۔ پھر کہا ’’ ہوا سے کہدو، اسے میں بھی راز رکھوں اسے تو بھی راز رکھنا، خبردار خوشبو پھیلنے نہ پائے‘‘۔ ’’ عالیجاہ ، غلام کو ہمیشہ مفتمد پائیں گے‘‘ یہ کہکر اُلٹے پاؤں لوٹ گیا۔
بِساط بچھی ہوئی تھی، شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نور جہاں دونوں کی نظریں مُہروں پر تھیں۔ نور جہاں نے پیادہ آگے بڑھاتے ہوئے کہا ’’ کل شہزادہ خرم مینا بازار کی سیر کو گئے تھے۔ بس کچھ دیر رُکے اور پھر رات دیر گئے تک مثمن برج میں تنہا دیکھے گئے‘‘۔ ’’کوئی خاص بات؟‘‘ جہانگیر نے بِساط پر شُتر کو آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا۔ ’’ حضور بھی تو اس دور سے گذر چکے ہیں جہاں تنہائی انجمن آرائی کرتی ہے اور انجمن تنہا ہوجاتی ہے‘‘
نور جہاں نے ایک اور پیادہ آگے بڑھایا’’ شہزادہ خرم اتنابے اختیار تو نہیں کہ اپنی انجمن جنبش نظر سے نہ سجاسکے‘‘۔جہانگیر نے پیادہ کو حرکت دی۔ نور جہاں نے اپنے شُتر کو چال دیکر کہا’’ انجمن شب میں سجائی جاتی ہے فانوس روشن کرکے ، اور جب نشہ دو آتشہ ہونے کو ہو تو فانوس کی لو مزاج آشنائی کے تئیں خود مدہم ہوجاتی ہے تب دوشاخہ ساری روشنی کو اپنے حصار میں سمیٹ لیتا ہے‘‘ جہانگیر نے مُسکراکر نور جہاں کو دیکھا، پھر کہا ’’ ہم یوں ہی آپ کے اسیر نہیں، آپ کی ذہانت و فطانت کے معترف بھی ہیں اور خوش گفتاری کے قائل بھی ہیں‘‘۔ نور جہاں نے کہا ’ حضور بِساط پر بھی غور فرمائیں، یہ چال آپ کی ہے‘‘ جہانگیر نے فیل کو حرکت دیتے ہوئے کہا ’’ ملکہ عالیہ بازی تو ہمیشہ آپ ہی کے ہاتھ ہوتی ہے۔ آپ کی توجیت ہے ہی ، ہم توجیت کر بھی ہار جاتے ہیں‘‘ نور جہاں نے شُتر کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ’’ شہزادہ شام ڈھلے جلنے والے اور نصف شب کے بعد دم توڑنے والے فانوسوں اور مدہوش کردینے والے ساغر و مینا کا تمنائی نہیں ہے وہ اسے خود فریبی سمجھتا ہے‘‘۔ ’’ تو پھر ؟ ‘‘ جہانگیر نے پوچھا۔ ’’ وہ تو رات کو دِن بنادینے والے جلوے کا آرزومند ہے اور بے خودی میں ہشیاری کا تمنائی‘‘۔
جہانگیر نے بے خیالی میں مُہرہ آگے بڑھایا۔ نور جہاں نے بِساط پر اسپ کو آگے کرکے کہا’’ ارجمند بانو ‘’ پھر کہا ’’ حضور والا‘‘ شہ ، پرتو توجہ فرمائیں۔ جہانگیر نے نور جہاں کے چہرہ پر مُسکراہٹ دیکھ کر کہا ’’ بازی تو ہم کب کی ہار چکے لیکن آپ تو پہیلیاں بجھوارہی ہیں‘‘۔ نور جہاں نے کہا ’’ شہزادہ خرم کی نظر ابوالحسن کی دُختر ارجمند بانو پر ہے‘‘ ۔ ’’ کیا شہزادہ خرم نے آپ سے کہا یا کسی سے کہلوایا‘‘۔ جہانگیر نے پوچھا۔ ’’ نہیں! راز بیان نہیں کئے جاتے لیکن خوشبو چھپائی نہیں جاسکتی‘‘۔ ’’ تو پھر کس نے یہ پیغام رسانی کی‘‘ جہانگیر نے پوچھا۔ نور جہاں نے کہا ’’ بے خودی بے سبب نہیں ہوتی اور ہوا سے بڑھ کر کوئی منافق بھی نہیں ہوتی ۔ ایک طرف تو رازداری کا حلف اٹھاتی ہے تو دوسری طرف خوشبو کو لئے لئے پھرتی ہے کہ افشائے راز بھی ہوجائے۔ اور جب آتش تیز ہوجائے تو خود یہ کہہ کر الگ ہوجاتی ہے کہ ’’ میں تو یہ آگ لگانے کو نہیں آئی تھی‘‘۔
جمنا ندی چڑہائی پر تھی، ہمیشہ کی شوریدہ سر اس سال تو باڑھ اس زور پر تھی کہ قریب کے کنارے بھی دور ہوگئے تھے۔ اور ایسے کہ ساجن اس پار تو وہ من مار اُس پار۔ ناؤ، ندی سے روٹھی اور مانجھی ناؤ سے پرے۔ بس نظریں تھیں جو دریا پار کنارے کو تک رہی تھیں۔ شہزادہ خرم بھی مثمن برج سے یہ منظر دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ باڑھ ندی میں آتی ہے یا خود میں، آگ باہر ہوتی ہے یا اندر کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے۔ آہٹ سی محسوس ہوئی تو اُس نے رُخ بدلے بغیر پوچھا۔ ’’ کون ؟ ‘‘
کنیز ہاتھ میں کشتی لئے پیش ہوئی۔ خرم نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ کنیز ایک قدم آگے بڑھا کر اور خمیدہ ہوگئی۔ خرم نے سرپوش ہٹایا۔ سلیقے سے تہہ کیا ہوا رومال رکھا تھا۔ کنیز نے دھیمے سے کہا، حضور جو چور کی سزا سو میری۔ ’’ چُرا کے لائی ہوں‘‘ ۔ شہزادہ ہلکے سے مُسکرایا۔ گلے سے ہار اُتار کر کشتی میں رکھ کر کہا وہیں رکھ دینا جہاں سے رومال اُٹھایا تھا ‘‘ اور اپنی انگوٹھی اُتار کر دیتے ہوئے کہا ’’ یہ لو تمہارا انعام، اس چوری پر تم اسی کی مستحق تھیں، زندگی میں ایک بار جو بھی مانگوگی تمہیں بخش دیا جائے گا۔ ہم اگلے مینا بازار میں پھر آئیں گے‘‘۔
مینا بازار تو اپنے وقت ہی پر لگتا تھا۔ لیکن اس مرتبہ تو ایسا لگا کہ صدیوں کے انتظار کی فصل کاٹنا ہے۔ انتظار، کرب ِانتظار، پَل پَل کی صدی، یہ مزدہ تو کوئی ستم کشوں سے پوچھے۔ وصل کی شب بس ایک پَل ہجر کا پَل پوری ایک صدی۔ انتظار کے ان لمحات میں شہزادہ خرم جب اُس رومال کو چھو لیتا تو اُسے ایک مہک سی محسوس ہوتی جو مشام جاں کو معطر کرجاتی۔
اُسے حیرت بھی تھی کہ صرف چھو لینے سے اُس کا وجود کیوں مہک مہک اُٹھتا ہے۔ اُس کی نوخیزی نے شاید یہ راز آشکار نہیں کا تھا کہ مہک تو وجود کے اندر ہوتی ہے، پھول اور خوشبو تو ایک بہانہ ہے ورنہ نفس تو خیال کے بدن اور بدن کے خیال سے بھی مہک مہک اُٹھتا ہے۔ خدا خدا کرکے وہ دِن اور وہ گھڑی آئی جب مینا بازار سج گیا۔ اعلان ہوا کہ اس مرتبہ مینا بازار کو ملکہ عالیہ اپنی تشریف آوری سے زینت بخشیں گی۔
وقتِ مقررہ پر منادی نے پھر صدا دی’’ خبردار، ہوشیار، ہوش و خرد پیش بارگاہ رہے، ظِل ہما سایہ فگن ہو، فخر ہندوستان ، جنت نشان دلبند شہنشاہ عالم پناہ، رونق گیتی، ولیعہد سلطنت شہاب الدین محمد خرم رونق افروز ہورہے ہیں‘‘ شہزادہ خرم پر وقار قدم اُٹھاتے ہوئے راہداریوں سے گذرر ہا تھا، منادی نے پھر نِدا دی ’’ جنبش مُکن نگاہ، روبرو ، ہوش خود پیش بارگاہ رہے، ظِل ہما سایہ فگن ہو، پاسبان عدل گُستری، شوگیتی، ملکہ عالیہ تاجدار سلطنت مغلیہ شہنشاہ عالم پناہ، بیگم مہر النساء نور جہاں جلوہ افروز ہورہی ہیں۔ ازبک خاتون کہاروں کے دوش پر سونے اور جواہرات سے مزین، مرصع پالکی میں پچاس کنیزیں میانہ روی کے ساتھ قدم اُٹھاتی ہوئی مینار بازار کے درمیان پہنچی۔ اُمراء کی بیگمات تسلیم و مجرے کیلئے جُھک گئیں نور جہاں زرنگار کُرسی پر جلوہ افروز ہوگئیں، پہلو میں شہزادیوں کیلئے بھی کُرسیاں رکھی گئیں ساتھ ہی شہزادہ خرم کیلئے بھی کُرسی رکھی گئی تھی۔
حسب روایت بیگمات سلام کیلئے حاضر ہوئیں، جوں ہی پہلی نذر پیش ہوئی نورجہاں نے کہا ’’ آج صرف سلام ہو، آج سے مینار بازار میں ہماری خدمت میں کوئی نذرانہ پیش نہ کیا جائے‘‘ ایک کے بعد ایک سلام کیلئے پیش ہوتی رہیں۔ ابوالحسن کی بیگم آگے بڑھیں ملکہ کو جُھک کر تعظیم دی اور دست بوسی کرکے رُخصت ہوئیں۔ شہزادہ خرم نے دیکھا ماں کے بالکل پیچھے ارجمند بانو ہے اور گلے میں وہی ہار ہے۔ جب ملکہ کو تسلیم کرکے تعظیم کیلئے گھٹنے پر ہاتھ رکھا تو نور جہاں نے اپنے ہاتھ کی اُنگلیاں سر پر رکھ دیں، وہ دوبارہ تسلیم کرکے اُٹھی تو نور جہاں نے مُسکرا کر کہا ’’ تم تو خود ایک زیور ہو، گلے کا یہ ہار تمھیں نظر نہ لگادے‘‘ یہ کہکر اپنی آنکھ کے کاجل سے اُس کی پیشانی کی بائیں جانب نظر کا ٹیکہ لگاکر اپنے گلے کا ہار ارجمند بانو کے گلے میں ڈال دیا۔
ابوالحسن کی بیوی کو بُلاکر کہا ’’ اس لڑکی کی شادی کسی اچھے لڑکے سے کردو۔ شادی ہماری مرضی سے ہوگی۔ ابوالحسن کی بیگم نے کہا ’’ ملکہ عالیہ کے فرمان کا لفظ لفظ پورا ہوگا ‘‘ ۔ ’’ یاد رہے ، اس تعمیل میں تاخیر نہ ہو‘‘ نور جہاں نے کہا۔ پھر نظر اُٹھاکر ارجمند بانو کو دیکھا۔ چہرہ سنگ مرمر کی طرح سفید تھا۔ صندلی رنگ غائب ہوگیا تھا۔ وہ بُت بنی کھڑی تھی اور گلے میں ہار ایسے لگ رہے تھے جیسے سنگِ مرمر کے مجسمہ کو جواہرات کے بوجھ نے اور سنگ بستہ کردیا ہو۔
شام ڈھل چکی تھی، شہزادہ خرم مثمن برج میں ستون سے لگا کھڑا تھا۔ جمنا پُرسکون تھی، ایک مانجھی اپنی ناؤ لئے جمنا کے پاٹ سے اُلٹی سمت جارہا تھا۔ شاید منزل دور تھی، ناؤ بیچ ندی میں تھی، نہ یہ کنارہ اپنا نہ وہ کنارہ اپنا۔ قلعہ کی سنگ بستہ دیواریں ساکن کھڑی تھیں، وہی بدن جس کی پور پور مہک رہی تھی اُس کا انگ انگ درد سے ٹوٹ رہا تھا، کمبخت عشق اندر سے توڑکے رکھ دیتا ہے، کچھ نہیں دیتا صرف درد دیتا ہے فقط درد۔
درد ایسا ہے کہ اظہار کے رستے ڈھونڈھے
بات ایسی ہے کہ خود سے بھی چھپائی جائے
( جاری ہے)