بابری مسجد کے مسئلہ پر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ہی قابل قبول۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اجلاس‘ بورڈ اپنے سابق موقف پر قائم

بورڈ نے سلمان ندوی کی تجویز کو سرے سے مسترد کیا ‘ او رکہاکہ ‘ عدالت کا جوبھی فیصلہ ہوگا اسے ہی مانا جائے گا
حیدرآباد۔ کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ کا اجلاس یہاں اویسی اسپتال کے کانفرنس ہال میں جمعہ کو مغرب کی نماز کے بعد شروع ہوا۔ بابری مسجد معاملہ کی سپریم کورٹ میں سنوائی اور پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ کے اہم رکن مولانا سلمان ندوی کی بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے کے لئے رضا مندی کے سبب یہ اجلاس بہت ہنگامہ خیز رہا۔

https://www.youtube.com/watch?v=ol06OzeF6s4

بابری مسجد کے سلسلے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے مولانا سلمان ندوی کی تجویز کو سرے سے مسترد کرتے ہوئے کہاکہ موقف میں کوئی تبدیلی نہیں ائی ہے کہ یہ مسجد ہے اور جس جگہ ایک دفعہ مسجد بن جاتی ہے وہ قیامت کے لئے مسجد رہتی ہے۔

مسجد کے سلسلے میں جب بھی ہندو مذہبی رہنماؤں کی طرف سے مصالحت کی پیشکش ہوئی ‘ بورڈ نے کبھی انکار نہیں کیابلکہ ان سے منصفانہ او رباعزت حل پیش کرنے کا مطالبہ کیا لیکن ان کا ہمیشہ ایک ہی جواب رہا کہ مسلمان یکطرفہ طور پر مسجد کی تعمیر سے دستبردار ہوجائیں مگر مسلمان ایسا نہیں کرسکتے‘ کیونکہ کسی مسجد کو غیراللہ کی عبادت کے لئے دینا قطعا حرام ہے اور شریعت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر مسلمان ایسا کریں گے تو وہ عنداللہ جواب دہ ہوں گے۔ بورڈ کا یہی موقف ہے ۔ معاملہ عدالت عظمیٰ میں ہے۔

بورڈ نے فیصلہ کیاہے کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا قانونی طور پر اسے مانا جائے گا۔ کورٹ میں جو مقدمہ چل رہا ہے وہ عقیدہ اور آستھا کا نہیں ہے‘ وہ حق ملکیت کا ہے اس لئے امید ہے کہ فیصلہ مسلمانوں کے موقف کے مطابق ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو نہ یہ کسی کی جیت ہوگی اور نہ کسی کی ہار ‘ بلکہ انصاف کی فتح ہوگی۔ بورڈ کے ممبر ظفریاب جیلانی نے کہاکہ بابری کے معاملے میں مصالحت کی بات کہاں ہوتی ہے صرف ملکیت سے دستبرداری کی بات کی جاتی ہے او رمسجد کی زمین اللہ کی ملکیت ہے اس سے دستبرداری کا سوال ہی نہیں ہوتا۔قابل ذکر ہے کہ مولانا سلمان ندوی نے جمعرات کو بنگلورو میں شری شری روی شنکر سے ملاقات کے بعد کہاتھا کہ بابری مسجد کی جگہ بہت پہلے سے مندر بناہوا ہے۔وہاں مورتی رکھی ہوئی ہے او رپوجا پاٹ ہورہا ہے۔

انہوں نے اس مسئلہ کا بات چیت کے ذریعہ حل نکالنے پر زوردیتے ہوئے کہاکہ بابری مسجد کی جو زمین ہے اس کے بد لے فیض آباد او رلکھنو کے درمیان سڑک کے کنارے کہیں پر زمین دے دی جائے جہاں مسجد بنے اور یونیورسٹی بھی بنائی جاسکے۔البتہ اجلاس شروع ہونے سے قبل ال انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے جنرل سکریٹری ولی رحمانی نے انقلاب کے ساتھ ایک خصوصی بات چیت میں کہاکہ بابری مسجد کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور وہی اس کے مقدمہ کا فیصلہ کرے گا۔

بورڈ کے ایک ممبر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر میڈیا کو بتایا کہ بورڈ کے بیشتر اراکین مولانا سلمان ندوی کے اس فارمولہ کہ نہ صرف مخالف تھے بلکہ ان کا اصرار تھا کہ آج ہی اس اجلاس میں ان کے خلاف ایکشن لیاجائے مگر بورڈ نے ان کے خلاف ایکشن لینے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو بابری مسجد کے معاملے میں مولانا اور شری شری کے فارمولے پر غور کرکے رپورٹ بورڈ کو پیش کرے گی پھر اس پر بورڈ ایکشن لے گا۔

اس سلسلے میں آج تک کے رپورٹر نے جب مولانا ندوی سے یہ جاننے کی کوشش کی آپ شر ی شری کی میٹنگ میں کس کے کہنے پر شریک ہوئے تھے تو انہوں نے کہاکہ یہ میرا ذاتی فیصلہ تھا۔ مولانا رحمانی نے بات چیت کے ذریعہ مسئلہ کے حل کے سوال پر سوالیہ لہجہ میں کہاکہ’کتنی مرتبہ بات چیت ہوگی۔ اس کے حل کے لئے گیارہ بار بات چیت ہوچکی ہے ۔

اب کوئی بات چیت نہیں ہوگی ۔عدالت جو فیصلہ کرے گی وہی قابل قبول ہوگا۔ مولانا ولی رحمانی سے جب پوچھا گیا کہ اس بات کو کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ عدالت کا جو فیصلہ ہوگا ‘ ہم اس کو مانیں گے توانہوں نے کہاکہ اصل میں سوشیل میڈیا اور دوسرے ذرائع سے بارببار اس بات کو اٹھایاجاتا ہے ۔ س کے بعد پھر سوال ہوتا ہے کہ اس معاملے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کا کیا موقف ہے۔

اس لیے عوام کو بتانے کے لئے یہ کہنے کی ضرورت ہوجاتی ہے۔ واضح ہوکہ مولانا سلمان ندوی نے بابری مسجد کا قضیہ بات چیت کے ذریعہ سلجھانے پر زوردیتے ہوئے کہاہے کہ ہر چیز ہوسکتی ہے اگر صحیح طور پر غور کیاجائے اور طئے ہوکہ ہم لوگ آپس میں مل کر تعاون کرکے حل نکالیں گے۔ آئندہ کوئی فساد نہیں ہونے دیں گے۔ بابری مسجد کے ساتھ جو ہوا وہ کسی دوسری مسجد کسی درگاہ یاقبرستان کے ساتھ ویسا نہیں ہونے دیں گے۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے تو مانگ کی ہے کہ سنی وقف بورڈ کی زمین کے بدلے فیض آباد او رلکھنو کے درمیان سرک کے کنارے زمین دی جائے جہاں مسجد بنے ۔ یونیورسٹی بھی بن جائے ۔ مسلمانوں میں تعلیم کی بڑی کمی ہے