حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واضح طریقہ سے سامنے آتی ہے کہ اجودھیا میں بابری مسجد کے قیام کے بعد کے شروع دور میں ہندوؤں کے نزدیک بھی وہ جائز تعمیر کردہ سمجھی جاتی رہی ہے، یہ انگریزوں کی حکومت کا عہد تھا ، یہ بات ہلکے انداز میں رہی ، بتدریج متعصب ذہن کے ہندوؤں نے مسجد کی جگہ کو اولاً اپنے مدہبی پیشوا رام چندر کی پیدائش کی جگہ قرار دینا شروع کیا لیکن ان کی اس کوشش کو کوئی سنجیدہ دلیل نہیں مل سکی تو انہوں نے جبر اور متعصبانہ طریقہ اختیار کیا اور اس کے لئے فرقہ وارانہ ماحول بنانا شروع کیا اور اس خیال کو ہندوؤں میں خوب پھیلایا گیا، اس سے بابری مسجد ہندو مسلم نزاع کا ذریعہ بن گئی۔
ہندوستان آزاد ہوجانے پر حکومتی اور عدالتی سطح پر یہ مسئلہ بآسانی حل کیا جساکتا تھا اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے اس وقت کے وزیراعظم کو اس مسئلہ کو زیادہ گرم ہوجانے اور سیاسی اور سخت متعصبانہ مسئلہ بن جانے سے قبل ہی حل کرنے کا مشورہ دیا، انہوں نے توجہ دینے کا وعدہ کیا ، لیکن حکومت کی بے توجہی بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ذمہ داران حکومت کی جانبداری کا انداز رہا اور مسئلہ ہندو مسلم کشمکش کا بنتا چلا گیا، اس کو حکومتی یا قانونی سطح پر حل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ، نتیجۃً ہندو طاقتیں اس مسئلہ کو لے کر مسجد کی طرف بری نیت سے بڑھیں اور دہشت گردانہ طریقہ سے مسجد کو م نہدم کر دیا، عدالت اور حکومت اور دانشور طبقہ نے کوئی خاص توجہ نہیں دی ، بابری مسجد کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہندو حضرات بھی شروع میں اس کو مسجد ہی سمجھتے رہے ہیںاور رام چندر کی پیدائش کی جگہ مسجد کو قرار نہیں دیتے تھے اور کھدائی کے بعد بھی کوئی اس کی علامت نہیں ملی کہ وہاں کوئی ہندوؤں کی مقدس جگہ رہی ہو، اس کے باوجود متعصبانہ ذہن کے افراد نے متعصبانہ ذہن سے اس کو رام چندر کی پیدائشی جگہ قرار دے کر مسجد کے بجائے مندر قرار دینے کا طریقہ اختیار کیا ، اس کی وجہ سے بلا تحقیق یہ بات کہی جانے لگی کہ یہ ہندوؤں کی مقدس جگہ ہے اور یہاں مندر بنایا جانا چاہئے بلکہ وہاں زبردستی مندر بنا بھی دیا گیا ، اس موضوع پر متعدد مسلمان دانشورں نے تاریخی ثبوت پیش کئے ہں، جن سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس جگہ سے رام چندر کا تعلق نہیں رہا، بلکہ معروف اور اصل اجودھیا بھی اس کو کہنا مشکل ہے، یعنی وہ شہر جس کا رام چندر سے تعلق تھا ، بعض دوسری دو جگہوں کی طرف بھی اس کی نسبت کی جاتی ہے ، اصل بات کو واضح کرنے کیلئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اسسٹنٹ جنرل سکرے ٹری اور صدر مجلس ت عمیر ملت حیدرآباد جناب محمد عبدالرحیم قریشی نے اس سلسلہ کے تاریخی حقائق کو جمع کیا ہے، جس سے یہ بات پوری طرح سامنے آجاتی ہے کہ اس مسئلہ کو مذہبی جذبات کی بنیاد پر اپنی پسند کا مسئلہ بناکر جھگڑے کا مسئلہ بنادیا گیا اور ملک کے پرامن مذہبی مزاج کو بگاڑ کر اس مختلف مذاہب والے ملک میں آپسی ٹکراؤ کا ذریعہ بنادیا گیا ، یہ بات حکومت کے دانشور ذمہ داروں کے سمجھنے کی ہے، اس میں انصاف کا رویہ اختیار کیا جائے تو ملک کے پرامن ماحول کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی ، اس لئے دانشور طبقہ کو اس کی طرف توجہ کرنا چاہئے، یہ کتاب تاریخی و تحقیقی انداز میں تیار کرنے پر بابری مسجد کے تعلق سے ایک دستاویز کی حیثیت کی حامل ہوگئی ہے ۔ محترم قریشی صاحب ایک اعلیٰ سطح کے قانون داں اور علم و تحقیق کے بھی فرد ہیں، انہوں نے اس مسئلہ کی تار یخ پوری احتیاط کے ساتھ برے علمی انداز میں پیش کیا ہے، قریشی صاحب کی اس پیشکش کو ہم بہت مفید اور اہم سمجھتے ہیں، امید ہے کہ اس سے مسئلہ کو سمجھنے میں پوری مدد ملے گی۔
ملنے کا پتہ
مرکزی دفتر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
76 A/1, Main Market, Okhla Village, Jamia Nagar, New Delhi-110025
Ph:011-26322991
E-mail:aimplboard@gmail.com
www.aimplboard.in