بابری مسجد تنازعہ اور ہاشم انصاری کی مقدمہ سے دست کشی

بھارت بھوشن
رام جنم بھومی ۔بابری مسجد تنازعہ کے کلیدی مدعی ہاشم انصاری نے کہا ہے کہ اب وہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی طرف سے یا کسی کی بھی جانب سے عدالت میں رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ کا کیس نہیں لڑیں گے ۔ غور طلب ہے کہ ہاشم انصاری ان کچھ زندہ لوگوں میں سے ایک ہیں ، جو گزشتہ 60 برسوں سے اس تنازعہ کے قانونی الجھن کا شکار ہوئے ہیں ۔ ہاشم انصاری کا کہنا ہے کہ وہ رام جنم بھومی بابری مسجد کو لے کر سیاستدانوں کی سیاست سے رنجیدہ ہیں ۔ ان کے مطابق دونوں ہی قوم کے قائدین اس تنازعہ کو اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے میں استعمال کررہے ہیں ۔ اس لئے معاملہ دہائیوں سے جوں کا توں پڑا ہوا ہے ۔ انھوں نے یہ بھی ریمارک کیا کہ انھیں یہ دیکھ کر بیحد خوشی ہوتی ہے کہ رام للا تو ترپال کے اندر قید ہیں ، جبکہ ان کے نام کی سیاست کرنے والے لوگ محلوں میں عیش کررہے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ضعیف العمر مدعی کی بیزارگی ہو ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اس لمبے وقت تک قانونی لڑائی لڑنے والے کی تقلیب قلب ہو یا پھر واقعی اس ریمارک کے ذریعہ وہ کچھ سیاست ، کچھ ہمدردی میں اہمیت حاصل کرنا چاہتے ہوں۔ وجہ کچھ بھی ہو لیکن یہ ایشو ایک بڑا ایشو ہے اور گہرائی سے دیکھیں تو یہ ایک ایسا ایشو ہے جس کے ذریعہ آزادی کے بعد ہندوستان کے مسلمان ایک ایسی شاندار تاریخ لکھ سکتے ہیں جس کی مثال آئندہ صدیوں تک دی جائے گی ۔ دوسری طرف ملک کی اکثریت بھی اس معاملے میں آگے بڑھ کر فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہوئے اس مسئلہ کا حل نکال سکتی ہے ۔

ہاشم انصاری کے بارے میں بھلے الگ الگ طرح کے بیانات میڈیا میں آئیں ۔الگ الگ انداز سے تجزیہ نگار اس کا تجزیہ کریں ، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ لمبی قانونی لڑائی لڑنے والے اس مدعی نے ایک ایسی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے ، جس کے علاوہ اور کوئی چارہ ہی نہیں ہے ۔ پورے ہندوستان میں سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں ایسی جگہیں ہیں ، جن کے بارے میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان اپنے اپنے سچ ہیں اور اپنے اپنے تنازعات ۔ یہ سچ یا تنازعہ دہائیوں نہیں بلکہ صدیوں سے قائم ہیں اور ایمانداری سے دل بڑا کرکے ان تنازعات کو نمٹانے کی پہل نہیں کی گئی اور نہ ہی عزم مصمم کا اظہار کیا گیا تو اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ جلد ہی ملک کے دو بڑے طبقات کے درمیان دہائیوں سے قائم دوری اور شکوک و شبہات پر مبنی سوچ ہمیشہ موجود رہے گی ۔ بابری مسجد تنازعہ بھلے ان تمام لوگوں کے لئے خوفناک موضوع ہو جنہوں نے اس کی وجہ سے اپنے بیحد قریبی لوگوں کو گنوادیا ۔ اس کے متنازعہ مقام اور بابری مسجد کی شہادت کی وجہ سے اب تک سیکڑوں لوگ اپنی جانیں گنواچکے ہیں ۔ اربوں ، کھربوں کی املاک کا نقصان ہوچکا ہے ، لیکن آج بھی معاملہ جوںکا توں ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ہاشم انصاری کسی چال یا سچ مچ جذبات کی رو میں بہہ کر یہ کہتے ہوئے سامنے آئے ہوں کہ وہ اب مقدمہ نہیں لڑیں گے اور ایودھیا میں مندر بنتے دیکھنا چاہیں گے ۔ لیکن سچائی یہی ہے کہ ایودھیا میں رام مندر ، متھرا میں کرشن مندر اور کاشی میں شیو مندر کے مسئلہ پر جس طرح دو قوموں میں لگاتار تناؤ پایا جاتا ہے ،اس کا سب سے بڑا حل ہندوستان کے مسلمانوں کی اجتماعی وسیع القلبی سے ہی نکلے گا۔ بھلے ہی عدالت کتنا ہی وقت لے لے ، لیکن جذباتی ایشوز کا کبھی ایسا حل نہیں نکل سکتا جو دونوں ہی قوموں کو سو فیصد پسند آجائے ۔ اور دونوں ہی قومیں خوش رہ سکیں ۔مسلمانوں کے پاس اس پورے پہلو کو دیکھتے ہوئے ایسا موقع ہے کہ وہ ماسٹر اسٹروک مار سکتے ہیں اور تاریخ کو بونا ثابت کرسکتے ہیں ۔ لیکن یہ موقع ہندوؤں کے پاس بھی ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں مندر اور مسجد سے متعلق تقریباً 500 سے زائد متنازعہ مقامات ہیں ۔ ان سب کو دیکھتے ہوئے کچھ ایسی صورت حال بن گئی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں طبقات کے درمیان جھگڑے کبھی ختم نہیں ہوسکتے ۔ بابری مسجد تنازعہ کی ہی بات کریں تو یہ کسی نہ کسی شکل میں 1850 سے جاری ہے اور 1948 سے تو باقاعدہ عصری عدالتوں میں یہ معاملہ معلق ہے ۔ اتنی لمبی لڑائی ہوجانے کے باوجود ابھی بھی اس معاملے میں کوئی حتمی فیصلے کی گھڑی نزدیک آتی دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔ وجہ ظاہر ہے کہ اس معاملے کو حل کرنے سے زیادہ متنازعہ بنائے رکھنے میں زیادہ فائدہ ہے ۔ نتیجتاً سیاسی پارٹیاں نہیں چاہتی ہیں کہ اس معاملے کوحل کرکے اس کی سیاسی افادیت کو ختم کردیا جائے ۔ ایسے میں مسلمانوں کے پاس ایک متبادل موجود ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنا واضح اور حتمی موقف رکھ سکتے ہیں جو دوسرے فریق کے لئے بھی قابل قبول ہو وہیں دوسری طرف یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ملک کی اکثریت سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اپنی وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سلسلے میں اپنی ضد چھوڑ کر آگے بڑھیں اور کوئی ایسا متبادل پیش کریں جو روایت سے ہٹ کر ہو اور جو مسلمانوں کے لئے قابل قبول ہو ۔