غضنفر علی خاں
کہاں تک یاد دلائیں سینکڑوں برس کی تاریخ ہے کہ ہندوستان میں کئی اقوام، کئی زبانیں کئی تہذیبیں آئیں اور اس طرح گھل مل گئیں کہ ہمارے ملک کو مختلف گل ہائے صد رنگی کہا جاتا ہے۔ آج جانے کیا ہوگیا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس ملک کو ایک ہی مذہب ایک ہی کلچر کو حکمرانی ملنے کی بات کہہ رہے ہیں۔ ان فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار کیا مل گیا کہ وہ خود کو ہندوستان کی تقدیر بنانے اور بگاڑنے والی طاقت سمجھنے لگے۔ حال ہی میں خود وزیراعظم مودی نے کہا کہ ہمیں اب کوئی نہیں ہراسکتا۔ حالانکہ یہ بالکل غلط بات ہے، شکست و فتح کی اصطلاح میں صرف وہی لوگ سوچ سکتے ہیں جن کا کوئی تاریخی شعور نہیں ہے۔ وقت اور کسی ملک کی تاریخ ایک تسلسل کا نام ہے ہر دور میں تاریخ انگڑائی لیتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے حکمرانوں کے نام و نشان مٹ جاتے ہیں۔ ابھی ساری جنگ آزادی کو دیکھیے، انگریزوں سے ان کے تسلط سے آزاد ہونے کے لیے ایک ایسے ہندوستان میں جدوجہد ہوتی رہی جس میں کئی عقائد اور کئی مذاہب کے لوگ تھے۔ اس جنگ میں نہ تو کوئی صرف مسلمان تھا اور نہ کوئی ہندو سکھ عیسائی یا پارسی تھا۔ اس افتراق کو انگریزوں کے خلاف لڑنے والے صرف مجاہدان آزادی ہی تھے جو وہ اپنے اپنے عقیدہ پر قائم تھے اور آج بھی قائم ہیں۔ یہاں کسی ایک کے اقتدار پر رہنے کی بات کرنے والے خود یکا و تنہا ہوجاتے ہیں۔ رہا سوال ملک کی تقسیم کا تو اس کا الزام صرف مسلمانوں پر عائد کرنا بھی غلط ہے اور نہ کیا جاسکتا ہے۔ دونوں طرف انتہا پسند لوگ بھی تھے جن کو مذہب کے علاوہ اور کوئی بات کرنی آتی ہی نہ تھی اس کا ثبوت یہ ہے کہ جنگ آزادی کی ابتداء کرنے اور اس کا منطقی طور پر ختم کرنے والے ہمارے ہمہ وقتی قومی رہنما گاندھی جی کا ذہن صاف تھا ان کی خوش بختی یہ تھی کہ انہیں اپنے مقصد کے لیے جان و مال کی قربانی دینے والے مولانا آزاد، پنڈت جواہر لال نہرو اور اس ذہن و فکر ساتھی ملے تھے۔ مسلمانوں نے تقسیم کی ان معنوں میں تائید نہیں کی تھی جن معنوں میں فرقہ پرست آج سوچتے ہیں اگر ملک کی تقسیم کی ہمارے طبقہ نے حمایت کی ہوتی تو مولانا آزاد کو وہاں کی جامعہ مسجد سے یہ تقریر نہیں کرنی پڑتی تھی جو آج ایک اعلی نمونہ ہے۔‘‘ مولانا نے اپنی اس تقریر میں ان مسلمانوں کو مشورہ دیا تھا کہ، کہاں جارہے ہو۔ جامع مسجد کے درودیوار تمہیں آواز دے رہے ہیں کہ ’’تم لوٹ آئو گنگا کی موجیں تمہیں پکارپکار کر کہتی ہیں تم نے اس آب روذ گنگا سے وضو کیا تھا یہیں تم نے اور تمہارے آباو اجداد کیا تھا اور اللہ کے حضور میں سرجھکایا تھا اور ان کے اس حوالے کے بعد اور اس سے پہلے ہی وہ مسلمان جو تقسیم ہند کے قائل نہیں تھے ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دے کر اس سرزمین کو اپنا وطن بنالیا۔ جنہیں جانا تھا وہ چلے گئے اب جو مسلمان ہندوستان میں ہیں وہ اتنے ہی وطن دوست ہیں جتنے کہ ہندو بھائی ہیں۔ ان مسلمانوں پر وطن دشمن کا الزام سراسر غلط ہے۔ انہوںنے ہر میدان میں اپنی قربانیاں دے کر اس ملک کو آباد رکھا۔ ان مسلمانوں سے وطن پرستی پر آج کے یہ اقتدار کے بھوکے قائدین حرف گیری کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے اور اس حرف غلط کے بل بوتے پر انہیں پاکستان چلے جانے کا درس دیتے ہیں۔ اگر انہیں اپنے ہندوستان سے اتنی ہی محبت ہے تو پھر یہ بکواس چھوڑنی پڑے گی۔ آج انہیں سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا کہنے کا کوئی حق نہیں۔ ایک تو یہ کہ ہندوستان کی سرزمین کی صدیوں کی تاریخ کو مسخ کرنے والے اس کو ازسر نو مرتب کرنے کی خواہش کرنے والوں کو دستور ہند اجازت نہیں دیتا۔ اس تنگ نظری کی قیمت ان کو ادا کرنی پڑے گی۔ یہ ترانہ علامہ اقبال کا لکھا ہے۔ وہ بھی ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ جب مسلمانوں کی ہر بات آر ایس ایس کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تو پھر انہیں یہ ترانہ نہیں گانا چاہئے۔ غرض ان وطن دشمن عناصر کو ضرور اپنے دامن میں جھانک کر دیکھنا چاہئے ان ہی لوگوں نے اور اسی تنگ نظری نے ملک کے حصے کئے تھے آج اقتدار حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ خصوصاً ان دنوں جبکہ انتخابات قریب ہی اور اقتدار ان کے پاس ہے وہ زیادہ زور لگارہے ہیں۔ نریندر مودی جی آخر کس بنیاد پر یہ دعوی کررہے ہیں ان کی پارٹی اور ان کے سیاسی آقا آر ایس ایس کو کوئی نہیں ہراسکتا۔ آج کل ملک میں اپوزیشن خاص کر کانگریس پارٹی ان کے دوبارہ اقتدار پر آنے کے راستہ میں رکاوٹ ہے۔ کانگریس کے بعد دوسری سیاسی جماعتیں ایسا اتحاد آپس میں پیدا کرنے میں مصروف ہے جو مجوزہ چنائو بی جے پی کو شکست دے سکتا ہے۔ تمام سکیولر پارٹیوں کے ان ہی کوششوں نے بی جے پی کی نیند حرام کررکھی ہے اور یہی حال وزیراعظم کا بھی ہے۔ اس وقت ہندوستان میں دو طاقتوں میں ایک جنگ چل رہی ہے۔ ایک وہ طاقت ہے جو سکیولرازم اور فراخدلی کے ساتھ ملک پر اپنا اقتدار دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اور دوسری وہ فرقہ پرست طاقت ہے جو محض اپنی حکمرانی اپنے اقتدار کے لیے کسی بھی طرح اقتدار کے حصول کے لیے ہر قابل اعتراض اور خلاف دستور کوشش کررہی ہے۔ آنے والے الیکشن ہی سکیولر ہندوستان اور فرقہ پرست ہندوستان کے لیے گویا زور آزمائی ہونے والی ہے۔ ایک فیصلہ کن مرحلہ ا ٓنے والا ہے جو کوشش ملک کی سکیولر پارٹیاں کررہی ہیں۔ ان میں وہ کتنی کامیاب یا ناکام ہوتی ہیں یہ ثابت کرے گا کہ فرقہ پرستی کا منہ کالا ہوگا۔ لیکن اگر سکیولر طاقتیں اپنے آج کے پیدا کردہ اس باہمی اتحاد کو برقرار رکھتی ہیں تو پھر طاغوتی فرقہ پرست طاقتیں ختم ہوجائیں گی۔ دو مختلف نظریوں کے مابین ایک ایسا مقابلہ ہونے والا ہے جو عظیم ہندوستان کے لیے ایک نئی تاریخ مرتب کرے گا۔ فرقہ پرستی کبھی بھی اور کسی بھی دور میں غلبہ حاصل نہ کرسکیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ سکیولر پارٹیاں کتنی مدت کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھ سکتی ہیں۔ اگر ان پارٹیوں نے اس سچائی کو سمجھ لیا بلکہ ان کے باہمی انتشار نے ہی فرقہ پرستی کو ایک عارضی اقتدار دیا ہے اور یہ کہ ان کا اقتدار قائم نہیں رہ سکتا تو مجوزہ انتخابات ہندوستان کو متحد رہنے کا ایک اور موقع دے گا اور ہندوستان اپنی سیاسی فکر کی حقیقت کو قائم رکھے گا۔