محمد الیاس بھٹکلی ندوی
’’ڈاکٹر صاحب مجھے کان میں درد ہوتا ہے ، کبھی سجدہ میں جانے کے بعد سر بھاری معلوم ہوتا ہے ، سردی زکام کی بھی مجھے پہلے سے شکایت ہے‘‘۔ مریض کی یہ باتیں سن کر ڈاکٹر مریض کو ایکسرے نکالنے کا حکم دیتا ہے ، کچھ دیر بعد رپورٹ دیکھ کر کہتا ہے جناب ۔ آپ کو ناک میں ٹیومر ہوگیا ہے اور یہ کینسر کی علامت ہے ۔ بنگلور میں میرے ایک دوست ڈاکٹر ہیں ان سے آپ مل کر فوراً آپریشن کرایئے ، لیکن یاد رکھئے ! آپ کا آپریشن چہرے کے پاس سے ہوگا ، اس کے لئے ایک آنکھ کی قربانی دینی ہوگی ، اسی راستہ سے اس کی سرجری ممکن ہے ، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں‘‘۔
یہ سننا تھا کہ اس مریض کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ، دل دھڑکنے لگا اور مشکل سے انہوںنے اپنے اوپر قابو پالیا لیکن چونکہ وہ باہمت تھے اور متوکل علی اللہ بھی ،دینی تعلیم سے آراستہ اور عالم باعمل بھی اس لئے دوسرے ڈاکٹر سے رجوع کیا اور اس کویہ رپورٹ دکھائی اور پورا قصہ بھی سنایا ، اس پر اس ڈاکٹر نے کہا مولانا آپ کو کینسر کا دور دور تک نام و نشان نہیں ،آپ کو افاقہ ہوجائے گا ، اطمینان رکھئے ، الحمد للہ کینسر آپ سے کوسوں دور ہے ، وہ ڈاکٹر رپورٹ سمجھ نہیں پائے ہیں ، انشاء اللہ دوا ہی سے آپ کو افاقہ ہوجائے گا ۔
مذکورہ واقعہ خود ہمارے جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے استاذ مولانا عبدالسمیع صاحب آرمار ندوی کے ساتھ پیش آیا تھا ، وہ بھی صرف دو سال پہلے ، اگر وہ اس ڈاکٹر پر بھروسہ کرکے اپنا علاج کراتے تو ایک آنکھ بھی گنواتے اور کینسر کی دوا شروع کرنے پر غیر موجود کینسر بھی ان کو لاحق ہوجاتا ، مولانا تب سے آج تک صحت مند و توانا ہیں الحمدللہ بے فکری سے سارے دینی و سماجی کاموں میں مشغول بھی ، معلوم ہوا کہ کینسر جیسی بڑی بیماری کے لئے ہی نہیں بلکہ چھوٹی موٹی سرجری کے فیصلے سے پہلے بھی دوسرے اور تیسرے ڈاکٹر سے رجوع کرکے ان کی رائے لینی چاہئے ، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ مولانا عبدالسمیع صاحب جیسے کتنے لوگوں نے ان جیسے ڈاکٹروں کی رپورٹ پر بھروسہ کرکے کینسر کا علاج شروع کردیا اور مہلک مرض نہ ہونے کے باوجود صرف کینسر کی دوا کے استعمال نے ان کو اس موذی مرض کے منہ میں پہنچادیا ۔
آٹھ سال پہلے کا واقعہ ہے جو خود میرے ساتھ پیش آیا ، میرے چھوٹے بیٹے علی کی ولادت کا مرحلہ تھا ، اہلیہ داخل ہسپتال ہوئی ، رات کے تین بجے مجھے فون آیا کہ لیڈی ڈاکٹر آپ کو ارجنٹ بلارہی ہے ، میں ڈرتے ڈرتے اور دعا کرتے جب ہسپتال پہنچا تو کہا گیا کہ بچہ کی ولادت سر کے پاس سے ہوتی ہے لیکن آپ کے بچہ کا اس جگہ پیر آگیا ہے ، یہ خطرہ کی گھنٹی ہے ،زچہ اور بچہ دونوں کی جان کو خطرہ ہے ، آپریشن کے بغیر چارہ نہیں ، میری زبان سے اس وقت بے ساختہ اللہ تعالی نے یہ جملہ کہلوایا جب ولادت کا وقت آئے گا تو اللہ تعالی خود اس جگہ پیر کے بجائے سر لائیں گے ، آپ فکر نہ کریں ، ادھر اہلیہ نے بھی اصرار کیا اور ان کی امی نے بھی کہ آپریشن کی اجازت دی جائے ، خطرہ نہ مول لیں لیکن میں اپنی مالی استطاعت کے باوجود اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے آپریشن سے انکار ہی کرتا رہا ، واپس گھر آیا ، دو رکعت صلاۃ الحاجتہ پڑھی ، فجر کی نماز پڑھ کر گھر پہنچا بھی نہیں تھا کہ فون آیا الحمدللہ نارمل ولادت ہوگئی ، میں نے دل میں کہا
میسر ہو اگر ایمان کامل
کہاں کی الجھنیں کیسے مسائل
حفیظ میرٹھی نے شاید پہلے زمانہ کے اللہ والوں کے لئے یہ شعر کہا تھا لیکن اس زمانہ میں تو ایمان کامل نہ ہو کر ہلکا سا ایمان بھی بفضل خداوندی الجھنوں اور مسائل سے چھٹکارا دلاتا ہے ، علی کی ولادت اس کا ایک ہلکا سا مظہر ہے ،مجھے پہلے شبہ تھا لیکن اب یقین ہوگیا کہ سینکڑوں نہیں ہزاروں ولادتیں آپریشن کے ذریعہ ڈاکٹروں کی طرف سے اسی طرح ڈرا ڈرا کر صرف اپنے فائدہ اور مالی منفعت کے لئے کی جاتی ہیں ۔
عام طور پر ڈاکٹروں کی طرف سے ولادت کے لئے جو امکانی تاریخیں بتائی جاتی ہیں ، خواتین ان ہی تاریخوں کو حتمی سمجھ لیتی ہیں ، جب تاریخیں آگے بڑھ جاتی ہیں تو پریشانی شروع ہوجاتی ہے ، ڈاکٹر ڈرانا شروع کردیتے ہیں اور اپنے فائدہ کے لئے آپریشن پر اصرار کرنے لگتے ہیں ۔ بچہ اور زچہ کی جان خطرہ میں بتائی جاتی ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غریب انسان بھی ہاتھ پھیلا کر نہیں بلکہ نہ ملنے پر خواہی نخواہی بینک سے سود پر قرض لینے پر مجبور ہوجاتا ہے ، پھر بے رحم ڈاکٹروں اور ہسپتال والوں کی طرف سے اس کو اتنا بڑا بل تھمادیا جاتا ہے کہ بے چارہ باعزت انسان سال بھر کی کمائی سے بھی اس کی بھرپائی نہیں کرپاتا ۔
رحم مادر میں موجودگی کی مدت نو ماہ اوسطاً ہے ، آپ نے دسیوں ایسے واقعات تاریخ میں پڑھے ہوں گے کہ گیارہ ، بارہ ماہ کے حمل کے بعد ولادت ہوئی ، جب اللہ تعالی کی طرف سے اس دنیا میں کسی بچہ کوبھیجے جانے کا فیصلہ ہوتا ہے توایک لمحہ بھی زائد وہ اپنی ماں کے پیٹ میں نہیں گذارسکتا ، درد زہ پر ایک ماں گھر سے ہسپتال گئی بچہ کی اس دنیا میں آمد کا خداوندی فیصلہ ہوچکا تھا ، نتیجہ یہ ہوا کہ راستہ ہی میں رکشہ پر ولادت ہوگئی۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جب مدت حمل مکمل ہوجاتی ہے تو ہم ہی دنیا میں اس کی آمد کے لئے راستہ ہموار کرتے ہیں ۔ ثم السبیل یسرہ ۔
گزشتہ ماہ کاواقعہ ہے ، ہمارے جامعہ اسلامیہ کے قدیم ترین ملازم چوکیدار ہاشم صاحب کی بیٹی کے یہاں ولادت ہوئی ، ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا تھاکہ بچی مکمل صحت مند نہیں ،اس لئے اس کو بڑے ہسپتال لے جائیں ، وہ بیچارہ منی پال ہسپتال لے گیا ، وہاں اس سے کہا گیا کہ اس کو I.C.U میں رکھنا ہے ، اس نے صاف کہہ دیا کہ میری استطاعت نہیں لیکن اس کے انکار کے باوجود زبردستی اس کو آئی سی یو میں داخل کیا گیا ، وہ دو تین دن تک برابر ڈاکٹروں سے پوچھتا رہا کہ بچی کو افاقہ ہے یا نہیں ، جواب ملا کہ افاقہ نہیں ، اس نے کہا پھر میں بچی کو واپس گھر لے جاتا ہوں ، مزید رکھنے کی مجھ میں استطاعت نہیں ، لیکن وہ نہیں مانے ، بارہ دن مسلسل آئی سی یو میں رکھ کر لاش اس کے حوالہ کی اور کہا پہلے 95 ہزار روپئے کا بل ادا کریں ،ورنہ لاش بھی نہیں ملے گی ، وہ غریب کہاں سے لاتا ، اس نے مہلت مانگی ، تخفیف کی گذارش کی لیکن صاف انکار کیا گیا ، وہ بے چار چھ سات ہزار ماہانہ تنخواہ پانے والا کسی طرح رقم جمع کرکے بچی کی لاش گھر لے آیا ، لیکن ان بے رحم ہسپتال والوں اور ڈاکٹروں نے ذرا بھی اس پر ترس نہیں کھایا ۔
کچھ دنوں پہلے کی بات ہے ، جامعہ ہی کے ایک استاذ مولانا انصار صاحب ندوی کی اہلیہ گھر میں گرگئیں ، ڈاکٹر کو دکھایا گیا ، اسے فریکچر کہہ کر پلاسٹر چڑھادیا گیا ، دو چار روز تک مسلسل درد برداشت سے باہر ہوا تو مولانا نے منگلور لے جا کر دوسرے ڈاکٹر کو دکھایا ،اس نے دیکھتے ہی کہا کہ کس نے بتایا کہ فریکچر ہے ، ہاتھ ہر طرح سے سلامت ہے ، غلط پلاسٹر چڑھایا گیا ہے ، یہ کہہ کر پلاسٹر اتار دیا ۔
ہمارے ایک دوست نے چند ماہ قبل اپنی والدہ کو علاج کے لئے اسپتال میں داخل کیا ، خون ، پیشاب اور ایکسرے وغیرہ کی تمام جانچ ہوئی ، افاقہ نہ ہونے پر اسی رپورٹ کے ساتھ وہ بڑے اسپتال گئے ، تازہ رپورٹ ساتھ میں ہونے کے باوجود وہاں یہ سب جانچ پھر کئی ہزار روپئے دے کر دوبارہ کرائی گئی ، پھر ایک مہنگا انجکشن ڈاکٹر نے تجویز کیا ، چار ہزار قیمت بتائی ، اس نے کہا کہ آپ پرچی لکھ کر دیں ، میں دوسری جگہ سے خرید کر لاتا ہوں ، باہر سے وہی انجکشن 2800 روپئے میں وہ لے آئے ، بالفاظ دیگر 30 فیصد زیادہ قیمت وصول کررہے تھے۔
ہمارے جامعہ کے استاذ حدیث مولانا خواجہ صاحب ندوی کی والدہ کی آنکھ میں تکلیف تھی ،ڈاکٹر کو دکھایا گیا ، اس نے آپریشن کی رائے دی ،پوچھنے پر اس کا خرچ بھی بتادیا ، مولانا کچھ دنوں بعد جب دوسرے ڈاکٹر کے پاس آپریشن کے لئے والدہ کو لے گئے تو پہلے ڈاکٹر کو اس کا علم ہوا ، اس نے مولانا کو فون کرکے منت سماجت کی کہ میں اس ڈاکٹر سے کم خرچ میں آپریشن کروں گا ، یہ میری مریضہ تھی، آپ کیوں وہاں گئے ،واپس آجایئے میں ہر طرح کی رعایت کروں گا ، علاج یا آپریشن نہ ہو کر مال کی خرید و فروخت کا وہ منظر تھا ، کم قیمت اورعمدہ مال کی فراہمی کے وعدہ کی طرح رعایتی بل پر آپریشن کی پیشکش کسی عوامی بازار کی منظر کشی کررہی تھی۔
یہ اور اس طرح کے دسیوں نہیں سینکڑوں واقعات ہر قاری نے سنے ہوں گے ، پہلے خون ، پیشاب اور ایکسرے کے بغیر ڈاکٹر صرف چہرہ دیکھ کر نبض پر ہاتھ رکھ کر سوفیصدی صحیح تشخیص کرتے تھے ، آج ہزاروں روپیہ خرچ کرنے پر ملنے والی مہنگی رپورٹوں کے بعد بھی ڈاکٹر کو مرض سمجھ میں نہیں آتا ، ایکسرے اور رپورٹ میں صاف بیماری کا پتہ چلنے کے باوجود اپنے کلینک اور اسپتال کی مشینوں کے استعمال کے لئے دوبارہ جانچ کروانا معمول بن گیا ہے ، غرض یہ کہ آج اسپتال غریبوں کی جیب کاٹنے کا ذریعہ بنتے جارہے ہیں ، ان کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ سامنے والا مریض اس مہنگے علاج کی سکت رکھتا ہے یا نہیں ، اس کو تو اپنی مہنگی طبی تعلیم کا خرچ ایک سال کے اندر ہی وصول کرنا ہے ، یہی اس کا مطمح نظر ہے ، ان ناگفتہ بہ حالات میں بھی الحمدللہ کچھ اچھے انسانیت نواز ڈاکٹروں کی کمی نہیں ہے لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے ۔
آج ضرورت ایک طرف اس بات کی ہے کہ طبی شعبوں میں جانے سے پہلے انسانیت اور اخلاق کا درس ان میڈیکل کے طلباء کو دیا جائے ، ان سسکتی ، بلکتی انسانیت کی ضرورتوں اور مجبوریوں کا احساس دلایا جائے اور خدمت خلق اور عامتہ الناس کی ہمدردی کا جذبہ ان کا پیدا کیاجائے ، اگر اس جذبہ کے ساتھ ہم اپنے بچوں کو اس لائن میں تیار کریں گے اور اس میدان میں ہماری نئی نسل اس خلوص کے ساتھ قدم رکھے گی تو ان کا شمار وقت کے اولیاء اللہ کے محبوب ترین بندوں میں ہوگا ۔
دوسری طرف مذکورہ بالا چشم کشا حقائق اور واقعات کی روشنی میں ہمیں پہلے سے زیادہ اہتمام سے اللہ تعالی سے عافیت طلب کرنی چاہئے اور یہ دعا کرنی چاہئے کہ چھوٹی موٹی بیماریوں کے علاج کے لئے اگر ڈاکٹروں کے پاس جانا ناگزیر بھی ہو تو اے اللہ ! تو ہمیں ایسے بے رحم اور سنگدل ڈاکٹروں سے پناہ دے جن کو انسانیت، اخلاق ، مروت اور شرافت سے زیادہ اپنی کمائی عزیز ہے ۔