ایک عجیب و غریب ٹیلی فونی بات چیت

میرا کالم مجتبیٰ حسین
کل رات کے پچھلے پہر فون کی گھنٹی بجی اور میں نے ریسیور اٹھایا تو ایک عجیب و غریب ٹیلی فونی کال سے میرا واسطہ پڑا ۔ مخاطب نے میرا نام لے کر کہا ’’بتاؤ کیسے ہو ۔ کس حال میں ہو؟‘‘ ۔ اپنا حال اسے بتانے سے پہلے عادت کے مطابق میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ دیکھیں دوسری طرف کون بول رہا ہے تاکہ میں اسی کے مطابق اپنا حال بتاسکوں ۔ جس طرح کا شناسا ہو، اسے میں اسی طرح کا حال بتایا کرتا ہوں کیونکہ ہر رشتہ کی نوعیت مختلف ہوتی ہے ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی یونہی رسماً میرا حال پوچھ لے اور میں اسے اپنا اصلی اور کھرا کھرا حال سنانے بیٹھ جاؤں ۔ بعض لوگ بس یونہی مروتاً کسی کا حال پوچھ لیتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو آپ اپنا سچا حال بتابھی دیں تو آپ کا حال بہتر نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے مزید خراب ہونے کا اندیشہ لگا رہتا ہے ۔

میں نے جب اس کا نام پوچھا تو آواز آئی ’’میں عبداللطیف بول رہا ہوں ، پرانی دہلی کے چتلی قبر والے علاقہ کا تمہارا پرانا دوست‘‘ ۔ عبداللطیف کا نام سنتے ہی میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے کیونکہ اس دنیا میں میرا ایک ہی دوست عبداللطیف تھا اور جس عبداللطیف سے میری بات ہورہی تھی اسے اس دنیا سے گزرے ہوئے چھ مہینے بیت چکے ہیں ۔ عبداللطیف سے میری پچیس برس پرانی دوستی تھی ، وہ خود تو ادیب ، شاعر یا فنکار نہیں تھا لیکن اسے ادیبوں اور شاعروں کی محبت میں رہنے کا شوق تھا ۔ پرانی دہلی میں اس کی کپڑے کی دکان تھی اور جس طرح وہ اپنے دوستوں کی خاطر تواضع کرتا تھا اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس کا کاروبار اچھا چلتا ہے ۔ جب بھی میرے گھر آتا تو خالی ہاتھ نہیں آتا تھا ، کچھ نہ کچھ ضرور لے آتا تھا ۔ کوئی بقرعید ایسی نہیں گزری جب میں دہلی میں موجود ہوں اور وہ قربانی کے بکرے کی سالم ران لے کر میرے پاس نہ آیا ہو ۔ اس کی یہ محبت یک طرفہ تھی ۔ میرے ہر دوست نے کسی نہ کسی مرحلہ پر اپنا کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا کام مجھ سے ضرور کروایا لیکن عبداللطیف نے کبھی کسی کام کے لئے نہیں کہا ۔ جن دنوں میں پابندی سے کافی ہاؤس جایا کرتا تھا عبداللطیف بڑی پابندی سے کافی ہاؤس کے سامنے رسالوں اور اخبارات کے ایک اسٹال پر میرا انتظار کرتا تھا اور جب تک میں وہاں نہ پہنچوں وہ رسالوں کے مطالعہ میں مصروف رہتا تھا ۔ اس بہانے نیوز پیپر اسٹال والے سے بھی اس کی دوستی ہوگئی تھی اور وہ اس کے بیٹھنے کے لئے ایک اسٹول فراہم کردیتا تھا تاکہ وہ اطمینان سے اخباروں اور رسالوں کا مطالعہ کرسکے ۔ میرے وہاں پہنچنے کے بعد ہی وہ میرے ساتھ کافی ہاؤس میں داخل ہوتا تھا اور میرے ساتھ ہی باہر بھی نکلتا تھا ۔ محفل میں وہ ہمیشہ خاموش رہتا تھا البتہ میرے اور میرے دوستوں کے درمیان جو نوک جھونک چلا کرتی تھی اس سے بے حد لطف اندوز ہوا کرتا تھا ۔ یوں میں اس کی محبت کا عادی ہوتا چلا گیا ۔ جب میں نے کافی ہاؤس آنا جانا کم کردیا تو وہ فون کرکے میرے پاس آنے لگا ۔ روز تو خیر نہیں آتا تھا لیکن ہفتہ میں ایک مرتبہ کسی نہ کسی طرح میرے پاس آجاتا تھا ۔ چھ مہینے پہلے جب اس کا انتقال ہوا تو صبح صبح اُس کے بیٹے نے مجھے فون کرکے یہ اندوہناک اطلاع دی کہ ’’ابوّ کا کل رات اچانک انتقال ہوگیا ، آج وہ غالباً آپ سے ملنے والے تھے ، مرنے سے پہلے شدید کرب کے عالم میں بھی انہوں نے مجھے یہ ہدایت دی تھی کہ اگر انہیں کچھ ہوگیا تو آپ کو فوراً اس کی اطلاع دے دی جائے چنانچہ آج دوپہر میں بعد نماز ظہر آئی ٹی او کے قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئے گی‘‘ ۔ اس خبر کو سن کر مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا ۔

عبداللطیف جیسے خاموش ، مخلص اور بے لوث محبت کرنے والے دوست کا اس دنیا سے گزر جانا میرے لئے نہایت تکلیف دہ سانحہ تھا ۔ میری دنیا یوں بھی ان دنوں سکڑتی چلی جارہی ہے ۔ جب بھی کوئی پرانا دوست اس دنیا سے اٹھ جاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے میری سماجی زندگی کا ایک ستون گرگیا ہے ۔ میرے سماجی رشتوں کے ایوان کی موجودہ حالت کم و بیش ویسی ہی ہوگئی ہے جیسے امریکی بم باری کے بعد بغداد شہر کی ہوگئی ہے ۔ ہر عمارت نہ صرف تباہ و تاراج ہوچکی ہے بلکہ اس کے اندر جو سامان تھا وہ بھی لُٹ چکا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ دوستوں کی ر حلت کو برداشت کرنے کی عادت مجھ میں پیدا ہوتی جارہی ہے کیونکہ مشکلیں جب زیادہ پڑتی ہیں تو خود بخود آسان ہوجاتی ہیں ۔ تاہم عبداللطیف کی موت کی خبر سن کر میں بڑی دیر تک چپ چاپ بیٹھا رہا تاکہ میں اپنے اندر اس سانحہ کو برداشت کرنے کی ہمت پیدا کرسکوں ۔ ہمت تو خیر پیدا نہیں ہوئی ، البتہ بے بسی اور بے حسی کی ایک ایسی کیفیت ضرور پیدا ہوئی جسے لوگ غلط فہمی یا ناسمجھی میں ہمت کا نام دے ڈالتے ہیں ۔ کچھ دیر بعد میں نے گھڑی دیکھی تو دس بج رہے تھے ۔ اتفاق سے اس دن مجھے صبح میں دوچار ضروری کام کرنے تھے ۔ میں نے سوچا کہ کچھ کاموں کو ملتوی کردوں اور جو بھی ضروری کام کروں انہیں کچھ اس طرح انجام دوں کہ ظہر کی نماز کے بعد عبداللطیف کی آخری رسومات میں ضرور شرکت کرسکوں ۔ میں نہانے کے لئے باتھ روم میں گیا تو معلوم ہوا کہ پانی نہیں آرہا ہے ۔ ایک رات پہلے شمالی ہندوستان میں بجلی کے گریڈ کے نظام میں خرابی پیدا ہوجانے کے بعد کئی گھنٹوں تک بجلی بند رہی تھی جس کی وجہ سے پانی کی سپلائی میں بھی خلل واقع ہوگیا تھا ۔ میں نہانے اور داڑھی وغیرہ بنانے کے معاملہ میں زیادہ دیر نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ عبداللطیف کی آخری رسومات میں ٹھیک وقت پر شرکت کرنا ضروری تھا ۔ میں نے بحالت مجبوری منرل واٹر کے بیس بیس لیٹر والے دوکنستر ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور سے منگوائے ۔ یہ اور بات ہے کنستروں کے آنے میں بھی آدھے گھنٹے کا وقت ضائع ہوگیا کیونکہ معلوم ہوا کہ ڈپارٹمنٹل اسٹور پر ان کنستروں کو حاصل کرنے والوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے ۔ مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن مجھے عبداللطیف کا ایک جملہ اچانک یاد آیا جو وہ دہلی شہر کی خصوصیت اور مزاج کو ظاہر کرنے کے لئے اکثر استعمال کرتا تھا ۔ عبداللطیف اگرچہ خالص کرخنداری زبان بولتا تھا لیکن اسے پنجابی زبان کا ایک محاورہ ’’کُتّی چیز‘‘ بہت پسند تھا ، چنانچہ دہلی کے بارے میں اکثر کہا کرتا تھا ’’دہلی بڑی کُتّی چیز ہے‘‘ ۔ یہاں کے موسم ، یہاں کے ٹریفک ، یہاں کے حالات ، یہاں کی سیاسی سماجی اور تہذیبی زندگی سے متعلق شخصیتوں کو بھی اسی ’’کُتّی چیز‘‘ کے لقب سے نوازتا تھا ۔

میں جب پچاس روپے کی مالیت کے پانی سے نہانے لگا تو دہلی کے ’’کُتّی چیز‘‘ ہونے کا مجھے یقین آگیا ۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ عرصہ بعد اخباروں میں ایسی خبریں بھی آئیں کہ صاف کیا ہوا یہ پانی بھی پینے کے قابل نہیں ہے بلکہ یہ نہانے کے کام بھی نہیں آسکتا ۔ غرض نہا کر غسل خانے سے نکلنے اور تیار ہو کر گھر سے باہر آنے تک بارہ بج چکے تھے ۔ دھوبی نے بھی کپڑوں پر استری کرنے میں کچھ دیر لگادی تھی ۔ مجھے سب سے پہلے بجلی کا بل جمع کرنا تھا اور اندیشہ تھا کہ اگر اس دن بل جمع نہ ہوا تو وہ بجلی جو پہلے ہی سے بند ہے ، وہ بھی کٹ جائے گی ۔ باہر نکلا تو پتہ چلا کہ آٹو رکشا والوں نے ہڑتال کررکھی ہے ۔ چار و ناچار ایک سائیکل رکشا پر سوار ہو کر بجلی کے دفتر تک گیا ۔ وہاں گیا تو معلوم ہوا کہ بجلی کی خرابی کی وجہ سے کمپیوٹر سسٹم خراب ہوگیا ہے ۔ جب تک کمپیوٹر ٹھیک نہیں ہوگا تب تک بل جمع نہیں ہوسکتا ۔ مجبوراً ایک گھنٹہ تک لائن میں کھڑا رہا ۔ مجھے رہ رہ کر عبداللطیف کا خیال آتا رہا کہ اس کے گھر میں کہرام مچا ہوگا اور یہ کہ اب اس کی میّت کو غسل دیا جارہا ہوگا اور کیا عجب کہ اس مقصد کے لئے بھی منرل واٹر کے کنستر منگوائے گئے ہوں ۔ لعنت ہے اس شہر پر جہاں میّت کو غسل دینے کے لئے بھی منرل واٹر کا سہارا لینا پڑجائے ۔ خیر بجلی کا بل جمع کرکے باہر نکلنے تک ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا تھا ۔ میں نہایت عجلت میں ایک ہڑتالی آٹو رکشا ڈرائیور کے آگے ہاتھ جوڑے ، اسے اپنے ایک عزیز ترین دوست کے مرنے کا حوالہ دیا ۔ بالآخر اس کی سوئی ہوئی انسانیت جاگ اٹھی اور وہ دوگنے کرایہ پر مجھے لے چلنے کے لئے تیار ہوگیا ۔ ہڑتالی آٹو رکشا ڈرائیوروں کی نظریں بچا کر پہلے تو وہ گلیوں میں چلتا رہا ۔ پھر سڑک پر آیا تو ہڑتالیوں نے اس کے پہیوں کی ہوا نکال دی ، مرتا کیا نہ کرتا ، میں نے منت سماجت کرکے قبرستان کے طرف جانے والے ایک موٹر نشین کو روکا اور اس سے لفٹ لے لی ۔ آخرکار جب میں قبرستان میں پہنچا تو اس وقت تک عبداللطیف کی میّت نہ صرف قبر میں اتاری جاچکی تھی بلکہ اس پر مٹی کی آخری تہہ جمائی جارہی تھی ۔ مجھے بے حد دکھ ہوا کہ میں اپنے ایک بے لوث دوست کا آخری دیدار بھی نہ کرسکا ۔ لوگوں نے بتایا کہ دفن کے وقت اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجی ہوئی تھی ۔ میں نے اس کے بچوں کو بادیدۂ نم پرسہ دیا اور چلا آیا ۔کئی دنوں تک عبداللطیف کی شکل میری آنکھوں میں گھومتی رہی ۔ ایمان کی بات تو یہ ہے کہ مجھے آج بھی اس کی آخری رسومات میں بروقت شرکت نہ کرسکنے کا افسوس ہے ۔

مگر کل رات جب عبداللطیف مرحوم کا فون میرے پاس آیا تو میری ندامت اور شرمندگی کا پارہ ساتویں آسمان پر چڑھ گیا ۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ’’عبداللطیف ! میں تم سے بے حد شرمندہ ہوں کہ میں تمہاری آخری رسومات میں شرکت کے لئے اس وقت پہنچا جب تمہاری قبر مٹی سے پاٹ دی گئی تھی اور میں تمہارا آخری دیدار بھی نہ کرسکا ۔ اس بات کا بڑا قلق ہے کہ میں اپنے ایک عزیز ترین دوست کا آخری دیدار بھی نہ کرسکا ۔ تمہارے جانے سے میری زندگی میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہ ہوگا تم جیسا مخلص دوست اب کہاں ملے گا ۔ بہرحال جو ہونا تھا وہ ہوچکا ہے ۔ مشیت ایزدی کو یہی منظور تھا ۔ تم بھی صبر کرو اور میں بھی صبر کرتا ہوں ۔ ان اللہ مع الصابرین‘‘ ۔

میری بات کو سن کر عبداللطیف نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا ’’یار! تم جو بھی بات کرتے ہو نرالی کرتے ہوئے ، مرنے والے کا پُرسہ عموماً اس کے لواحقین کو دیا جاتا ہے اور ان سے صبر کرنے کی تلقین کی جاتی ہے ۔ غالباً تم پہلے آدمی ہو جو مرنے والے کو بالمشافہ پُرسہ دے رہے ہو ۔ میں نے بھی زندگی میں بہت سے پُرسے دئے ہیں ۔ کیا میں نہیں جانتا کہ پُرسہ دینے والے کے دل میں کیا بات ہوتی ہے اور اس کی زبان پر کیا ہوتا ہے ۔ مجھے اس بات کا بالکل دکھ نہیں ہے کہ تم میری آخری رسومات میں بروقت نہیں پہنچے ۔ میں تو ہمیشہ سے ہی کہتا رہا ہوں کہ دہلی بڑی کُتّی چیز ہے ۔ یہاں آدمی نہ تو چین سے زندہ رہ سکتا ہے اور نہ اپنے مرنے کے لئے کسی موزوں وقت کا انتخاب کرسکتا ہے ۔ وہ تو میرا ہی قصور تھا کہ میں نے مرنے کے لئے ایسے دن کا انتخاب کیا ، جب دہلی میں بارہ گھنٹوں سے بجلی غائب تھی اور اوپر سے آٹو رکشا والوں نے بھی ہڑتال کررکھی تھی ۔ اس کے باوجود تمہارا میری آخری رسومات میں آنا ایسا ہی ہے جیسے پہاڑ کو کاٹ کر دودھ کی نہر لانا ۔ بھئی ’لانگ ڈسٹنس کال‘ میں بہت سی باتیں نہیں کہی جاسکتیں ۔ میں پھر کبھی فون کروں گا‘‘ ۔ میں نے کہا ’’یہ تو بتاؤ کہ دوسری دنیا میں تمہارا کیا حال ہے؟ ۔ جنت میں داخل ہوگئے ہو یا جنت کے دروازے پر بیٹھے میرے آنے کا انتظار کررہے ہو جس طرح کافی ہاؤس کے باہر تم میرے آنے کا انتظار کیا کرتے تھے تاکہ میں آجاؤں تو میرے ساتھ کافی ہاؤس میں داخل ہوسکو۔ اور ہاں یہ تو بتاؤ کہ کیا دوسری دنیا میں بھی موبائل فون رکھنے کی سہولت ہے‘‘ ۔ عبداللطیف نے پھر قہقہہ لگا کر کہا ’ بھیا! یہاں تو روحانی فون کی سہولت موجود ہے ۔ میں تم سے بات بھی صرف اس لئے کررہا ہوں کہ تمہارا فون کل سے ڈیڈ ہے ، اگر تمہارا فون اچھا رہتا تو شاید میں تم سے بات نہ کرپاتا‘‘ ۔

عبداللطیف کے اس انکشاف کو سنتے ہی میری نیند اچانک اُچٹ گئی ۔ گھڑی دیکھی تو رات کے تین بج رہے تھے ۔ میں نے فون کا ریسیور اٹھایا تو وہ سچ مچ ڈیڈ تھا ۔ یاد آیا کہ ایک دن پہلے ہی میں نے ٹیلی فون ایکسچینج میں اپنے فون کے ڈیڈ ہونے کی شکایت درج کرائی تھی ۔ اس کے بعد بڑی دیر تک مجھے نیند نہ آئی ۔ اس لئے کہ ایک عرصہ بعد عبداللطیف مرحوم کی محبت سے لبریز باتیں سن کر میں نہال ہوگیا تھا ۔ دوسرے دن صبح صبح میں بطور خاص ٹیلی فون ایکسچینج گیا اور ایک دن پہلے لکھوائی ہوئی اپنی شکایت واپس لے لی ۔ ایکسچینج والوں کو تاکید کی کہ وہ میرا فون ٹھیک نہ کریں بلکہ ڈیڈ ہی رہنے دیں ۔ جب انہوں نے حیرت سے اپنی آنکھیں پھاڑ کر میری اس نامعقول تاکید کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا ’’میرے فون کے ڈیڈ رہنے کی وجہ سے میرے پاس ڈیڈ لوگوں کے یعنی مرحومین کے فون آنے لگے ہیں ، میرے سارے اچھے دوست اب دوسری دنیا میں آباد ہیں ۔ ان سے اتنا ’’لانگ ڈسٹنس رابطہ‘‘ رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ میں اپنے فون کو ڈیڈ رکھوں ۔ یوں بھی میں زندہ لوگوں کے ٹیلی فون کال سے تنگ آچکا ہوں کیونکہ ان کی باتوں میں اب زندگی کم اور مردنی زیادہ پائی جاتی ہے ۔ کیوں نہ میں مردہ لوگوں کی زندہ باتیں سنوں‘‘ ۔ وہ لوگ مجھے حیرت سے دیکھنے لگے تو میں وہاں سے واپس چلا آیا ۔
(ایک پرانی تحریر۔ اگست 2003)