ایک سال میں اردن کے اندر بڑے پیمانے پر مخالف حکومت مظاہرے

اردن ۔ مشرقی وسطی کے سب سے مستحکم ملک میں بڑھائے جانے والی ٹیکس کی شرح سے بے چینی میں اضافہ ہورہاہے اور حکومت کے استعفیٰ پر بڑے پیمانے پر مطالبہ بھی کیاجارہا ہے۔چوتھے دن بھی اتوار کے روز سینکڑوں کی تعداد میں اردن کی عوام سڑکو ں پر اتر ائی ائی ایم ایف سے دستبرداری کا مطالبہ کیاجس کی وجہہ سے مملکت میں بحران پیدا ہوگیا ہے۔

کابینہ کے دفتر کاگھیر اؤکرنے والے احتجاجیو ں نے وزیراعظم ہانی ملکی کی ہٹانے کے نعرے لگائے‘ او رکہا کہ وہ یہا ں سے اس وقت ہی ہٹیں گے جب حکومت اگلے ماہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں موجودہ ٹیکس بل کو منسوخ کرنے پر رضامندی ظاہرکریگی ‘ جس نئے ٹیکس قانون نے لوگوں کے رہن سہن کونشانہ بنایا ہے۔

سرکاری دفتر کے روبرو بڑے پیمانے پر حفاظتی دستوں کو تعینات کیاگیا تھے جن کے درمیان احتجاجیوں نے نعرے لگائے کہ’’ ہم یہاں پر تب تک جب تہ بل کو ہٹانے کی بات نہیں کی جاتی ۔ یہ حکومت شرمناک ہے‘‘۔

وہ لوگوں کہہ رہے تھے کہ ’’ ہمارے مطالبات حق بجانب ہیں۔ بدعنوانی نہیں ہونی چاہئے‘‘ اور زوردیا کہ منفرد فورس کی طرح دیکھے جانے والے کنگ عبداللہ دوم سرکاری عہدیداروں کی گرفت کو ختم کرنے کے لئے مداخلت کریں۔

اتوار کے ابتدائی ساعتوں میں تین ہزار سے زائد لوگوں بھاری سکیورٹی کی موجودگی میں امان میں وزیراعظم کے دفتر روبروجمع ہوئے ‘ جن کے ہاتھوں میں اردن کاپرچم تھا اور ہاتھوں میں پلے کارڈس تھے جن پر لکھا تھا کہ ’’ ہم گھٹنے نہیں ٹیکے گیں‘‘۔ ایک ٹریڈیونین کے اعلان پر ردعمل کے طورپرلوگ امان کی سڑکوں پر جمع ہوئے اور حکومت گرانے کا مطالبہ کیا۔