ایک خط … وطن سے دور بیٹے کے نام

فریدہ راج

مقررہ مدت کے پورے ہوجانے کے بعد کسی نہ کسی بہانے وہیں رہنا چاہتے ۔ کبھی اڈوانس کورس کی خاطر تو کبھی غیر ملک میں نوکری کا تجربہ حاصل کرنے کیلئے ۔ دھیرے دھیرے مہینے ‘ سالوں میں اور سال دہائیوں میں بدل جاتے ہیں یہاں تک ہماری اپنی اولاد ہمارے لئے اجنبی بن جاتی ہے ۔ ہم نہیں جانتے اُن کی پسند ناپسند کو؟ اُن کے دوستوں کو ؟ وہ فرصت کے اوقات کس طرح گذارتے ہیں ؟ غیر ملک میں رہنے کے چیلنجیز کیا ہیں وہ ہم سے کھل کر کچھ نہیں کہتے ۔ صرف اتنا ہی بتانے پر اکتفاء کرتے ہیں جو وہ سمجھتے ہیں ہمارے لئے کافی ہوگا ۔ ہم محض تماشائی بن کر رہ جاتے ہیں ۔ برس دو برس جب وہ مختصر عرصے کے لئے آتے ہیں تو ہم اپنی شکایات کے دفتر پر تالا لگاکر اُن کی آو بھگت میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ ڈر جو ہوتا ہے کہ اگر ہمارا کیا اُن کے مزاج پر گراں گذرے تو کہیں وہ آنا ہی نہ چھوڑ دیں ۔ اس منظر کے پیش نظر ایک باپ کا اپنی اولاد کو لکھا خط حاضر ہے ۔

فجر کی نماز سے فارغ ہو کر میں تمہیں خط لکھ رہا ہوں دراصل گذشتہ چند ماہ سے میرے دل و دماغ میں کشمکش تھی کہ اپنے جذبات و خیالات سے تمہیں آگاہ کروں یا نہیں ۔عموماً جب ہم کسی مدعے کو لے کر پریشان ہوتے ہیں تو فیصلہ کن قدم اُٹھانے کی بجائے یہ سوچ لیتے ہیں کہ وقت ہی ہمارے مسئلہ کا حل نکالے گا اور ہوتا بھی اکثر ایسا ہے کہ مشکل سے مشکل مسئلہ حل ہوتا ہے ۔ لیکن جب معاملہ اپنے خاندان کے ایک اہم فرد ‘ اپنی اولاد کا ہو تو وقت کے بہاؤ کے ساتھ بہنا ممکن نہیں ۔ میں نے ہمیشہ چاہا کہ تم میرے قریب رہو ۔ لیکن ذہنی طور پر نے خود کو اسی حقیقت کا سامنا کرنے کیلئے تیار کرلیا تھا تمہیں اختیار ہے اپنی زندگی کو اپنے طور پر جینے کا اپنی علمی قابلیت کے ذریعہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا ‘ انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کا تمہیں اس بات سے ہرگز انکار نہ ہوگا کہ میں نے مالی طور پر مدد کے علاوہ تمہیں ہر طرح کی آزادی دی کہ تم اپنے فیصلے خود کرو ‘ اپنی قابلیت کے بل بوتے ایجوکیشن حاصل کرو جو مستقبل میں تمہیں ایک ایسے روزگار سے مربوط کرے جو تمہیں کامیابی کی انتہاء پر پہنچا دے اور واقعی تم نے مجھے نااُمید نہیں کیا ۔

دنیاکے مشہور و معروف علمی ادارے سے تم نے سند حاصل کی ۔ لیکن پھر نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ تم وہ روزگار نہ جٹا پائے جسکے تم خواہاں تھے ۔ جس کے تم نے خواب دیکھے تھے اس کے باوجود تم نے چاہا کہ وہیں رہ کر کوشش کرتے رہو ۔ میں نے بادلنخواستہ حامی بھر دی ۔ مجھے تمہاری جدوجہد اور ‘اکیلے پن کا احساس تھا لیکن پھر بھی تمہارا دل رکھنے کے لئے میں خاموش رہا ۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ میں تم سے کہوں واپس لوٹ آؤ ۔ بیٹا زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب ٹھنڈے دماغ سے ہمیں حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ جس منزل مقصودکو پانے کے لئے اپنے وطن اور اپنوں سے دور رہے ‘ جدوجہد کی، پریشان کن حالات اور تنہائیوں کا سامنا کیا ۔ کیا ہم کامیاب رہے ؟ اس خط کو میری عاجزانہ درخواست ہی نہیں بلکہ نصیحت سمجھو ‘ آنے والے ’’کل‘‘ کے واہمے پر اپنے آج کو قربان نہ کرو ۔ حالات سے سمجھوتہ کرو ۔ جو کچھ میں نے یہاں بنایا ہے اُس کو آگے بڑھانے میں میری مدد کرو ۔ یا پھر یہیں رہ کر نوکری کرو ۔ وقت کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ رہ رہ کر یہ خیال ذہن میں اُبھرتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ جب تم اپنی مرضی سے لوٹو تو میں تمہارا اتالیق بننے کے قابل نہ رہوں یہ ایک ایسی ہستی کی دل کی گہرائیوں سے نکلی آواز ہے جو نہ صرف تمہارا والد ہے بلکہ ایک ناصح اور دوست بھی ہے اور جو قطعی طورپر تم سے پیار کرتا ہے ۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ والدین کو ہر ہفتے ایک مقررہ وقت پر ’’سکائیپ‘‘ یا فیس ٹائم پر ایک دوسرے کے چہرے دیکھنے پر اکتفاء کرنا پڑتا ہے ۔ اور اگر کسی وجہ سے وہ مقررہ وقت ضائع ہوگیا تو اور سات دنوں انتظار کرنا پڑتاہے ۔
آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بچے واپس لوٹ کر آنا نہیں چاہتے ۔ کسی نہ کسی بہانے وہیں رہنا چاہتے ہیں ۔ بعض اوقات ان کے پاس نہ تو اچھی نوکری ہوتی ہے اور نہ ہی رہنے کے مناسب ٹھکانے اس کے باوجود وہ چھوٹا موٹا روزگار جٹاتے ہوئے غیر معیاری زندگی گذارتے ہیں ۔ میں نوجواں طبقے کے اس احساس کو سمجھ نہیں پائی ۔ آخر وہ کونسا جذبہ ہے جو انہیں اپنوں سے دور رکھنے میں کامیاب رہتا ہے ‘ آزادی یا من مانی زندگی گذارنا ؟ یا کچھ اور ۔