ایک جانور ہے جو حکومت کو سبنھال رکھا ہے !

محمد غوث علی خاموش
ایک جانور ہے جو حکومت کو سنبھال رکھاہے ، بیشک گائے ہی ہے جس نے فی الوقت حکومت کا ہتھیار بن کر اس کا سہارا بنی ہوئی ہے ۔ ورنہ مرکز کی ناکامیوں کا شور ملک بھر میں جگہ جگہ سنائی دیتا۔ ناکامیوں کے شور کو عوام کے اندر اٹھنے دینے سے روکے رکھنے کیلئے ہی ملک کو گائے کے شور میں الجھا کر رکھا گیا ہے تاکہ ہر جگہ صرف گائے کے تقدس و پامال پر گفتگو ہوسکے، گائے کے تقدس کا اگر خیال ہوتا تو ملک بھر میں اس پر پابندی عائد ہوگئی ہوتی، گائے کہیں ماتا ہے تو کہیں اسے ہر کوئی کھلے عام کھاتاہے ، پورے ملک میں اگر گائے پر پابندی لگادیجائے تو گائے پر سیاست ختم ہوجائے گی جو مرکزی حکومت نہیں چاہتی، حکومت اتنا گھٹیا کھیل کھیل رہی ہے کہ اس کاملک کی تہذیب پر منفی اثر پڑ رہا ہے ۔ ملک کی جنوبی ریاستوں میںمرکز گائے پر پابندی عائد نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اسے وہاں صد فیصد کامیابی نہیں ملے گی۔ اسی لئے گائے کو قومی جانور کے طور پر اعلان کرنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔گائے ملک کی حکومت کی بیساکھی بنی ہوئی ہے جس کے سہارے مرکز اپنا سفر کامیابی سے طئے کرنے کا ارادہ کرچکی ہے ورنہ نوٹ بندی کی ناکامی و غلطی کا حکومت کو غیر معمولی خمیازہ بھگتنا پڑتا ۔ آج بھی اس غلطی کا ملک کی عوام بینک کے سامنے قطاروں میں ٹھہر کر خمیازہ بھگت رہی ہے۔ وزیراعظم کی یہ رایک ایسی خطا ہے جس کی بھرپائی وہ چاہے بھی تو نہیں کرسکتے اور عوام کوایک طویل عرصہ تک اس کی سزا بھگتنی ہے۔ بس اس طرح کے کئی ناکامیوں پر پردہ ڈالے رکھنے کیلئے مرکز نے گائے کے سہارے کو غنیمت سمجھا اور ملک کے کچھ حصوں میں گائے ہتھیار بن چکی ہے ۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ گائے ملک کے کچھ حصوں میں ہی مقدس ہے اور کچھ حصوں میں مقدس نہیں ، یہ تو کھلے عام عوام کے ساتھ فریب ہے جس سے عوام کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے ۔صرف کچھ حصوں میں گائے کی عزت کرنا اسے مقدس ماننا اور ملک کے گوا، منی پور ، آسام ، سکم ، میگھالیہ میں گائے پر پابندی عائد نہ کیا جانا ارزاں سیاست نہیں تو اور کیا ہے ۔ گائے کے نشہ میں انسانی خون بہانا سراسر غنڈہ گردی ہے، سوچی سمجھی سیاست ہے جو آج ہمارے ملک میں اپنا سفر طئے کر رہی ہے ، مرکزی حکومت ترقیاتی کاموں کے ذریعہ اپنے اقتدار کے نقش چھوڑنے کے بجائے حکومت کو اور خود کو مستحکم کرنے کیلئے صرف مذہبی جذبات کا سہارا لے رہی ہے جو ملک کے مستقبل کیلئے ہرگز ٹھیک نہیں۔ مذہبی جذبات کے ذریعہ ملک کبھی ترقی نہیںکرسکتا بلکہ تمام طبقوں کا ساتھ ضروری ہوتا ہے جو شاید مرکزی حکومت کو اور طبقوں کی ضرورت ہی نہیں ہے جس کا ثبوت حکومت نے کئی مرتبہ کھلے عام دے چکی ہے ۔ ملک کی اقلیت سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے ، انہیں خوف کے سایہ میں رکھکر اکثریتی طبقہ کو خوش کرتے ہوئے اپنا سکہ جمائے رکھنا اپنا منشاء بناچکی ہے ۔ ملک کے وزیراعظم جو ایک عظیم سیاح بھی کہلاتے ہیں ائے دن بیرونی ممالک کا دورہ کرتے ہوئے دنیا بھر میں ترقی کے ڈنکے بجانے کا کام کر رہے ہیں، چاہے ملک کے اندر امن و امان برقرار ہویا نہ ہو ، یہ اپنا دورہ جاری رکھتے ہیں، لیکن ملک کے اندر کی بے چینی سے دنیا بخوبی واقف ہے جو برق رفتار ذرائع ابلاغ کے ذریعہ دنیا آج ہر لمحہ کی خبر بہتر رکھتی ہے۔ اقلیتوں پر اپنا دبدبہ بنائے رکھنے کیلئے ہی بی جے پی ملک میں اکثریتی طبقہ کو متحد کرنے مذہبی جذبات کا استعمال کر رہی ہے اور کھلے عام غنڈہ گردی پر اُتر آئی ہے جو ملک کے امن کیلئے طویل خطرہ کی گھنٹی ثابت ہوسکتی ہے ۔ ہمارا ملک جمہوری ملک ہے جہاں بے شمار قوموں کو برابر کے حقوق دیئے گئے ہیں لیکن افسوس کہ ان ہی حقوق میں مرکزی حکومت مذہبی جذبات کا سہارا لیکر دراڑ ڈالنے کی جان توڑ کوشش کررہی ہے ۔

وزیراعظم اور ان کے گاؤ رکھشکوں کو پتہ ہونا چاہئے کہ اوپر والے کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی جس کا بہت جلد انشاء اللہ پتہ چل جائے گا ۔ اب اکثریتی طبقہ کو بھی نظر آرہا ہے کیونکہ نوٹ بندی کا منفی اثر ابھی تک جاری ہے اور طویل وقت تک یہ اثر برقرار رہ سکتا ہے ۔ صرف مذہبی جذبات سے کھلواڑ کرتے اقتدار کو طول نصیب کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے ، عوام بھی اب اس طرح کی حرکات سے واقف ہورہے ہیں جو ملک کی ترقی کیلئے کم اور صرف مقبولیت میںاضافہ کیلئے زیادہ انجام دیئے جارہے ہیں۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ جو روز علی الصبح گاؤ شالہ کے گائیوں کو چارہ کھلاتے ہیں ، اچھی بات ہے، لیکن کیا اچھا ہوتا جو ریاست کے یتیم بچوں کے ساتھ بھی ان کا روزانہ یہی معمول ہوتا ، ان کے ساتھ کچھ وقت گزارتے ، بے سہاروں کو غیر معمولی خوشی ملتی ۔ خیر ! جس کو جہاں سکون ملتا ہے وہ وہاں ضرور جائے۔ بی جے پی کو اترپردیش کی کامیابی نے اندھا بنادیا ہے جس سے یہ ہر روز سیاسی ہتھکنڈے آزمانے میں لگی ہے ۔ 2019 ء کے عام انتخابات میں یہ بھی دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا کیونکہ 2019 ء کے انتخابات میں بی جے پی کو نوٹ بندی اور GST کے زبردست جھٹکے جو لگنا ہے اکثریتی طبقہ کو خوش کرتے ہوئے ملک کو ترقی سے دور رکھنا کمزور حکمرانی کی نشانی ہے ۔ گائے کے نام پر تشدد پر صرف ہمدردی والے بیانات سے کام نہیں چلے گا بلکہ گاؤ رکھشکوں کے نام پر غنڈہ گردی کرنے والوںکے خلاف کارروائی کی جائے اور اس کیلئے قانون سخت بنایا جائے ، تب جاکر ذمہ دار ہاتھوں میں اقتدار ثابت ہوگا ۔ ریاستی حکومتوں کو گاؤ رکھشکوں کے خلاف سخت کارروائی کا وزیراعظم جو مشورہ دے رہے ہیں ، کسی تعجب سے کم نہیں کیونکہ جہاں پر یہ ظلم ہورہا ہے ، وہاں بی جے پی کی ہی سرکار ہے تو پھر کوئی ذمہ دار ،عوام کو گمراہ کرنے والے بیانات وزیراعظم کے جلیل القدر عہدہ کو زیب نہیں دیتے۔ کم از کم اس عہدہ کا لحاظ رکھیں جو بولیں اس پر عمل ہو، ورنہ ایسے بیانات کے لئے ملک کی آبادی کم نہیں ہے ، ملک کے اندرونی حالات سے ملک کمزوری کی سمت تیزی کے ساتھ بڑھ رہا امن کو خطرہ ہے، پھر بھی مرکزی حکومت شورش پر قابو کرنا محسوس نہیں کرتی۔ ملک میں امن مشکوک رہے گا ۔130 کروڑ آبادی والے عظیم ملک میں جانور پر سیاست سے دانشوروں میں تشویش پائی جاتی ہے جس سے انہیں ایسا لگتا ہے کہ ’’ایک جانور ہے جو حکومت کو سنبھال رکھا ہے‘‘۔
کام آئی بھی تو حکومت کو گائے آئی
چارہ ہو جب ختم تو اس کی شامت آئی !