ایک بوند زندگی یا سراپا زندگی

یسین احمد

پچھلے چھ سات ماہ سے میرے دل و دماغ پر ایک بھاری بوجھ سا تھا ۔ یہ بوجھ تھا اس قرض کا جو مجھے بلراج بخشی کو ادا کرنا تھا ۔ میں بلراج بخشی کا مقروض تھا ۔ متعدد بار میں نے سعی کی کہ یہ قرض بے باق کردی جائے ۔ لیکن ناکام رہا ۔ اس کی وجہ کچھ کاہلی تھی ۔ کچھ طبیعت کی ناسازی ، کچھ غم دوراں کی یلغار ، کچھ بلائے ناگہانی کا انبار اور کچھ گھریلو الجھنیں ۔ جب اتنی ساری چیزیں آدمی پر حملہ آور ہوتی ہیں تو اس کا لخت لخت ہوجانا غیر فطری نہیں ۔
اب جب طبیعت قدرے سنبھلی تو ایک بوند زندگی اٹھائی ، قلم اٹھایا لیکن عنوانات پر نظر پڑی تو دل و دماغ جیسے روشن ہوگئے ۔ کوئی ایرے غیرے کی تحریریں ہوتیں تو دوبارہ پڑھنے کا گناہ بھی کرجاتا ۔ لیکن یہ تحریریں بخشی کی تھیں ، بلراج بخشی کی ۔ جو ایک بار آنکھوںسے رشتہ جوڑتی ہیں تو دل میں اتر جاتی ہیں اور دل کے آنگن میں آلتی پالتی مار کر براجمان ہوتی ہیں ۔ ایک افسانہ کا عنوان ’’فیصلہ‘‘ پر نظر جمی تو یاد آیا اس کہانی پر تو میں نے بہت پہلے اپنے خیالات کا اظہار کر بھی دیا تھا جو بزم ادب میں شائع ہوا تھا ۔ بزم ادب کا ذکر چلا تو بے ساختہ ابن اسماعیل بھی یاد آگئے جن کو مرحوم لکھ رہا ہوں تو کلیجہ حلق میں آرہا ہے ۔ کیا بتاؤں ، کتنا مخلص آدمی تھا ۔ رب العالمین ان کے درجات بلند کرے آمین ۔
فیصلہ بلراج بخشی کا دل گداز افسانہ ہے ۔ خوبصورت تحریر ، دلکش منظر نگاری اور دل کو چھولینے والا انداز بیاں ۔ بلاشبہ اپنی نوعیت کا منفرد افسانہ ہے ۔ رانا کا کردار دماغ سے چمٹ جاتا ہے جو نہ صرف انصاف پسند بلکہ رحم دل بھی ہے ۔ دوسری زبانوں کے بعض الٹے سیدھے افسانے ترجمہ کرکے بعض مترجم یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اردو کے قارئین کو شاہکار چیزیں دی ہیں ۔ میری ان سے التجا ہے ’فیصلہ‘ جیسی کہانیوں کو بددیسی زبانوں میں ترجمہ کریں تاکہ فکشن کے شائقین یہ جان سکیں کہ اردو میں بھی غضب کے افسانے لکھے جاتے ہیں‘‘ (بزم ادب شمارہ 10 کشمیر)

بزم ادب سری نگر کے مدیر ابن اسماعیل (مرحوم) نے کہا تھا کہ ’’بلراج بخشی غیر معمولی افسانہ نگار ہیں ان کے بیشتر افسانے ان کے پختہ سیاسی شعور ، غیر معمولی مشاہدے اور ان کی علمی بصیرت سے معمور ہے ، آج جب کہ انسان ظلم و جبر ، ناانصافی ، لوٹ کھسوٹ کی تمام حدیں توڑ چکا ہے، بلراج کے افسانے اس روح فرسا صورت حال کے خلاف ایک موثر آواز ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان کے افسانوں میں کہانی سانس لیتی دکھائی دیتی ہے‘‘ ۔
علی احمد فاطمی اردو کے مقبول نقاد ہیں ۔ وہ ہر کس و ناکس کو گھاس نہیں ڈالتے ۔ جو نظر میں بھرتا ہے اس کو دل میں بٹھالیتے ہیں ۔ بلراج بخشی کے بارے میں لکھتے ہیں ’’بلراج بخشی کی ان کہانیوں کو پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ صرف واقعات نہیں محض situation نہیں بلکہ زندگی کے معاملات ہیں ۔ تجربات اور احساسات ہیں وہ مرحلے ہیں کہ جن سے جہاں کئی رنگارنگی بوقلمونی تو ظاہر ہوتی ہے بوالعجبی بھی کہ انسان کتنی صورتوں میں جیتا اور مرتا ہے ، طاقت دولت کے کیسے کیسے سفاک اور بے رحم روپ ہوتے ہیں‘‘ ۔ فاطمی کی باتیں قابل غور ہیں لیکن صرف طاقت دولت کے روپ سفاک اور بے رحم نہیں ہوتے ، حالات بھی بڑے ستم ظریف ہوتے ہیں ۔ حالات کی ستم ظریفی بلراج بخشی کی ایک کہانی ’مکلاوہ‘ میں اپنے عروج پر ملتی ہے ۔ مکلاوہ میں نے ماہنامہ سب رس میں دیکھی تھی ، عنوان کچھ غیر مانوس تھا اس لئے روانی میں کہانی پڑھی ۔ مکلاوہ یعنی گونا ۔ شادی کے بعد دلہا اپنی دلہن کو گھر لے جاتا ہے ۔ گجندر سنگھ کو اپنی دلہن اور براتیوں کو ساتھ لے کر ایسی راہ سے گذرنا پڑتاہے جو طویل ہے ، دشوار گزر ہے ۔ جہاں پانی کی قلت ہے ۔ ابھی تین گھنٹے کا سفر باقی تھا کہ پانی ختم ہوجاتا ہے ۔ پیاس کی شدت سے نئی نویلی دلہن بدحال ہے ۔ گجندر سنگھ کا ایک مصاحب رفلو ایک انتہائی دشوار گزار سخت اور سنگلاخ پہاڑی سے اتر کر پانی لانے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اوپر ان لوگوں تک پانی پہنچا کر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔ دلہن جو اب تک خاموش تماشائی تھی ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھتی ہے ۔ رفلو کی لاش کے قریب پڑے ایک پتھر پر مار مار کر اپنی کلائیوں میں پڑا سہاگ کا چوڑا توڑنے لگتی ہے اور بین کرتی جاتی ہے ’’ہائے میرا قصم مرگیا ، میں ودھوا ہوگئی ۔ ہائے اس نے میرے لئے جان دے دی ۔ ہائے ہائے‘‘ ۔

بڑی موثر کہانی ہے ۔ بلراج بخشی کی کہانیوں کا یہی کمال ہے ۔ آہستہ آہستہ سبک خرامی سے آگے بڑھتی ہیں اور پھر اچانک قاری کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں ۔ اداکجار فلم ساز راج کپور کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بہترین ایڈیٹنگ کرتے ہیں ۔ اس لئے ان کی تقریباً تمام فلمیں طویل ہونے کے باوجود بھی ہٹ ثابت ہوئی ہیں ۔ اس کی ایک اہم وجہ ایڈیٹنگ تھی وہ تمام مناظر حذف کردئے جاتے جو غیر ضروری ہوتے ۔ فلم دلہن کی طرح بن سنور کر آتی اور ناظرین کو رجھاتی ۔ اگر یہی بات بلراج بخشی کے بارے میں کہوں کہ وہ فکشن کے راج کپور ہیں تو غلط نہ ہوگا ۔ بخشی کی کہانیاں غیر ضروری جزویات سے مبرا ہوتی ہیں ۔ فقرے ،کردار اور واقعات ایسے نہیں ہوتے جس کے متعلق یہ کہہ سکیں کہ یہ چیزیں فضول ہیں ، بھرتی کی ہیں ۔ ہاں ان کی ایک دو کہانیوں میں وضاحتی بیانات پڑھنے کو ملتے ہیں جو غیر ضروری ہیں ۔ ممکن ہے کہ یہ وضاحتی فقرے بخشی نے قارئین کی رہنمائی کے لئے تحریر کئے ہوں ۔ لیکن آج کا قاری تخلیق کار سے کہیں زیادہ ذہن اور دور اندیش ہے ۔ قاری کو انگلی پکڑ کرچلانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔اس افسانوی مجموعہ ’’ایک بوند زندگی میں‘‘ 12 افسانے شامل ہیں ۔ ڈاکٹر مولا بخش نے لکھا ہے کہ ایک بوند زندگی 1978 ء میں ماہنامہ تحریک (دہلی) میں شائع ہوئی تھی ۔ یہ وہ دور تھا جب علامتی کہانیوں کا بول بالا تھا ۔ اپنے گرد و پیش کے حالات سے متاثر ہو کر بخشی نے بھی یہ کہانی لکھی ہوگی ۔ ایک طویل وقفہ کے بعد پچھلے چار پانچ سالوں میں بخشی کی جو کہانیاں سبق اردو بزم ادب ، انشاء سب رس وغیرہ میں شائع ہوتی ہیں ان کے تیور ایک بوند زندگی سے یکسر مختلف ہیں ۔ ایک بوند زندگی پر علی احمد فاطمی کی رائے ملاحظہ فرمائیں ۔ ایک بوند زندگی نہایت رومانی عنوان لیکن کہانی انتہائی غیر رومانی ۔ زندگی کی خواہشیں ، تھکن اور فرار سے بھری کیفیت ایک بے نام سی حقیقت ہے ۔ جسے رومان تو کہا جاسکتاہے لیکن ارادے کی مضبوطی ، آنکھوں کی چمک اور زندگی کی حرارت اور حرکت سے مالا مال بھی کئے ہوئے ہیں ۔ فاطمی عقابی نگاہ رکھتے ہیں ، کہانیوں کی تہہ تک اتر جاتے ہیں وہاں جو موتی بکھرے رہتے ہیں اٹھالاتے ہیں ۔ ان کی گفتگو سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا تاہم بادی النظر میں ایک بوند زندگی اتنی اچھی کہانی نہیں جتنی بعد کی کہانیاں ہیں۔

اس کتاب میں شامل ایک اور اہم افسانہ ہے ’’ڈیتھ سرٹیفیکٹ‘‘ ۔ برتھ سرٹیفیکٹ ، میریج سرٹیفیکٹ ، پاسپورٹ ، راشن کارڈ اور اب آدھار کارڈ یہ وہ اہم دستاویزات ہیں ۔ جس کے بعد ایک عام شہری کی زندگی دشواریوں کا شکار ہوسکتی ہے ۔ لیکن اس سرٹیفیکٹس کے حصول کے لئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ سرکاری محکموں کے نظام میں جو ابتری پھیلی رہتی ہے وہ اظہر من الشمس ہے ۔ اس کہانی کے بارے میں مشتاق صدف کا کہنا بجا ہے کہ یہ کہانی ہمارے اقتداری نظام کے اصول ، ضوابط پر بھی ایک بڑا طنز ہے ۔
1995-96 کے دہوں کی بات ہے ، اردو ناول کے سلسلے میں ایک نام بہت مقبول تھا اور وہ نام تھا دت بھارتی ہے (ہم نے اس ناول نگار کو پاپلر لٹریچر کے صندوق میں رکھ کر بھلادیا ہے) ۔ دت بھارتی نے کہا تھا کہ لوگ مجھ کو پڑھتے نہیں اور گالیاں دیتے ہیں ۔ ٹھیک یہی بات ہمارے نامی گرامی ناقدین سے کہوں گا کہ آپ نئے افسانہ نگاروں کو پڑھتے نہیں آپ کے مطالعہ کی میز پر چند محدود مخصوص لکھاریوں کی کتابوں کے انبار لگے رہتے ہیں جہاں سے آپ کی نظریں ہٹتی نہیں اس لئے کہتے ہیں اردو میں اچھے افسانے نہیں لکھے جارہے ہیں ۔ میں چاہوں گا کہ بلراج بخشی کی کہانیوں کو ہمارے ناقدین چکھے اور بتائیں کہ ان کہانیوں کا ذائقہ کیسا ہے ۔ مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ریسرچ اسکالرس سے بھی درخواست ہے کہ اردو افسانہ کرشن چندر ، سعادت حسن منٹو ، بیدی ، قرۃ العین حیدر ، پریم چند ، رام لعل اور عصمت چغتائی پر ختم نہیں ہوجاتا ۔ ان افسانہ نگاروں کی دس کتابیں پڑھ کر ایک مضمون لکھنے سے بہتر ہے کہ نئے افسانہ نگاروں کے دس افسانے پڑھ کر ایک مضمون لکھیں ۔ یہی مضمون ان کے درخشاں مستقبل کی ضمانت دے گا ، امرت ثابت ہوگا (یہاں یہ ذکرکچھ بے محل ضرور لگتا ہے لیکن ضروری باتیں جب موقع ملے کہہ دینا چاہئے)ایک بوند زندگی میں اور بھی کہانیاں ہیں جیسے مشترکہ اعلامیہ ، مکتی ، کیا نہیں ہوسکتا ، گرفتار ، کھانسی ایک شام کی ، ہارا ہوا مجاز اور چور ۔ ان سب کہانیوں میں بلراج بخشی کے قلم نے تخلیقی بصیرت کے عمدہ نمونے پیش کئے ہیں ۔ تبصروں میں ہر چیز پر تحریر کرنا مشکل ہوجاتا ہے اس لئے نند کشور وکرم کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے اپنی ختم کرتا ہوں کہ ’’بخشی کی تحریروں میں تلخی بھی ہے اور ترشی بھی اور وہ اپنے طنز سے اپنی تحریروں کو بہت ہی دلکش اور دل پذیر بنادیتے ہیں‘‘ ۔
میرا خیال ہے بلراج بخشی کا تخلیقی کارنامہ زندگی کی ایک بوند نہیں سراپا زندگی ہے ۔