غضنفر علی خاں
معصوم بچیوں کی آبرو ریزی اور بعد میں ان کے گھناؤنی انداز میں قتل کے واقعات جس تسلسل اور تواتر کے ساتھ پچھلے چند ہفتوں میں رونما ہوئے اس نے حکومت کے سوئے ہوئے ضمیر کو بھی آخرکار جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور مودی حکومت کی مرکزی کابینہ نے ایک آر ڈی ننس مدون کیا جس کو حسب قاعدہ صدر جمہوریہ ہند نے بھی فوراً منظوری عطا کردی۔ اس قانون کے تحت نابالغ لڑکیوں کے ساتھ زنا بالجبر کرنے والے شیطانی ملزم کو سزائے موت کی بھی گنجائش فراہم کی گئی ہے ۔ کسی بھی ایسے دلخراش واقعہ کی چھان بین کیلئے فاسٹ ٹریک عدالتیں بھی کام کریں گی جو ایک معینہ مدت میں اپنی تحقیقات کرے گی ۔ اس جرم سیاہ کے مرتکبین کو نئے قانون کے تحت ضمانت بھی نہیں مل سکے گی ۔ اس نئے قانون کی بظاہر افادیت سے کسی کو بھی اختلاف نہیں ہوسکتا ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ، آرڈیننس کی کسی بھی گوشے سے مخالفت نہیں ہوئی۔ البتہ یہ سوال ماہرینے قانون اور اہل فکر افراد نے ضرور اٹھایا کہ کیسے اس قانون کا نفاذ اور بھی موثر انداز میں ہوگا کیونکہ 2016 ء میں نربھئے قانون کی تدوین کے باوجود جس میں لڑکیوں سے زیادتی کرنے والے ان سے اپنا منہ کالا کرنے والوں کو موت کی سزا کی گنجائش فراہم کی گئی تھی ۔ یہ قانون آج بھی نافذ العمل ہے لیکن خواتین ، لڑکیوں اور اب تو معصوم بچیوں کی آبروریزی اور قتل کی وارداتیں ہورہی ہیں۔ نربھئے قانون کے نفاذ کے بعد سینکڑوں زنا بالجبر کے واقعات ہوئے۔ ایسی وارداتوں میں ایک لحاظ سے اضافہ ہی ہوا ۔ تو یہ سوال ضرور جواب طلب ہے کہ کیوں قانون کی تدوین اور نفاذ کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں قانون میں سزائے موت کی گنجائش ہونے کے باوجود گنہگار ایسی جسارت کیا کرتے ہیں۔ کیا ان کے دل سے قانون اور اپنی ہی موت کا خوف ختم ہوگیا ہے یا پھر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں ، قانونی داؤ پیج ، ہمارے عدلیہ میں تعزیراتی جرم اور انصاف کا تجربہ ہی ناکام ہوگیا ہے اور یہی صورتحال رہی تو آئندہ کی خیر نہیں۔ اب جو آرڈیننس لایا گیا ہے کیا ضروری ہے کہ اس پر پورا پورا عمل ہوگا۔ کیا قانونی داؤ پیج اور عدلیہ کی اب کوئی گنجائش نہیں رہی ۔ کیا کریمنل جسٹس کا نظام اس قانون سے بدل جائے گا ۔ ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا تو کیا ہماری معصوم بچیاں یونہی ظلم و استبداد کی بدستور شکار رہیں گی ۔ خدانخواستہ ایسا ہو تو پھر نئے قانون کی افادیت ہی ختم ہوجائے گی ۔ آج کیوں ملک کی آزادی کے بعد ہمارے ملک میں جرائم کا گراف اتنا بڑھ گیا ہے کہ ہم آزاد ہندوستان پر فخر کرنے والوں کا نام بعض مخصوص جرائم کے واقعات میں سرفہرست ہوگیا ہے ۔ کیوں آج ایسے جرائم کے وقوع پذیر ہونے کے چند دنوں یا چند ہفتوں تک میڈیا میں کھلبلی ہوتی ہے اور پھر ایک عرصہ تک بے حسی چھا جاتی ہے ۔ میڈیا کی بات نہیں سارے ہندوستانی سماج پر ایک تکلیف دہ خاموشی چھا جاتی ہے اور کچھ دن بعد واقعہ ہی کو فراموش کردیا جاتا ہے ۔ گویا سارے ہندوستانی معاشرہ نے اس ظلم و زیادتی کو خاموشی سے برداشت کرلیا ۔ یہ ہمارے معاشرہ کا ایک ایسا سمجھوتہ ہے، ایسا Compromise ہے جو ہمیں رفتہ رفتہ ایک ایسے سماج کی جانب ڈھکیل رہا ہے جس میں تمام اعلیٰ اقدار ، ہماری نسلاً بعد از نسل چلنے والی روایات کا دم گھٹ رہا ہے ۔ آخر کہاں تھمے گا ہماری تباہی کا یہ طوفان اور کب تک ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا کر ریت کے طوفان کے گزرنے کا انتظار کرتے رہیں گے ۔ وہ ہندوستان کہاں کھوگیا جس پر ہم ناز کرتے تھے ۔ ہم بڑے فخر سے اپنے ملک پر ناز کرتے تھے ۔ اب تو یہاں چھ ماہ کی بچی کے ساتھ بھی یہی عمل قبیح ہوتا ہے ۔ آج ہمارے دیش میں اور تو اور ماں جیسے مقدس رشتہ کا دامن تقدس متاثر ہوگیا ہے ۔ گجرات میں یہ واقعہ ہوا جس میں ایک بیٹے نے اپنی ہی ماں کے ساتھ زبردستی منہ کالا کیا ۔ کیا آج لڑکیاں بالغ ہی غیر محفوظ نہیں ہیں بلکہ معصوم نابالغ بیٹیوں کو تک ہوس کا نشانہ بناایا جارہا ہے ۔ جب سے دنیا میں انسانی تمدن پروان چڑھا ہے اس وقت سے آج تک بعض رشتوں کا احترام کیا جاتا رہا ہے ۔ بیٹی بہو ، ماں بہن کا تقدس ہر مذہب میں ہے۔ بیٹی صرف بیٹی ہوتی ہے ، ماں صرف ماں ہوتی ہے ۔ بہن ہمیشہ پاکیزگی کی ردا (چادر) میں لپٹی ہوئی ہے۔ یہ رشتہ مذہب کی تقسیم کے کبھی شکار نہیں ہوئے تھے ۔
ماں بیٹی بہو کی آبرو کبھی نہیں لوٹی گئی تھی ۔ یہ کیسا دور آگیا ہے کہ ہر پاک رشتہ اپنا تقدس اور پاکیزگی کھوتا جارہا ہے ۔ ہم صرف قانون سازی کے ذریعہ ان رجحانات کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قانون کی بالادستی نافذ کرنے کی ہماری موجودہ حکومت میں ہمت ہی نہیں ہے ۔ یہ کیسی آزادی ہے جس کے بعد ایسا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہی اندھیرا ہرسو ہر سمت پھیلتا جارہا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ دکھائی نہیں دیتا ۔ کیا آزادی کے بعد ہم ایک قوم کی حیثیت سے تمام اقدار سے یکسر محروم نہیں ہورہے ہیں۔ کیا ہماری یہ تہی دامنی کے لئے ہم کو معاف کیا جاسکتا ہے ؟ کیا قومی رہنما گاندھی جی، پنڈت جواہر لال نہرو ، مولانا آزاد نے اسی لئے جنگ آزادی لڑی تھی ۔ ہمارے ہزاروں لاکھوں مجاہدین آزادی نے پھانسی کے پھندوں کو اسی لئے گلے میں ڈال لیا تھا کہ جب ہم آزاد ہوجائیں ، تب ہم اپنی تمام اخلاقی ذمہ داریوں کو فراموش کردیں؟ قانون بنتے رہیں گے ، ان میں ترمیمات بھی ہوتی رہیں گی لیکن جب تک ہمارے سماج میں رشتوں کا احترام پیدا نہیں ہوگا ہم ’’اخلاقی خلائی ‘‘ میں ہی رہیں گے ۔ تاریخ صرف یہ نہیں دیکھتی کہ کس دور میں کس قوم نے کتنی معاشی ، صنعتی ترقی کی تھی بلکہ تار یخ اس بات پر زیادہ زور دیتی ہے کہ کس دور میں کو نسی قوم اخلاقی اعتبار سے اعلیٰ تھی۔ تاریخ قوموں کا اخلاقی Moral Stamina دہر خم بھی دیکھتی ہے ۔ اس کسوٹی پر جب ہماری آج کی تاریخ مرتب ہوگی تو ہم کو اخلاقی طور پرایک ضائع شدہ فورس Morally Spent Force کہا جائے گا ۔ ہم نے یقیناً مادی ترقی کی ہے ، ہم آج دنیا کی چھٹی بڑی صنعتی طاقت بن گئے ہیں لیکن ہمارے اسی دیش میں معصوم بچیوں ، لڑکیوں ، بوڑھیوں کی تک آبرو محفوظ نہیں رہی ۔ ہم نے آزادی کیا حاصل کی کہ ہم سمجھنے لگے کہ ہم اپنے ملک میں جو چاہے کرسکتے ہیں۔ ہم جرم کو ایک نفی ایک آرٹ بلکہ کلا بناسکتے ہیں اور ہم نے مادی ترقی کے ساتھ واقعی یہ بھی کر دکھایا کہ جرم اور گناہ کے معاملے میں بھی ہم کسی سے کم نہیں بلکہ آج تو فخریہ طور پر کہہ رہے ہیں کہ ہم اس میدان میں بھی بہنوں سے آگے ہیں۔ آزادی کا صحیح تصور ہی مسخ ہوگیا ، اس کا صحیح تصور ہی ہماری اخلاقی گراوٹ کے گرد و غبار میں کہیں کھوگیا ۔ قانون اپنی جگہ درست ہے لیکن جرم اور سزا کی سیاہ تاریخ میں صرف قانون ہی کے ذریعہ اعلیٰ اوصاف قوموں میں پیدا نہیں ہوتے ، اس کیلئے ملک و قوم کو اور اداروں کو بھی ایک اہم رول ادا کرنا پڑتا ہے ۔ نظام تعلیم میں ضروری تبدیلی ناگزیر یہ ہوئی ہے تاکہ اس نظام ہی کے ذریعہ ہم اپنے سماج میں سدھار لا سکیں ورنہ تو ایسی آزادی سے کیا حاصل جس میں رشتوں اور ناطوں کو کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔ معصوم بچیوں کا قتل اور ان کی آبروریزی عام بات ہو جس میں موجودہ واقعات کی روشنی میں برسر اقتدار پارٹی کے ایک رکن اسمبلی بھی ملوث ہیں جس کے خلاف ایف آئی آر بھی چاک ہوا ہے۔ ایسے کتنے سیاست داں ہوں گے جنہوں نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے اس نوعیت کے اپنے جر ائم کو چھپالیا ہوگا ۔ آزادی صرف انگریزوں کے تسلط سے آزادی نہیں ہے اور نہ تھی بلکہ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہر بالغ اور نابالغ مرد و عورت اس ملک میں خواہ اس کا تعلق کسی مذہب سے ہو پوری عزت و آبرو کے ساتھ زندگی گزارے۔ آج کی یہ آزادی تو دیش کی معصوم بیٹیوں کو زندگی ہی سے محروم کر رہی ہے ۔ یہ وہ آزادی نہیں جس کا ہم نے خواب دیکھا تھا ۔ یہ وہ نئی صبح نہیں ہے جس کا ہم انتظار کر رہے تھے ۔ یہ نامکمل آزادی ہے ۔ بقول فیض احمد فیض ؎
یہ داغ داغ اجلا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں