پی چدمبرم
قارئین ؍ ناظرین کو کے سامنے پسند کیلئے بہت ساری چیزیں ہیں۔ انڈیا بمقابلہ آسٹریلیا کرکٹ میچز سیریز کا پہلے سے طے شدہ پروگرام ہے۔ سی بی آئی بمقابلہ سی بی آئی ہے۔ اور تازہ ترین معاملہ اپنی نوعیت کا غیرمعمولی حکومت بمقابلہ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) ہے۔ ہر کرکٹ کھلاڑی کو چوٹیں و خراشیںآتی ہیں، سی بی آئی شکستہ ہے اور آر بی آئی کے معاملے میں اسے شدت سے مروڑا جاچکا ہے۔ آر بی آئی ہندوستان کیلئے سنٹرل بینک ہے۔ اکثر لوگ جانتے یا سمجھتے نہیں جو کلیدی رول سنٹرل بینک کسی ملک کی حکمرانی میں ادا کرتا ہے۔ کسی سنٹرل بینک کا اصل مقصد مالیاتی استحکام کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا ایکٹ 1934ء کے مقاصد ہیں کہ بینک نوٹوں کی اجرائی کو باقاعدہ رکھے اور مالیاتی استحکام کو یقینی بنانے کے مدنظر ذخائر کو قائم رکھے۔
آر بی آئی ۔ متعدد کام
آر بی آئی کے کئی کام ہوتے ہیں۔ وہ رقم بناتا ہے۔ وہ کرنسی نوٹس جاری کرتا ہے۔ وہ سود کی شرحیں طے کرتا ہے۔ وہ کرنسی کا تبادلہ کرتا ہے۔ وہ بیرونی زرمبادلہ سے متعلق لین دین کو باقاعدہ بناتا ہے۔ وہ ذخائر رکھتا ہے۔ وہ حکومت کے قرض کو سنبھالتا ہے۔ وہ کمرشیل بینکوں اور نان بینکنگ فینانس کمپنیوں کو لائسنس جاری کرتا اور باقاعدہ بناتا ہے۔ اس کی کئی ذمہ داریاں ’’مالیاتی استحکام کو یقینی بنانے‘‘ کے سب سے اہم مقصد سے راست طور پر جڑی ہوتی ہیں۔ آر بی آئی کی کلیدی ذمہ داریاں کھلی معیشت رکھنے والے دیگر ممالک کے سنٹرل بینکوں کی ذمہ داریوں سے مختلف نہیں ہیں۔ وہ بنیاد جس پر کوئی سنٹرل بینک تیاری سے کھڑا ہوسکے اور اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے قابل رہے، ’سنٹرل بینک کی آزادی‘ ہوتی ہے۔ یورپین سنٹرل بینک کا چارٹر اور چیزوں کے بشمول بیان کرتا ہے، ’’نا ای سی بی، نا ہی کوئی نیشنل سنٹرل بینک، اور نا ہی اُن کے فیصلہ ساز اداروں کا کوئی ممبر یونین کے اداروں، مجالس، دفاتر یا ایجنسیوں سے، کسی رکن مملکت کی کوئی حکومت سے، یا کوئی دیگر ادارہ سے ہدایات طلب یا وصول نہیں کرے گا‘‘۔ سنٹرل بینک کی آزادی کا اُصول اب عملاً ناقابل تبدیل قانون ہے۔ اس لئے، اگرچہ آر بی آئی کی تشکیل پارلیمنٹ کے ایک قانون کے تحت ہوئی، لیکن آر بی آئی نہ کوئی بورڈ کے انتظام والی کمپنی ہے اور نا ہی اسے ایسا باور کیا جاسکتا ہے۔ دنیا میں ہر جگہ سنٹرل بینک = گورنر (یا چیئرمین)۔ سنٹرل بینک کی آزادی کا یہی اُصول ہے جسے این ڈی اے حکومت کی جانب سے چیلنج کیا گیا ہے۔ لہٰذا، ہر چیز جو اس ایکٹ کے تحت کی جائے اسے اس ایکٹ کی اصل بنیاد کی مطابقت میں رہنا ہوگا؛ ورنہ وہ حد سے تجاوز ہوگا۔
آزادی پر وار
یہ اُصول 19 نومبر 2018ء کو سخت آزمائش سے گزرا، اور توڑ دیا گیا۔ آر بی آئی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ایک میٹنگ میں چار فیصلے کئے گئے:
٭ بورڈ نے ای سی ایف کا جائزہ لینے کیلئے اکسپرٹ کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی رکنیت اور قواعد کار کو حکومت اور آر بی آئی مشترکہ طور پر طے کریں گے؛
٭ بورڈ نے مشورہ دیا ہے کہ آر بی آئی کو 25 کروڑ روپئے تک کے ایم ایس ایم ای قرض داروں کے متاثرہ معیاری اثاثہ جات کی تنظیم جدید کی کوئی اسکیم پر غور کرے؛
٭ بورڈ نے سی آر اے آر کو 9 فی صد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا اور عبوری مدت کو ایک سال تک توسیع دینے سے اتفاق کیا؛ اور
٭ بورڈ نے فیصلہ کیا کہ پی سی اے کے تحت بینکوں کے تعلق سے مسئلہ کا آر بی آئی کا بورڈ آف فینانشیل سوپرویژن جائزہ لے گا۔
میری رائے میں، یہ بہت نقصان دہ میٹنگ ہوئی جس نے خطرناک نئی راہ نکال دی۔ چار امور میں سے تین کے بارے میں بورڈ نے فیصلے کئے۔ جب حکومت نے زک پہنچا دی تو پھر وہ سیکشن 7 (ہدایات جاری کرنا) یا سیکشن 58 (قوانین بنانا) کو حقیقتاً لاگو کرنے سے پیچھے ہٹ گئی۔ بہرحال، یہ واضح ہے کہ اونٹ نے خیمہ میں اپنی ناک گھسادی ہے؛ اب صرف کچھ وقت ہے کہ وہ اپنی کوہان اور اپنے پیر بھی اندر لے آئے گا۔ مجھے یہ ماننے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ بورڈ میں آزاد ڈائریکٹرز کی اکثریت نامور پیشہ ور شخصیتیں ہیں یا اپنے متعلقہ شعبہ یا شعبوں کے کامیاب بزنس پرسنس ہیں۔ تاہم، ان میں سے کوئی بھی سنٹرل بینکر تھا یا ہے اور کسی کو بھی سنٹرل بینک کے کاموںکی متعلقہ جانکاری ہے۔ علاوہ ازیں، اس میٹنگ کے کئی جائزوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آزاد ڈائریکٹرز اُس حکومت سے آزاد نہیں رہے جس نے انھیں مقرر کیا؛ وہ بڑے اشتیاق سے حکومت کے موقف کی حمایت کرتے نظر آئے۔ یہی بورڈ ملک کو مایوس کیا جب اس نے 8 نومبر 2016ء کو نوٹ بندی کی چپ چاپ توثیق کردی تھی۔ اب دو سال 10 یوم بعد اسی بورڈ نے سنٹرل بینک کی آزادی کو توڑتے ہوئے پھر ایک بار ملک کو ناکام کیا ہے۔
جوابدہ مگر ماتحت نہیں
اس میں کچھ عجیب نہیں ہے کہ وزیر فینانس اور گورنر آر بی آئی ریپو ریٹ یا سی آر آر کے بارے میں اتفاق (اکثر و بیشتر) یا عدم اتفاق (کبھی کبھار) کریں۔ میں اس بات کے حق میں ہوں کہ حکومت اور گورنر کے درمیان کچھ تناؤ رہے اور کبھی حکومت کی جانب سے اپنی مایوسی کے اظہار کے حق میں ہوں۔ میں اس بات کے حق میں ہوں کہ پارلیمنٹ وقفے وقفے سے گورنر کو طلب کرتی رہے کہ وہ اپنے اقدامات کی کمیٹی کے روبرو وضاحت کریں۔ تاہم، میں پُرزور مخالف ہوں کہ حکومت کے مقررہ ڈائریکٹرز ایسے مسائل پر فیصلہ کریں جو سنٹرل بینک؍ گورنر کے دائرۂ کار میں آتے ہیں۔ چاہے وہ ایسا ’آزادانہ طور پر‘ کرتے ہوں یا حکومت کی ’ہدایات‘ پر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا؛ ہر صورت میں یہ دراندازی ہے اور سنٹرل بینک کی آزادی کا بنیادی اُصول تباہ ہوجائے گا۔
بورڈ کی 14 ڈسمبر 2018ء کو اگلی میٹنگ میں حکومت کی جانب سے یقینی طور پر دباؤ رہے گا کہ بورڈ مزید مسئلوں کے بارے میں فیصلہ کرے۔ اگر ڈاکٹر اُرجیت پٹیل اپنے قدم جمائے نہ رکھیں، اور مزید گنجائش فراہم کردیں تو ایک اور ادارہ جو مخدوش ہے، زوال سے دوچار ہوجائے گا۔ فی الحال، میں دعا کرتا ہوں اور نیک تمنائیں پیش کروں گا۔