محمد ریاض احمد
اوپینین پولس اور سروے کے نام پر میڈیا میں بی جے پی موافق جو رپورٹس آرہی ہیں ان رپورٹس کا بھانڈا 16 مئی کے بعد ایسے ہی پھوٹ جائے گا جس طرح کسی غبارہ میں سوئی مارنے پر وہ پھٹ پڑتا ہے ۔ قدیم زمانے میں دنیا کے ہر حصہ میں زرخرید غلام پائے جاتے تھے ، آج بھی کسی نہ کسی شکل میں زرخرید غلاموں کی اچھی خاصی تعداد موجو دہے ۔ لیکن ہمارے ملک میں قومی سطح پر صحافت کا ایک ایسا گوشہ ہے جس پر صنعتی گھرانوں کی اجارہ داری ہے ۔ چنانچہ وہ اپنے آقاؤں کے اشاروں پر ناچتے ہوئے وہی سروے پیش کررہا ہے جس سے بی جے پی اور نریندر مودی کو زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو ۔
صدر نشین پریس کونسل آف انڈیا جسٹس مارکنڈے کاٹجو ایک دانشور اور انسانیت دوست کے ساتھ ساتھ ایک راست باز انسان کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں ۔ اردو زبان وادب کے عاشق جسٹس کاٹجو کے خیال میں مودی جیسے شخص کو جس کی 2002 کے گجرات فسادات سے قبل تک بھی خود بی جے پی میں کوئی حیثیت نہیں تھی اس زرخرید میڈیا نے ایک بہت بڑے لیڈر ، ہندوستان کے نجات دہندہ اور ہر مسئلہ کو حل کروانے والے کی حیثیت سے پیش کیا ۔
لیکن زرخرید غلاموں کی طرح کام کرنے والے میڈیا کے اس مخصوص گوشہ کو یہ جان لینا چاہئے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے جہاں فرقہ پرست وحشیوں اور ان کی حیوانیت کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ عوام انسانیت اور آپسی بھائی چارہ میں یقین رکھتے ہیں ایسے میں بی جے پی قائدین یا سنگھ پریوار کا حامی میڈیا بار بار عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کرے کہ بی جے پی کو زبردست کامیابی ملنے والی ہے اور اس مرتبہ مودی عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہوں گے ، کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ عوام اس کی باتوں اوپینین پول اور سروے پر یقین کرنے والے نہیں ۔ یہ الگ بات ہیکہ کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے کی ناقص کارکردگی صرف کانگریس کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگی لیکن کانگریس کو اتنا بھی نقصان نہیں ہوگا کہ بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوجائے ۔ زمینی حقائق کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہیکہ بی جے پی اور اس کے 28 تا 30 حلیف زیادہ سے زیادہ 210-220 نشستیں حاصل کرسکتے ہیں جبکہ کانگریس کو اس بات کی امید ہیکہ وہ کسی بھی حال میں 120-150 نشستیں حاصل کرے گی ۔ ان حالات میں وہ تیسرے محاذ اور دیگر چھوٹی جماعتوں سے اتحاد کرتے ہوئے پھر ایک بار مرکز میں مخلوط حکومت تشکیل دے سکتی ہے ۔ آثار و قرائن سے پتہ چلتا ہیکہ کانگریس 150 سے زائد نشستیں حاصل کرے گی ۔ ملک میں 9 مرحلوں میں سے رائے دہی کے 5 مرحلوں کا انعقاد عمل میں آچکا ہے اور اب مابقی 4 مرحلوں میں 300 سے زائد حلقوں میں رائے دہی کا 24 اپریل تا 12 مئی انعقاد عمل میں آئے گا۔ اقتدار حاصل کرنے بی جے پی اور عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہونے نریندر مودی کے ارمانوں پر خود بی جے پی کے سینئر قائدین پانی پھیرنے والے ہیں ۔ بی جے پی کے سینئر قائدین بشمول ایل کے اڈوانی ،مرلی منوہر جوشی اور سشما سوراج ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ مودی وزارت اعظمی کی باوقار کرسی پر فائز ہو کر اس کی توہین کریں ۔ حال ہی میں سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو نے ببانگ دہل اعلان کیا ہیکہ مودی کو عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہونے سے روکنے کیلئے بی جے پی کے متعدد سینئر قائدین نے ان سے ربط پیدا کیا ہے ۔ بی جے پی میں داخلی اختلافات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ان سے سنگھ پریوار میں پریشانی کی لہر پیدا ہوگئی ہے اب تو بی جے پی قائدین بھی اپنی نجی محفلوں میں مودی کے عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات ظاہر کرنے لگے ہیں ۔ مودی کی راہ میں جہاں بی جے پی کے سینئر قائدین رکاوٹ بنے ہوئے ہیں وہیں ملائم سنگھ یادو ، شرد پوار ، دیوے گوڑا ، ممتا بنرجی ، مایاوتی ، جیہ للیتا ، نتیش کمار اور نوین پٹنائک چیف منسٹر گجرات کو عہدہ وزارت عظمی کی کرسی کی جانب آگے بڑھنے سے روکنے میں مصروف ہوگئے ہیں ۔ یہ تمام قائدین ایسے ہیں جو اپنے آپ کو عہدہ وزارت عظمی کے امیدوار کے طور پر پیش کررہے ہیں ۔
ٹاملناڈو میں تو چیف منسٹر جیہ للیتا کے حامی ایسے پوسٹرس اور بیانرس آویزاں کرچکے ہیں جس میں جیہ للیتا کو عہدہ وزارت عظمی کی کرسی پر فائز دکھایا گیا ہے اور ان کے سامنے تمام عالمی قائدین بشمول اوباما ولادیمیر پوٹین ، انجیلا مرکل وغیرہ ہاتھ باندھے قطار میں ٹہرے ہوئے ہیں ۔ جیہ للیتا جانتی ہیں کہ مودی کے باعث بی جے پی کو اقتدار ملنے والا نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہیکہ اے آئی اے ڈی ایم کے نے بی جے پی سے اتحاد نہیں کیا ۔ 2009 کے عام انتخابات میں اگرچہ جیہ للیتا کی پارٹی کو 9 پارلیمانی نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن اس مرتبہ وہ کم از کم 25 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے موقف میں ہے ۔ اس ریاست میں 39 پارلیمانی نشستیں ہیں ۔ اے آئی اے ڈی ایم کے ذرائع کے مطابق پارٹی 30 نشستیں ضرور حاصل کرے گی اگر وہ 30 یا اس سے زائد نشستیں حاصل کرتی ہے تو قومی سیاست میں جیہ للیتا کا موقف بہت مضبوط ہوجائے گا ۔ نتیجہ میں غیر بی جے پی غیر کانگریس اتحاد کیلئے انا ڈی ایم کے کی قائد کا نام عہدہ وزارت عظمی کے امیدوار کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتا بنرجی جن کی پارٹی نے 2009 کے انتخابات میں 19 حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی اب کی بار ریاست کے جملہ 42 پارلیمانی حلقوں میں سے 30-35 نشستیں حاصل کرنے کا ہدف مقرر کررکھا ہے لیکن اوپینین سروے میں ترنمول کانگریس کو 22 حلقوں میں کامیابی ملنے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔ دلچسپی کی بات یہ ہیکہ مغربی بنگال میں بی جے پی کو لاکھ کوششوں کے باوجود مجوزہ انتخابات میں کوئی بڑی کامیابی ملنے والی نہیں ہے ۔ ممتا بنرجی اور جیہ للیتا نے تیسرے وفاق کی بات کی ہے اگر اس وفاق میں وہ مایاوتی کو بھی شامل کرتے ہیں تو ہندوستان میں خاتون سیاستدانوں کا اتحاد ایک نئی تبدیلی لاسکتا ہے تاہم عہدہ وزارت عظمی کی دوڑ میں ممتا بنرجی بھی شامل ہیں ۔
اب رہا مایاوتی کا سوال تو انھوں نے سارے ہندوستان کو یہ پیام دینا شروع کردیا ہیکہ ملک میں دلت ۔ اقلیت اتحاد ایک دلت دختر کو عہدہ وزارت عظمی پر فائز کرسکتا ہے ۔ اگرمایاوتی کی یہ خواہش پوری ہوتی ہے تو ہندوستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوگا جبکہ 5 فیصد برہمن جو 1.20 ارب سے زائد آبادی کے حامل ہندوستان کی سیاست پر چھائے ہوئے ہیں زندگی کے ہر شعبہ میں ان کے اثر کو ختم کیاجاسکتا ہے ۔ 2009 کے عام انتخابات میں مایاوتی کی بی ایس پی کو 21 نشستیں حاصل ہوئی تھیں تاہم عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہونے کی خواہش میں وہ اب کی بار زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہیں ۔ مظفرنگر فسادات کے باعث چونکہ مسلمان سماج وادی پارٹی سے ناراض ہیں اس لئے مایاوتی کو امید ہیکہ اس ناراضگی کا فائدہ بی ایس پی کو حاصل ہوگا ۔ مایاوتی بھی 35-40 نشستیں حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن یو پی کی 80 میں سے انھیں 25-30 نشستیں حاصل ہونے کا امکان ہے ۔ مایاوتی اپنی انتخابی ریالیوں میں یہی کہہ رہی ہیں کہ مودی کا وزیراعظم بننا ہندوستان کی سالمیت کیلئے خطرناک ثابت ہوگا اور ملک ایک اور تقسیم کی طرف بڑھ جائے گا ۔ مایاوتی کے مطابق مودی سرمایہ کاروں ، صنعت کاروں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں اور ایسا شخص غلطی سے بھی وزیراعظم بن جائے تو یہ ہندوستان کیلئے بہت بڑا سانحہ ہوگا ۔ 4 مرتبہ یو پی کی چیف منسٹر رہیں مایاوتی کو یقین ہے کہ دلت اور مسلمان اپنے اتحاد کے ذریعہ مودی کی شکست کو یقینی بنائیں گے اور ایک دلت بیٹی کو عہدہ وزارت عظمی پر فائز کریں گے ۔ مایاوتی کی طرح سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو وزیراعظم بننے کیلئے پر تول رہے ہیں ۔ انھوں نے واضح طور پر اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کردیا ہے ۔ یہی نہیں ملائم سنگھ یادو اور ان کے فرزند اکھلیش یادو یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ کانگریس کی حمایت سے تیسرا محاذ مرکز میں حکومت تشکیل دے گا اور وہ عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہوں گے ۔ ملائم سنگھ یادو کی طرح جنتادل یو کے نتیش کمار بھی عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہونے کی تمنا رکھتے ہیں ۔ گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں جنتادل (یو) کے 20 ارکان منتخب ہوئے تھے لیکن بی جے پی کے ساتھ اتحاد ختم کرنے کے نتیجہ میں اس مرتبہ ان کی پارٹی کی نشستوں میں کمی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے تاہم نتیش کمار کا کہنا ہیکہ یہ سب میڈیا کے زرخرید گوشہ کی حرکتیں ہیں جو بی جے پی آقاؤں کے اشاروں پر کی جارہی ہیں ۔ عہدہ وزارت عظمی کی دوڑ میں چیف منسٹر اوڈیشہ نوین پٹنائک بھی شامل ہیں ۔ 2009 میں بی جے ڈی نے 14 نشستیں حاصل کی تھیں اب کی بار انھیں 16 تا 20 نشستیں حاصل ہونے کی امید ہے ۔ وہ بھی تیسرے محاذ کا ایک حصہ ہیں ۔ ان تمام قائدین کے خیال میں بی جے پی کو واحد بڑی جماعت کا موقف حاصل بھی ہوجائے تو وہ حکومت نہیں بناسکتی کیونکہ نریندر مودی کی شبیہ عام ہندوستانیوں خاص کر اقلیتوں میں اچھی نہیں ہے ۔ اسکے علاوہ اکثر سیاسی جماعتیں مودی کو پسند نہیں کرتیں ۔ ان حالات میں مایا ، ممتا ، جیہ للیتا ، ملائم ، نتیش کمار ، نوین پٹنائک اور کمیونسٹ جماعتیں ملکر کانگریس کی تائید وحمایت سے مرکز میں مخلوط حکومت تشکیل دے سکتی ہیں ۔لیکن اب یہ دیکھنا ہے کہ مودی کو اقتدار پر آنے سے روکنے کیلئے یہ تمام قائدین اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہیں یا خود اپنے مفادات کا شکار ہو کر ملک کو فرقہ پرستوں کے حوالے کردیتے ہیں ۔ ویسے بھی ان قائدین کی خواہش کو دیکھ کر ہمارے ذہن میں ایک انار سو بیمار والا محاورہ آرہا ہے ۔ شاید آنے والے دنوں میں یہ محاورہ عملی شکل اختیار کرلے ۔
mriyaz2002@yahoo.com