غضنفر علی خان
بی جے پی کی پر زور حامی اور ہندوتوا کے نعرہ کی ٹھیکہ دار مسلم دشمن تنظیم بجرنگ دل نے ایودھیا میں اپنے کیڈر کو قومی اور عسکری ٹریننگ شروعکی ہے۔ اس تربیت یا ٹریننگ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں بجرنگ دل کے کارکنوںکوان کے مخصوص انداز میں ملبوس کر کے ایسے افراد پر جان لیوا حملہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو وضع قطع میں مسلمان معلوم ہورہے تھے ۔ مخصوص قسم کی ٹوپی جو مسلم طبقہ سارے ہندوستان میں استعمال کرتا ہے ، ان ہیں پہن کر لنگیوں میںملبوس ان افراد کو بجرنگ دل اور وشواہندو پریشد کا کیڈر مارتا ، چلاتا ، بھگاتا بتایا گیا ہے ۔ اس ٹریننگ میں حملہ آوروں کو باقاعدہ رائفلس ہاتھ میں لئے خوفناک انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ اترپردیش میں سیلف ڈیفنس یا حفاظت خوداحتیادی کے کیمپس تیزی کے ساتھ اس ریاست کے اور اہم شہروں جیسے ، سلطان پور ، گورکھپور ، پیلی بھیت ، نوائیہ ، فتح پور میں اور علیگڑھ میں بھی منعقد کئے جارہے ہیں ۔ اس سے زیادہ افسوس اور تشویش کی بات یہ ہے کہ اترپردیش کے گورنر رام نائک نے کھلے بندوں اس کی تائید کرتے ہوئے انہیں حق بجانب قرار دیا ۔ اترپردیش کے جن اضلاع میں یہ کیمپس منعقد ہورہے ہیں وہاں مسلمانوں کی آبادی قابل لحاظ ہے ۔ مظفر نگر کے فسادات کے بعد اترپردیش کے ان اضلاع پر ہندوتوا کے حامیوں کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ یہ فرقہ پرست پارٹیاں یہ سمجھتی ہیں کہ فرقہ وارانہ کشیدگی اور خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرکے مسلم ووٹوں کو یا تو تقسیم کیا جاسکتا ہے یا پھر کسی نام نہاد مسلم تنظیم کو استعمال کرتے ہوئے ان کا مشورہ کیا جاسکتا ہے ۔اترپردیش میں آج یہ پرتشدد ماحول یونہی تفریحاً پیدا نہیں کیا جارہا ہے کہ یہ ایک منظم پروگرام ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ آئندہ چند ماہ میں ہونے والے یو پی اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی کو کامیابی مل سکے ۔ شمال مشرقی ریاست آسام میں اپنی تازہ کامیابی اور وہاں مسلم ووٹوں کی تقسیم در تقسیم سے بی جے پی کو حوصلہ ملا ہے اور اس حوصلہ کا عملی مظاہرہ بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کر رہے ہیں ۔
بی جے پی کی مرکزی حکومت کیلئے یہ بہانہ پہلے ہی سے تیار ہے کہ اگر ان کیمپوں سے لا اینڈ ارڈر بگڑتا ہے تو یہ مسئلہ براہ راست ریاستی حکومت کا ہے ۔ یہ کہہ کر بی جے پی کی مرکزی حکومت آنے والے دنوں میں اپنا دامن بچاسکتی ہے۔ مظفر نگر یا کسی اور مقام پر ہوئے فسادات (مسلم کش) میں بھی یہی ہوا بلکہ یہ کچھ زیادہ درست ہوگا کہ ہر مرتبہ مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ جارحانہ تیور کو دیکھ کر بی جے پی سرکار خاموش رہی ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی اترپردیش کی ریاستی حکومت جس کی باگ ڈور سماج وادی پارٹی کے ہاتھ ہے اوراس پارٹی کے لیڈر ملائم سنگھ یادو یا ان کے بیٹے چیف منسٹر اکھلیش یادو یونہی بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کو ایسے تربیتی کیمپس منعقد کرنے دیتے رہیں گے ، حالانکہ دونوں لیڈر اور سماج وادی پاری کا مسلم چہرہ وہاں کے بااثر وزیر اعظم خان سابق میںمسلم کش فسادات کے دوران چپ سادھے رہیں گے اور بیچارے مسلمانوں کا لہو یونہی ارزاں ہوکر بہتے رہے گا ۔ اس وقت انتخابی تیاریوں میں مصروف سماج وادی پارٹی اور ریاستی بی جے پی پارٹی ان کیمپوں کے بارے میں بالکل انجان ہیں ۔ دونوں کے مقاصد بھی الگ الگ ہیں ۔ ایسے کیمپوں سے متاثر ہوکر یو پی کے مسلمان سماج وادی پارٹی کی طرف ہوجائیں گے اور بی جے پی کے خیال میں ان کیمپوں سے خوفزدہ ہوکر مسلم ووٹ کا کچھ حصہ بی جے پی کو ملے گا ۔
دونوں اپنے اپنے طور پر اترپردیش کے سماج کو فرقہ وارانہ اساس پر تقسیم کرنے کے درپے ہیں۔ دونوں کو کیا فائدہ ہوگا یہ تو نہیں کہا جاسکتا لیکن ایک بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں کو خسارہ ہوگا ۔ یہ Polarisation کی ناپاک کوشش ہے ۔ بجرنگ دل کے ایک لیڈر نے مبینہ طور پر کہا کہ ’’کارکنوں کے ہاتھوں میں رائفلس نہیں تھیں بلکہ ایرگن تھیں لیکن ان ہی لیڈر نے بڑے زعم سے کہا کہ ’’ہمیں ان دنوں کا انتظار ہے جبکہ بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کے ان کارکنوں کے ہاتھ میں اصلی اے کے 47 ہوں گے ۔ ان کے عزائم کتنے خطرناک ہیں دوسری بات یہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں کیسی نکمی اور ناکارہ حکومت ہے جو اے کے 47 رائفلس بجرنگ دل کے کارکنوں کے ہاتھوں میں دینے کے امکان پر کان تک نہیں دھرتی ۔ ابھی بجرنگ دل ایسا دعویٰ کر رہی ہے کہ اگر آج ہی ایسے سرکش اور امن دشمن عناصر کی سرکوبی نہیں کی گئی تو ان کے خلاف کارروائی کرنے سے حکومت خوفزدہ ہوجائے گی یا تو حکومت (مرکز) خود ان عناصر کو بڑھاوا دے رہی ہے یا پھر اپنی دیدہ دانستہ غفلت نگاری سے ان کے حوصلے برھا رہی ہے ۔ مشہور قومی ٹی وی چیانل IBN-7 پر پروگرام کے دوران چینل کے اینکر نے ہندوتوا کے حامی ایک لیڈر سے جو اس موضوع پر منعقدہ مباحثہ میں شریک تھے کہا تھا کہ ’’میں (اینکر) آپ سے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں کہ خدا کیلئے نفرت نہ پھیلائیں، اس ہندوستانی مضبوط سماج کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم نہ کیجئے ۔ اینکر نے یہ بھی کہا کہ آپ مسلمانوں کے تعلق سے جو زہر افشانی کر رہے ہیں ، اس سے ان مسلم لیڈروں کی روح کانپ گئی ہے
۔ ان مسلم سپاہیوں کے روح زخمی ہوگئی ہے جنہوں نے اپنے وطن کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہو ئے جان قربان کردی تھی ‘‘۔ ہر فکر صحیح رکھنے والا ملک کا ہمدرد ، اور ایماندار شخص یہی کہے گا جو مذاکرہ چینل کے انتہائی روادار اینکر نے کہا تھا ۔ یہ مباحثہ 24 مئی کی رات ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ اترپردیش کے گورنر رام نائک کو بھی ایسے راست باز اور راست گو صحافیوں سے سبق سیکھنا چاہئے کیونکہ گورنر موصوف نے ایودھیا میں ہوئے اس ٹریننگ کیمپس کے بارے میں کہا تھا کہ اس کے بارے میں اندیشہ مند ہونے کی ضرورت نہیں‘‘۔ ہر شخص کو اپنا دفاع کر نے کا حق کے جو اپنا دفاع نہیں کرسکتے ، وہ ملک کا دفاع بھی نہیں کرسکتے‘‘ لیکن ملک کی مدافعت سے ان کا کیا مطلب تھا ۔ گورنر نائک نے واضح نہیں کیا کہ کونسا بیرونی حملہ ہورہا ہے یا خدا نہ کرے ہونے والا ہے ۔ کس دشمن کا یہ بجرنگ دل کارکن خاتمہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ کیمپ کے ویڈیو میں تو جن لوگوں کو بندوقوں ، بھالے لاٹھیوں سے مارتے ہوئے دکھائی دیا ہے ۔ وہ ظاہری ہئیت کے لحاظ سے تو مسلمان ہی تھے ۔ ذرا اس اہم نکتہ کی بھی گورنر رام نائک وضاحت کردیں۔