ایودھیا فیصلہ ہندوستانی اکثریت کیلئے عقیدہ سے منسلک مسئلہ

نلنجن مکھوپادھیائے
یہ بظاہر خلاف قیاس نظر آیا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ نے 1994 ء کے اسمعیل فاروقی فیصلہ کوایک وسیع تر بنچ سے رجوع کرنے کی درخواست کو مسترد کردیا ہے تاکہ مزید پیچیدگیوں سے پرہیز ہوسکے اورایک فوجداری مقدمہ کی راہ ہموار ہوسکے اور یہ وہی کیس تھا جس میں اپیکس کورٹ نے فیصلہ صادر کیا تھا کہ مذہب اسلام میں عبادت کیلئے صرف مسجد ہی ضروری نہیں ہے ۔ اس متنازعہ ڈھانچہ (یا جگہ) کو لیکر مختلف عقیدت مندوں نے اس کی ملکیت پراپنا دعویٰ پیش کردیا ۔ تمام عقیدوں کے اس کیس میں ملوث ہوجانے کے باعث یہ ایک باز پنطپنی پہیلی مسئلہ بن کر رہ گئی اور اس مقام کی ملکیت سے متعلق تقریباً سات دہوں سے زیر تصفیہ ہے اور اب 29 اکتوبر سے نئی تشکیل شدہ بنچ اس مقدمہ کی سماعت کرے گی اور توقع ہے کہ اس کیس پرجلد ہی کچھ فیصلہ سامنے آئے گا۔
عقیدہ کی بحالی کی کوشش : ان سماعتوںکے دوران یہ موضوع زیر بحث ہے کہ مسئلہ کا تعلق عقیدے سے جڑا ہوا ہے ، چاہے وہ اکثریتی طبقہ سے ہویا پھر اقلیتی طبقہ سے اور یہی مذہب سے جڑی ہوئی جگہ ایک سنگلاخ چٹان کی طرح سب کیلئے چیلنج بن گئی ہے ۔ (جس طرح کہ موہن بھاگوت نے اپنے حالیہ بیان میں کہا تھا کہ ایودھیا مسئلہ کا کسی ایک خاص مذہب سے تعلق نہیں ہے بلکہ یہ ایک سیکولر مسئلہ ہے) 1994 ء سے لیکر اب تک تقریباً دو مرتبہ اقلیتی رائے عامہ کے اوپر عدالتی نقطہ نظر حاوی رہا ہے۔ اقلیتی نقطہ نظر مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ججس کے ذریعہ دونوں موقعوں پر اس کا اظہار ہوا تھا ۔ ان بیانات سے اکثریتی تعصب کا رنگ ہی کیوں نہ جھلکتا ہو لیکن یہ عدلیہ میں مکمل بھروسہ کے منافی ہے۔ پانچ ججوں پر مشتمل تین اکثریتی ججوں نے فیصلہ دیا تھا کہ اسلام میں عبادت کیلئے کوئی ایک جگہ کا لزوم نہیں ہے اور عبادت کسی بھی مقام چاہے وہ کھلاہوا کیوں نہ ہو کی جاسکتی ہے اور اس فیصلہ میں نہ تو کسی مقدس صحیفہ کا حوالہ دیا گیا اور نہ ہی کسی سے اس بارے میں رائے لی گئی ۔ جسٹس سید عبدالنظیر کی مخالفانہ رائے اور عدم اتفاق کے پس پردہ کئی وجوہات کارفرما ہیں، اس میں اہم اسلام میں مسجد کی مرکزی حیثیت جیسے مسئلہ کو ایک وسیع تر بنچ کے سپرد کرنا چاہئے ۔ اس موضوع کو فی الحال موقف کردیا گیا اور ایودھیا کیس کی سمات اب سے چار ہفتہ بعد شروع ہوجائے گی اور نئی بنچ کا فرض ہے کہ وہ اپنے بیان پر قائم رہ کر اس مسئلہ کو صرف ایک فوجداری مسئلہ کی حیثیت سے سماعت کرے نہ کہ تمام طبقات میں عقیدے کو بنیاد بناکر ایک خلیج پیدا کرے۔ اگر سپریم کورٹ بھی 30 ستمبر 2010 ء کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے راستہ کواختیار کرتے ہوئے کوئی فیصلہ صادر کرتی ہے تو عام عوام کا عدلیہ میں ایقان متزلزل ہوجائے گا ۔ جسٹس نظیر چاہتے تھے کہ 1994 ء کے فیصلہ کی ایک وسیع تر سات ممبر ججس پر مشتمل بنچ کے ذریعہ سماعت ہو کیونکہ ماضی میں اس سے غیر اہم کیسس میں وسیع تر بنچ تشکیل دی گئی تھی اور جسٹس نظیر چاہتے ہیں کہ آرٹیکل 25 کی بھی توضیع کی جائے کہ آیا ایک مخصوص عقیدہ پر چلا جاسکتا ہے یا پھر کسی بھی عقیدہ کے تمام عبادت بھی عقیدہ کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔
وہ راہ جہاں فرشتے بھی چلنے سے گھبراتے ہیں
بے شمار قانونی گتھیوں جو اُکتا دینے والی ہیں ، کے باوجود ایودھیا پر 2010 کا ہائیکورٹ فیصلہ جس میں چار دیوانی کیسس شامل تھے۔ 21 سال بعد دیا گیا اوراس فیصلہ میں تین فریق ہندو تھے اور ایک فریق سنی وقف بورڈ ، ان چاروں کو یکجا کر کے کیس کو آلہ آباد ہائی کورٹ کے سپرد کردیا گیا ۔ فیصلہ کی ابتداء میں ججس نے اس کیس پر اس طرح اپنی وضاحت کی کہ ’’یہ ایک معمولی سی زمین ( پندرہ سو اسکوائر یارڈ) جس پر فرشتہ بھی قدم رکھنے سے گھبراتے ہیں۔ یہ ایک ایسی پرخاش زمین ہے جو بارودی سرنگوں سے بھری پڑی ہے ۔ سب سے پہلے ہم کو اس کی صفائی کرنی ہے ۔ بعض عقلمند افراد نے ہم کو مشورہ دیا تھا کہ اس کیس میں مت الجھو لیکن ہم کسی بیوقوف کی طرح جلد بازی میں بھی یقین نہیں رکھتے ، بالآخر اس پر خطر راہ کو اپنانا ہی پڑا ۔ اب اس استعاری زبان سے ہٹ کر اب جو سب سے بڑا نزاعی مسئلہ ہے جو عدالت میں زیر دوران ہے ، ہائی کورٹ کے اکثریتی ججوں کا فیصلہ (شکر ہے کہ اس میں ایک ہندو اورایک مسلمان جج) شامل ہیں، فیصلہ صرف عقیدہ کی بنیاد پر کیا گیا نہ کہ ملکیت کی حیثیت سے۔ سنی وقف بورڈ کے دعویٰ کو جس میں مسجد کے قبضہ کو لئے جانے کی استدعاء کی گئی تھی رد کردیا گیا کیونکہ انہدام کے باعث وہ نزاعی جگہ کی حیثیت سے تبدیل ہوچکی تھی ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ دو ججوں نے اس مقام کو اپنے عقیدے کی بنیاد بناکر فیصلہ دیا کہ یہ جگہ بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے۔ تصفیہ میں کہا گیا کہ اس متنازعہ مقام پر ہندو اورمسلمان دونوں دعویدار ہیں ، بعض مسلمان اندرونی احاطہ اور ہندو بیرونی احاطہ پرا پنے اپنے دعوے ڈسمبر 1949 ء سے برادری کے افراد کرتے آرہے ہیں اور بالآخر زمین کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ، ایک حصہ سنی وقف بورڈ اور دو ہندو دعویداروں میں۔
اکثریتی طبقہ عقیدہ کی بنیاد پر فیصلہ سے مطمئن
فیصلہ کا بیشتر ہندو تنظیموں بشمول آر ایس ایس اور وی ایچ پی کی جانب سے خیرمقدم کیا گیا ۔ خاص طور پر وشوا ہندو پر یشد جو رام مندر کی تعمیر میں پیش پیش رہی ہے، اطمینان کا اظہار کیا کیونکہ ان کی دانست میں فیصلہ عقیدہ کی بنیاد پر اور متنازعہ جگہ کو بھگوان رام کی جائے پیدائش تسلیم کرلیا گیا۔
سیاسی طور پر اس کا راست فائدہ بی جے پی کو حاصل ہوگا ، اگر فیصلہ جلد آتا ہے تو یا کم از کم ہائی کورٹکا فیصلہ برقرار رہتا ہے تو بی جے پی کو توقع ہے کہ آئندہ سال کے ابتداء تک رام مندر کی تعمیر میںحائل رکاوٹیں دور ہوجائے گی اور آئندہ ہونے والے کمبھ میلہ کے بعد کوئی تاریخ طئے کردی جائے گی حالانکہ ایسے کسی بھی فیصلہ نے سماجی بے چینی بڑھ جائے گی لیکن فرقہ وارانہ خطوط پر اس کا راست طور پر بی جے پی کو پہنچے گا۔
ایودھیا فیصلہ ہندوستان کی کثرت الوجود ہیئت کی تشریح کرے گا
جسٹس ایم این وینکٹ چپلیا نے اپنی دستاویز میں وضاحت کی کہ کثرت الوجود سماج میں اکثریتی ماحول میں اقلیتی انجذاب سے گریز کرنا چاہئے لیکن ایک ایسا سیاسی ، سماجی اور قانونی طریقہ کار اپنانا چاہئے کہ ایسے سماج کی شیرازہ بندی کی جائے کہ وہ جس کثرت الوجود سماج کے رکن ہیں، اس کو شکست و ریخت سے بچانا ضروری ہے ‘‘۔
1994 ء میں سپریم کورٹ نے اس ایقان کا اظہار کیا تھا کہ ’’ایودھیا مسئلہ ایک طوفان کی مانندہے جو گزر جائے گا ‘‘ اور اس مسئلہ کی خاطر سپریم کورٹ کی غیرت و ناموس کو خطرہ میں نہیں ڈالا جاسکتا ‘‘۔ اس بات کو تقویت دینے کیلئے جوناتھن سوفٹ اس قول کوکہ’’مذہب صرف واحد عنصر ہے جو ہم کو نفرت پر ااکساتا ہے بلکہ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے، وہ کافی نہیں ہے۔
رواں سال جنوری میں جس وقت سپریم کورٹ ججس نے ایک غیر معمولی پریس کانفرنس کا انعقاد کیا تھا تو وہ دراصل چیف جسٹس کے شدید دباؤ کے باعث وہ اس طرح کرنے پر مجبور ہوگئے تھے ۔ اسوقت سے اپیکس کورٹ کی افادیت بڑھ گئی تھی ورنہ اس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا تھا ۔ اس غیر معمولی واقعہ کے بعد نئے چیف جسٹس گوگوئی ججوں کو مختلف کیسس الاٹ کرنے میں جانبداری سے کام نہیں لیں گے اور سپریم کورٹ کا وقار اور اعتبار کو مجروح ہونے نہیں دیں گے۔ برخلاف ماضی کے نئے چیف جسٹس آف انڈیا عدلیہ کو ایسی مذہبیت سے روشناس کرائیںگے کہ ہندوستانی ایک دوسرے سے محبت کرنے لگ جائیں گے لیکن بدقسمتی سے یہ ایک ایسا چیلنج ہے جس نے اپیکس کورٹ کے فرض منصبی کو مزید مشکل بنادیا ہے۔