ایودھیا تنازع شعیہ وقف بورڈ کے چیرمن نے ایودھیا میں مندر او رلکھنو میں مسجد بنانے کی تجویز پیش کی‘ شیعہ وسنی علماء نے تجویز کو خارج کیا

علما ء نے کہاکہ شیعہ وقف بورڈ اس پورے معاملہ میں جب فریق ہی نہیں تو اس مسودے کی بھی کوئی حیثیت نہیں
لکھنو۔سپریم کورٹ میں 5ڈسمبر سے بابری مسجد معاملہ پر روزانہ سماعت قبل سمجھوتے کی خوب کوشش کی جارہی ہے۔ لکھنو میں رام مندر اور بابری مسجد کے سلسلہ میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد عمل کیاگیاتھاجس میں شیعہ وقف بورڈ کے چیرمن وسیم رضوی اور رام مندر کے فریق اکھاڑہ پریشد کے صدر نریندر گری نے پریس کانفرنس کو خطاب کیا۔ لکھنو میں آج اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد کے صدر مہنت نریندر گری اور شیعہ سنٹر ل وقف بورڈ کے چیرمن وسیم رضوی نے میٹنگ کی ۔

میٹنگ کے بعد وسیم رضوی نے میڈیاسے خطاب کیا۔انہوں نے کہاکہ ایودھیا میں اب بابری مسجد بنانے کا کوئی مطالب نہیں ہے۔ ہم آپسی رضا مندی سے ایک حل نکلالنا چاہتے ہیں جس کے تحت ہم ایودھیا میں مند ر بنانے کے لئے پوری طرح سے تیار ہیں۔وسیم رضوی نے کہاکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اس معاملہ پر فیصلہ کرے گا۔ایودھیا میں اب مسجد بنانے کا کوئی مطلب نہیں ‘ ٹینشن میں مسجد تعمیر نہیں ہونی چاہئے۔ لکھنو میں ہو مسجد امن کی تعمیر۔رضوی اور مہنت نے میڈیا کے سامنے پانچ نکات پر مشتمل مسودہ بھی جاری کیا۔وہیں دوسری جانب شیعہ وقف بورڈ او راکھاڑہ پریشد کے صدر مہنت گری کے ذریعہ پیش کی گئی مندر او رمسجد بنانے کی تجویز کو شیعہ اور سنی علماء اور دانشواروں نے پوری طرح سے خارج کردیا ہے۔ انقلاب سے بات کرتے ہوئے علماء نے کہاکہ شیعہ وقف بورڈڈ اس پورے معاملہ میں جب فریق ہی نہیں تو اس تجویزکی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

امام عیدگاہ اور کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہاکہ وسیم رضوی اینڈ پارٹی کے ذریعہ پیش کی گئی تجویزبے بنیاد ہے ۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ شیعہ وقف بورڈ بابری مسجد رام جنم بھومی معاملہ میں پارٹی نہیں ہے۔ مولانا نے کہاکہ آلہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ اور ہند وفریق عدالت سے رجوع ہوئے ہیں اس میں شیعہ واقف بورڈ پارٹی نہیں ہے۔ کیونکہ 1947کے فیصلے کے حساب سے یہ سنیوں کی ملکیت ہے ۔ لہذا ان کا دعوی بے بنیاد ہے۔ ا س طرح مسودہ مسلمانوں میں اختلافات کو بڑھانے کے لئے لایاجارہا ہے جو غلط ہے۔امام جمعہ دلی مسجد مولانا محسن تقوی نے کہاکہ شیعہ وقف بورڈ شیعوں کی نمائندگی نہیں کرتا ہے ۔

یہ ایک سرکاری ادارہ ہے ۔ اس کا شیعوں کے مذہبی معاملات سے کوئی مطلب نہیں ہے ۔ بورڈ اوقاف کی حفاظت اور ترقی کے لئے کام کرتا ہے۔ جہاں تک مسجد کا معاملہ ہے تو اس معاملہ میں بورڈ پارٹی نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ وسیم رضوی یہ بات لکھ کر دیں گے کہ شیعہ وقف بورڈ کی مجوزہ مسجد امن کوفروخت نہیں کیاجائے گا۔ اس طرح کی باتیں مسلمانوں میں اختلافات کو بڑھانے کاکام کری ں جو بی جے پی کا پرانا ایجنڈہ ہے ۔بورڈ کی بابری مسجد معاملہ میں کوئی قانونی حیثیت سے نہیں ہے۔ کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سینئر رکن اور وکیل ظفریاب جیلانی نے کہاکہ شیعہ وقف بورڈ کے دعوے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ وسیم رضوی کی بنائی مسجد میں نماز پڑھنے کون جائے گا کیونکہ دس فیصد مسلمان بھی ان کی بات نہیں سنتے ۔