این ڈی اے ‘ حلیف بھی غیر اہم

اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن جو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
این ڈی اے ‘ حلیف بھی غیر اہم
مرکز میں بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کی تشکیل ہوچکی ہے ۔ نریندر مودی دوسری مرتبہ ملک کے وزیر اعظم بھاری اکثریت کے ساتھ بن گئے ہیں۔ انتخابات میں بی جے پی کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی ہے اور وہ 300 سے زائد نشستوں پر قابض ہوچکی ہے ۔ جہاں ایک مستحکم حکومت کا قیام ملک کیلئے اچھی علامت ہے اور اس کے ذریعہ پالیسی فیصلے بھی آسانی کے ساتھ کئے جاسکتے ہیں وہیں اس اکثریت سے ایسا لگتا ہے کہ این ڈی اے میں بی جے پی کے علاوہ دیگر حلیف جماعتوں کی اہمیت گھٹ کر رہ گئی ہے ۔ انتخابات سے قبل جن حلیف جماعتوں کو انتہائی احترام کے ساتھ دوبارہ اتحاد کا حصہ بنانے کی کوششیں ہوئی تھیں اور جن کے پاس خود بی جے پی صدر امیت شاہ نے جا کر اتحاد کو قطعیت دی تھی اب ان جماعتوں کی اہمیت بھی ختم کی جا رہی ہے ۔ ایک تازہ ترین مثال بہار کی جنتادل یو کی ہے ۔ اس پارٹی نے گذشتہ اسمبلی انتخابات کانگریس اور آر جے ڈی کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے لڑے تھے اور بعد میں اس اتحاد سے ترک تعلق کرتے ہوئے بی جے پی سے دوستی کی اور حکومت برقرار رکھی تھی ۔ لوک سبھا انتخابات میں بھی اس نے این ڈی اے سے اتحاد برقرار رکھا اور بہار میں بی جے پی اور جے ڈی یو دونوں کو اچھی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ تاہم جب بی جے پی نے 300 سے زائد نشستوں کے ساتھ اقتدار حاصل کرلیا تو ان جماعتوں کی اہمیت کو گھٹانا شروع کردیا گیا اور ایسا لگتا ہے کہ کانگریس مکت بھارت کے نعرہ کے بعد اب بی جے پی حلیف جماعتوں سے مکت حکومت بنانے پر توجہ دینے پر اتر آئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی کابینہ کی تشکیل کے وقت جے ڈی یو کو محضـ ایک وزارت دینے کی بات کہی گئی جسے جے ڈی یو نے قبول نہیں کیا ہے اور اس نے مرکزی کابینہ میں شمولیت سے گریز کیا ہوا ہے ۔ جے ڈی یو کا کہنا ہے کہ وہ ساری معیاد کے دوران این ڈی اے حکومت کا حصہ نہیں بنے گی ۔ یہ ایک طرح سے این ڈی اے اتحاد میں اختلافات کا آغاز ہے ۔ بہار میں ایل جے پی کے رام ولاس پاسوان بھی این ڈی اے کا حصہ ہیں اور بی جے پی نے انہیں بھی ایک وزارت سونپی ہے ۔
لوک سبھا انتخابات سے قبل جو ماحول ملک میں دیکھا جا رہا تھا اس میں خود بی جے پی کو یہ اندیشے لاحق ہوگئے تھے کہ شائد وہ اپنے بل پرا قتدارحاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی ۔ یہی خیال بی جے پی کی حلیف جماعتوں کا بھی تھا اور وہ بھی جماعتیں بھی ایسا ہی سوچ رہی تھیں جو این ڈی اے یا یو پی اے میں کسی اتحاد کا حصہ نہیں تھیں۔ ان جماعتوں کو امید تھی کہ معلق پارلیمنٹ کی صورت میں ان کی سیاسی اہمیت میں اضافہ ہوجائیگا تاہم صورتحال یکسر بدل گئی ہے جب بی جے پی کو اپنے بل پر اکثریت حاصل ہوگئی ہے ۔ بی جے پی کی واضح اکثریت کا پہلا شکار جے ڈی یو ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔ شائد اس کے بعد دوسری جماعتوں کا بھی نمبر آئے گا اور انہیں بھی حاشیہ پرکردیا جائیگا ۔ آئندہ سال بہار اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں اور اس میں یہ دیکھنا ہوگا کہ ریاست میں این ڈی اے کا اتحاد کس حد تک مستحکم رہ سکتا ہے ۔ جے ڈی یو کے بعدشیوسینا بھی وہ پارٹی ہے جس سے اتحاد کیلئے امیت شاہ نے از خود کوشش کی تھی اور انہوں نے خود جا کر ادھو ٹھاکرے سے ملاقات کی تھی ۔ مہاراشٹرا میں بھی جاریہ سال ہی اسمبلی انتخابات ہونیو الے ہیں اور شائد اس وقت تک شیوسینا کو ناراض کرنے کی بی جے پی متحمل نہیںہوسکتی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس پارٹی کے ساتھ بی جے پی کا ہنی مون اب تک درست اور دونوں جماعتوں کیلئے قابل قبول ہی دکھائی دیتا ہے ۔
بی جے پی میں اکثریتی رائے سے جو صورتحال پیدا ہوتی جا رہی ہے وہ یقینی طور پر این ڈی اے کی حلیف جماعتوں کیلئے مشکلات اور پریشانیوں کا باعث ہوسکتی ہیں۔ جے ڈی یو کی بہار میں طاقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی مہاراشٹرا میں شیوسینا کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم بی جے پی ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں تو دور کی بات ہیں خود اپنی حلیف جماعتوں کو بھی برداشت کرنے تیار نہیں ہے اور وہ اپنے اکثریتی زعم میں ان جماعتوںکو بھی حاشیہ پر لانے سے گریز نہیں کریگی ۔ اس صورتحال میں ان جماعتوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے جو بی جے پی کے ساتھ ہیں اور انتخابات میں کامیاب بھی رہی ہیں لیکن ان کا مستقبل بی جے پی کے رویہ کی وجہ سے محفوظ نظر نہیں آتا اور اس پر ان جماعتوں کو سوچنا ضرور پڑسکتا ہے ۔