این جی ٹی احکامات کے خلاف درخواست۔ سرکاری اراضی پر مذہبی تقاریب کے متعلق سنوائی دستوری بنچ کریگی

جسٹس آر ایف نریمن اور اندو ملہوترہ کی بنچ نے پٹیشن کی آمد سے قبل یہ سونچتے تھے کہ عوامی مقامات پر اس طرح کی مذہبی سرگرمیاں انجام نہیں دئے جانے چاہئے۔

جسٹس نریمن نے درخواست گذار کے وکیل فضیل ایوبی سے کہاکہ ’’ ہم سمجھتے ہیں کہ این جی ٹی نے جو کیا ہے وہ بہتر کام ہے‘‘
نئی دہلی۔ جمعہ کے روز سپریم کورٹ نے ہندوستان جیسے سکیولر ملک میں سرکاری اراضیات یا ملکیت پر مذہبی سرگرمیوں کی اجازت کا فیصلہ اب دستوربنچ کے سپرد کردیا ہے۔

یہ سوال اس وقت پیدا ہوا جب نیشنل گرین ٹریبونل( این جی ٹی) نے ساوتھ دہلی کے ایک پارک میں ’جاگرن‘ اور ’ماتا کی چوکی‘ کی اجازت نہ دینے کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیاگیاتھا.۔

جسٹس آر ایف نریمن اور اندو ملہوترہ کی بنچ نے پٹیشن کی آمد سے قبل یہ سونچتے تھے کہ عوامی مقامات پر اس طرح کی مذہبی سرگرمیاں انجام نہیں دئے جانے چاہئے۔ جسٹس نریمن نے درخواست گذار کے وکیل فضیل ایوبی سے کہاکہ ’’ ہم سمجھتے ہیں کہ این جی ٹی نے جو کیا ہے وہ بہتر کام ہے‘‘۔

ایوابی کا کہنا ہے کہ ان کی موکل جیوتی جاگرن منڈل اسی پارک میں پچھلے چالیس سال سے جاگرن منعقد کرتے آرہے ہیں۔ا

نہوں نے اپنی درخواست میں کہاکہ’’ یہ صرف سال میں ایک مرتبہ اسی پارک میں ہوتا ہے۔ سابق میں کبھی بھی اس قسم کی روک نہیں لگائی گئی‘‘۔یہ بھی کہاکہ ’ماتا کی چوکی‘ بھی ’رام لیلہ‘ کی طرح ہی ہوتی ہے‘ وکیل نے اپنے لیٹر میں این جی ٹی کی جانب سے 10اکٹوبر 2017کو دی گئی منظوری کا بھی حوالہ دیا۔

مذکورہ تنظیم کا کہنا ہے کہ این جی ڈی نے قومی راجدھانی کی مایا پوری علاقے کے لاجوانی میں واقع چنچل پارک میں بھی مذہبی رسومات کی انجام دہی کے لئے منظوری دی ہے۔

مگر بعد میں دستبرداری اختیار کرتے ہوئے سڑک پر کرنے کے لئے مجبور کیاگیا۔پھر جسٹس ملہوترہ نے مشورہ دیا کہ کسی ہوٹل کے اندر یہ تقریب منعقد کریں۔

جسٹس نریمن نے مزیدکہاکہ’’ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک دستور مسئلہ ہے‘ اور میرا ماننا ہے کہ دستور کے مطابق اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔

ہم اس کو دستور بنچ کوروانہ کررہے ہیں اور چیف جسٹس پر یہ معاملے چھوڑ دیتے ہیں‘‘۔ عدالت نے سوالات کے ذریعہ معاملے چیف جسٹس کے پاس روانہ کردیا تاکہ دستوری بنچ کی تشکیل عمل میں لائی جاسکے