این آر سی ‘ محتاط اور منصفانہ ہونا چاہئے

آسام میں شہریت کے معاملے کے متعلق یہ ایک متوازن عمل بھی ہونا چاہئے
پیر کے روزشہریوں کے قومی رجسٹرار قطعی مسودے کے اجرائی عمل میں آچکی ہے۔بنیادی طور پر یہ عمل آسام میں ہندوستانی شہریوں کی زمرہ بندی پر مشتمل ہے‘ اس کو سپریم کورٹ کے احکامات پر منعقد کیاگیا ہے‘ مگر آسام کی سرگرم سیاست میں اس کی جڑیں پیوست ہیں۔

بڑے پیمانے پر مقامی سزائیں مقامی آسامیوں کے ریاست میں لیگل ایمگریشن ریاست کے جغرافیائی صورت گری اس کی سیاست کی پیوندکاری کاسبب بن سکتی ہے۔اس کا قیام 1980کے دہے میں طلبہ کے احتجاج کی وجہہ سے عمل میں آیا جس کو مخالف ایمگریشن مہم کانام دیا گیا ‘ پھر اس کے بعد 2016میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی نے ریاست میں مہم چلاتے یوئے وعدہ کیاتھا کہ بیرونی لوگوں کو نکال دیں گے۔

خاص توجہہ بنگلہ دیش سے ائے مسلم تارکین وطن رہا ہے۔اس پس منظر میں این آر سی اپنے قسم کا ایک ایسی کوشش ہے جس کو باریک بینی کے ساتھ انجام دیا جانے والا دستاویزی عمل کہاجاتا ہے تاکہ ریاست کے شہریوں کی ایک فہرست تیار کی جاسکے۔

اس عمل سے آسام میں الجھن پیدا ہوگئی ہے‘ جہاں پر کئی لوگوں کو شواہد کی کمی کے سبب اپنی شہریت کے ختم ہوجانے کا خدشہ لاحق ہوگیاہے‘ بالخصوص اقلیتیں جنھیں شبہ پیدا ہوگیا ہے کہ بنگلہ دیشیوں کو ہٹانے کی چکر میں کہیں انہیں تو شہریت سے محروم نہیں کردیاجائے گا۔پیر کے روز جاری کردہ فہرست میں ریاست کی 32ملین آبادی میں چار لاکھ لوگوں کے ناموں کو ہٹانے کی بات سامنے ائی ہے۔

مگر حکومت نے فوری طور پر یہ ظاہر کردیا کہ اس کو قطعی فہرست تصور نہ کیاجائے ‘ اس مطلب یہ ہوا کہ جن چا ر لاکھ لوگوں کا فہرست میں نام شامل نہیں کیاگیا ہے وہ خود کو غیرقانونی تارکین وطن نہ سمجھیں۔

انہیں اپنے دستاویزات پیش کرنے کا موقع فراہم کیاجائے گا ‘ او ریہاں تک کہ قطعی فہرست جای ہوگئے اس سے قبل انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے قانونی موقع بھی ملے گا۔