این آر آئیز کے دیگر مسائل

کے این واصف
این آر آئیز کے عام مسائل جیسے ملازمت، کفیلوں کا پریشان کرنا، تنخواہ کا حاصل نہ ہونا ، حروب وغیرہ جیسے قانونی شکنجوں میں پھنسا دیا جانا وغیرہ وغیرہ جیسے مسائل میں این آر آئیز تنظیمیں اور کسی حد تک ہمارا سفارتخانہ این آر آئیز کی مدد کرتا اور ان کے مسائل حل کراتے ہیں لیکن این آر آئیز ہوں یا دیگر تارکین وطن ان کے صرف یہی مسائل نہیں ہوتے کیونکہ کسی نئے ملک میں ملازمت حاصل کرلینا، پیسہ کمالینا ، بچوںکی پرورش کرلینا ، زمین جائیداد بنالینا انسان کی زندگی میں بہت کچھ ہے لیکن سب کچھ نہیں۔ انسان کیلئے اس کا دین ، اس کی زبان ، اس کی تہذیب ، رسم و رواج ، سماجی اقتدار یہ سب کی زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔ اپنے وطن سے دور رہنے والوں میں یہ مسئلہ عام ہوتے ہیں۔ یہاں کی کچھ سماجی تنظیمیں اس جانب توجہ کرتی ہیں اور این آر آئیز اور یہاں پر وان چڑھنے والی نئی نسل کو اپنے دین ، اپنی زبان ، تہذیب ، تاریخ ، روایات سے واقف کرانے کیلئے مختلف پروگرامس ترتیب دیتی ہیں۔ پچھلے دنوں ہندوستانی بزم اردو ریاض ، بزم اردو ٹوسٹ ماسٹرز کلب ریاض ، سکسیس انٹرنیشنل اسکول ریاض ، ادارئے ’’ہدف‘‘ دمام اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز اسوسی ایشن ریاض نے اس سلسلے کے کچھ پروگرامس کا انعقاد عمل میں لایا جس میں معروف اسکالرز کے لکچرس کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ماہ رمضان کی مناسبت سے یہ لکچرز دینی موضوعات پر رکھے گئے تھے ۔ ان لکچرس کی روداد قارئین کی معلومات کیلئے یہاںپیش کی جارہی ہیں۔ پہلے لکچر کا عنوان ’’قرآن کی روشنی میں روزہ اور تقویٰ تھا جس کی روداد اس طرح ہے۔

قرآن کی روشنی میں روزہ اور تقویٰ
ہندوستانی بزم اردو ریاض اور بزم اردو ٹوسٹ ماسٹرز کلب ریاض ہر سال رمضان میں مشترکہ طور پر ایک محفل معہ طعام سحری کا اہتمام کرتا ہے جس میں کسی دینی اسکالر کو لکچر کیلئے مدعو کیا جاتا ہے ۔ امسال بزم نے مولانا صلاح الدین خالد کو مدعو کیا جس میں مولانا خالد نے ’’روزہ اور تقویٰ قرآن کی رو شنی میں‘‘ کے عنوان پر مخاطب کیا ۔ مولانا خالد کئی برس سے Understand Quranian.com نام سے قائم ایک ویب سائیٹ پر قرآن فہمی پر درس دیتے ہیں۔ ایک مقامی ریسٹورنٹ کے ہال میں منعقد اس محفل میں ڈاکٹر حفظ الرحمن نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی ۔ محفل کا آغاز مصطفیٰ تقی الدین کی قرات کلام پاک سے ہوا جس کے بعدانجنیئر احسان احمد (دمام) کے نعت مبارکہ پیش کر نے کی سعادت حاصل کی ۔ ناظم محفل تقی الدین میر کے ابتدائی کلمات کے بعد صدر ہندوستانی بزم اردو ریاض نے خیر مقدم کرتے ہوئے کہاکہ اردو زبان میں بہت بڑا دینی سرمایہ موجود ہے۔ نئی نسل اردو سے دور ہوکر بالواسطہ طور پر دین سے بھی دور ہوگئی ۔ انہوں نے کہا کہ بزم اردو کا مقد اردو زبان کی ترقی و ترویج اور نئی نسل میں اردو زبان کا منتقل کرنا ہے تاکہ ہماری نئی نسل اپنی مادری زبان سے واقف ہو اور ہمارے دینی سرمایہ کی حفاظت ہو۔

صلاح الدین خالد نے سلائیڈز کی مدد سے لکچر دیتے ہوئے کہا کہ روزہ تقویٰ کی منزل کا راستہ ہے اور تقویٰ اختیار کرنا عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ مولانا خالد نے کہاکہ اللہ کی نافرمانی اور عذاب کے پر خار راستہ سے بے ضرر نکلنے کا نام تقویٰ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا صرف اہل کتاب یا اہل قرآن ہوجانا کافی نہیں۔ قرآن کتاب ہدایت ہے اور ہدایت انہیں کو حاصل ہوتی ہے جو قرآن سے رجوع ہوتے ہیں۔ اسے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مولانا خالد نے کہا کہ قرآن کی روشنی میں متقی وہ ہیں جو نماز قائم کریں، اللہ نے ہمیں جو کچھ عطا کیا ہے چاہے وہ مال و متع ہو ، صلاحیت و قابلیت ہو یا طاقت و توانائی ۔ اللہ کی ان نعمتوں کو فراخدلی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ، اللہ کی کتابوں پر اور اس کے بھیجے رسولوں اور انبیاء علیہ السلام پر ایمان لانا اور بغیر شک و شبہ ان پر یقین کامل رکھنا ، زبوں حالی ہو کہ خوش حالی صبر کا دامن تھامے رکھنا اور ہر صورت میں اللہ کی راہ میں مال کا خرچ کرنا ۔ مولانا خالد نے کہا کہ روزِ جزاء و سزا کا خوف اور آخرت کی زندگی پر یقین ہی ہمیں تقویٰ والا یا متقی بناتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ غلطی پر نادم ہونا اور توبہ طلب کرنا بشریت ہے اور غلطی پر اڑنا شیطانیت ہے۔ تقویٰ ہمیں فرشتوں سے افضل کرے گا اور نافرمانی شیطان سے بدتر بنائے گی۔

ڈاکٹر سعید محی الدین صدر بزم اردو ٹوسٹ ماسٹرز کلب نے اپنے مختصر خطاب میں کہاکہ کلب اردو والوں میں خود اعتمادی ، فن خطابت اور قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرنے کی تربیت دیتا ہے ۔انہوں نے نوجوانوں کواس کلب سے جڑنے کی خواہش کی۔
ڈاکٹر حفظ الرحمن اعظمی نے کہا کہ حدیث کی رو سے قرآن کو سمجھنا اور اس علم کو دوسروں تک پہنچانا سب سے افضل عمل ہے ۔ ہندوستانی بزم اردو ریاض اور ٹوسٹ ماسٹرز کلب ریاض اس طرح کی محافل کا اہتمام کر کے ایک کار خیر انجام دے رہا ہے ۔ ڈاکٹر اعظمی نے کہا اکہ قرآن نثر کا ایک لاثانی شاہکار ہے ۔ اسلام ایک آفاقی دین ہے اور قرآن ساری دنیا کیلئے ایک ہدایت کی کتاب کے طور پر نازل کی گئی ۔ یہ صرف مسلمانوں کی ہدایت کیلئے نہیں اتاری گئی ۔ یہ پیام دنیا میں عام ہونے کی ضرورت تھی ۔ انہوں نے کہا کہ عروج و زوال ، ترقی و تنزل سب اللہ کے فیصلے ہوتے ہیں۔ دنیوی طاقتوں اور ظاہری اسباب ہمیں فائدہ یا نقصان پہنچاسکتے ہیں، والی سوچ ہمیں شرک جیسے گناہِ عظیم کی طرف لے جاتی ہے۔ ہمارا یقین کامل صرف اور صرف اللہ کی ذات میں ہونا چاہئے ۔ اعظمی نے کہا کہ تنگ نظری آج مسلمانوں میں عام ہوگئی ہے۔ یہ ہمارے ایمان و یقین کو خطرہ میں ڈال رہی ہے اور انتہا پسندی کی بنیاد پر تنگ نظری ہے۔ اعظمی نے مزید کہا کہ آج کی عام سماجی برائی والدین کا حق ادا نہ کرنا ہے ۔ اپنی کمائی میں والدین کا حصہ ہونا چا ہئے ، یہ تصور ہی ختم ہوتا جارہا ہے ۔ یہ چیز ہمارے اسلامی تعلیمات کے عین خلاف ہے اور یہ ایک بڑی سماجی برائی ہے جو عام ہوگئی ہے ۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ نبی کریمؐ نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں کہا تھا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اور دوسرا میرا عمل ۔ ہم آج ان دونوں چیزوں سے دور ہوکر دنیا میں خوار ہورہے ہیں۔
اس محفل میں مختلف تنظیموں کے ارا کین اور کمیونٹی کے افراد کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور آخر میں تقی الدین میر نے شکریہ ادا کیا اور طعام سحری پر محفل کا اختتام عمل میں آیا ۔ دوسرے لکچر کی روداد اس طرح ہے۔

نبیؐ رحمت کا نظام تربیت
این آر آئیز کے استفادہ کیلئے سکسیس انٹرنیشنل اسکول ریاض اور ادارے ’’ہدف‘‘ دمام نے ایک لکچر کا اہتمام کیا جس میں معروف اسکالر نعیم جاوید نے ’’نبیؐ رحمت کا نظام تربیت‘‘ کے عنوان پر خطاب کیا ۔ اس محفل میں ڈاکٹر شوکت پرویز پرنسپل انٹرنیشنل انڈین اسکول ریاض نے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی ۔ مینجنگ ڈائرکٹر سکسیس انٹرنیشنل اسکول نگران جلسہ رہے ۔ ’’نبیؐ رحمت کے نظام تربیت‘‘ کے عنوان پر مخاطب کرتے ہوئے نعیم جاوید نے کہا کہ نبیؐ کے بعد 300 سال تک بھی دنیا کو بھی ہی سکھایا گیا جو نبیؐ رحمت کی تعلیمات تھیں۔ انہوں نے کہاکہ ہماری صفوں میں بگاڑ اس وقت سے شروع ہوا جب ہم نے ہماری دینداری کو ہماری دنیا داری سے الگ کیا ۔ یہی ہمارے زوال کا سبب بنا۔ نعیم جاوید نے کہاکہ نبیؐ کی تربیت میں کہیں دشمنی اور نفرت نہیں ملتی ۔ آپؐ نے ہمیشہ عفو و درگزر سے کام لینے کی تلقین کی۔ نبیؐ کے ہمیں یہ سکھایا کہ ہم مخالف کی ناراضگی اور غصے کی وجہ جاننے کی کوشش کر کے اسے دور کریں ناکہ خود بھی جوش یا غصہ کا اظہار کریں لیکن امت مسلمہ میں آج دشمنی اور نفرت کا جذبہ ہی سب سے آگے ہے ۔ یہی برائی نے ہمارے آپسی اتحاد کو پارہ پارہ کیا ہے ۔ ہمارا عدم اتحاد ہماری کمزوری بنی اور اغیار ہم پر غالب آگئے۔ انہوں نے کہاکہ نبیؐ اکرم کی تربیت میں ذہنی تربیت ، نفسی تربیت ، اخلاقی تربیت ، دشمن پر غالب آنے کی تربیت ، اپنے دفاع کی تربیت ، مال کمانے کی تربیت ، مال خرچ کرنے کی تربیت بزرگوں کے تعظیم کی تربیت ، بچوں پر شفقت کی تربیت ، غرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کیلئے ہمیں کسی اور کی طرف دیکھنے کی ضرورت پڑے۔

نعیم جاوید نے کہا کہ ہمارے نبیؐ مہمات والے نبی تھے ، ہمارے نبیؐ غزوات والے نبی تھے ، ہمارے نبیؐ راہ حق پر اڑجانے والے اور باطل سے لڑجانے والے نبی تھے ۔ لیکن ہمارے ادباء و شعراء نے اپنی تخلیقات میں ان حقائق کو ایسا نہیں ابھارا جیسا اس کا حق تھا ۔ ہمارے ادب نے ہمیں اس بات پر زور دے کر نہیں بتایا کہ بھوک ، پیاس کی شدت ، مسائل کا انبار اور محدود وسائل کے ساتھ جینا سکھایا گیا ۔اس کے تذکرے ہماری کتابوں میں ہمارے نصابوں میں جابجا ہونے چاہئے تھے تاکہ امت کے ذہن میں یہ احساس ہمیشہ تازہ رہے کہ دین اسلام کی بقاء اور اشاعت کیلئے نبیؐ رحمت اور صحابہؓ کرام نے کیسے کیسے مسائل و مصائب کا سامنا کیا اور کیسے کیسے تکالیف اور مظالم سہے۔

اس محفل کی نظامت راقم الحروف نے کی اور کلیدی مقرر نعیم جاوید کا تعارف پیش کیا جس کے بعد ڈاکٹر سید مسعود نے خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس لکچر کا اہتمام ایک تعلیمی ادارے کی جانب سے کیا گیا ہے اور اسی مناسبت سے اس کا عنوان منتخب کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے لکچرز کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا ۔ ڈاکٹر شوکت پرویز نے کہاکہ نعیم جاوید ایک بہترین اینکر ہونے کے علاوہ قادر الکلام مقرر ہیں۔ جب وہ بولتے ہیں تو لگتا ہے فصاحت و بلاغت کا دریا بہہ رہا ہے۔ سیرت النبی نعیم جاوید کا محبوب مضمون ہے ۔ آج کے عنوان پر ان کا خطاب بہت پراثر اور سامعین کیلئے معلومات سے بھرپور تھا۔ ڈاکٹر شوکت نے سکسیس اسکول انتظامیہ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ نہایت عمدہ موضوع پر خطاب کیلئے ایک مناسب ترین شخصیت کا انتخاب کیا ۔ اس محفل میں کمیونٹی کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ نو عمر طالبہ ام عمارہ اور ہمنوا نے برما کے مسلمانوں سے متعلق ایک پر اثر نظم پیش کی ۔ ابتداء میں اسامہ مسعود نے مہمانان کو گلدستے پیش کئے ۔ اسی رمضان میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز اسوسی ایشن ریاض نے بھی دعوت افطار کے ساتھ ایک لکچر کااہتمام کیا تھا جس میں معروف اسلامی اسکالر برادر شفیع کو مدعو کیا گیا تھا جن کا تعلق حیدرآباد سے ہے ۔ برادر شفیع نے ’’مثبت سوچ اور خوش اخلاقی‘‘ پر لکچر دیا ۔ بہرحال ماہ رمضان میں ہر سال کی طرح یہاں مقیم ہندوستانی تارکین وطن کیلئے سماجی تنظیموں کی جانب سے ان لکچر کا اہتمام کر کے دینی و سماجی مسائل پر اسکالرز کو سننے اور مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا گیا۔
knwasif@yahoo.com