کے این واصف
خلیجی ممالک میں برسرکار این آر آئیز کی کارکردگیاں ، ان کے کارنامے ، ان کے اعزامات حاصل کرنا ، ان کی وطن پرستی ، ان کا خلیجی ممالک میں اپنی محنت اور دیانتداری سے ملک کا نام روشن کرنا ، ملک کے معاشی استحکام میں ان کا اہم رول ، ان کی سماجی خدمات وغیرہ وغیرہ جیسی باتوں کا ذکر ہم نے اس کالم میں متعدد بار کیا ہے اور کتے رہیں گے ۔ این آر آئیز کی ایک اور قابل ذکر خدمت ہے وہ ہے قلم کی خدمت، خلیجی ممالک میں اردو کی ترقی و ترویج میں ان کا حصہ۔ آج ہم این آر ائیز کی اس قلمی خدمت پر تفصیلی روشنی ڈالنا چاہیں گے ۔ خلیجی ممالک میں 80 لاکھ سے زائد ہندوستانی برسرکار ہیں جن کا تعلق ملک کی مختلف ریاستوں سے ہے جو سماج کے ہر طبقہ کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔ خلیج میں ہندوستانیوں کی اس بڑی آبادی میں فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے بھی شامل ہے اور یہ لوگ غم روزگار سے فراغت ملے تو اپنے اندر کے فنکار کو بھی وقت دیتے ہیں اور اپنی تسکین کا سامان کرتے ہیں جن میں ہر زبان کے ادیبوں اور شاعروں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے ۔ یہ ادباء و شعراء اپنی تخلیقات کے مجموعے بھی شائع کرواتے ہیں۔ ان میں سب سے آگے اردو کے ادیب و شاعر ملیں گے ۔ پچھلی نصف صدی میں خلیجی ممالک میں مقیم اردو ادیبوں اور شاعروں کے ہزاروں مجموعے شائع ہوئے ہوں گے اوران میں ایک کتاب بھی ایسی نہیں رہی ہوگی جس کے فروخت ہوکر کم از کم طباعت کے اخراجات ہی نکل آئے ہوں۔ اردو کی کتابیں صرف احباب میں تبرک کی طرح تقسیم ہوتی ہیں ۔ کتابوں کی اشاعت کی بات پر ہمیں کوئی پندرہ بیس سال قبل سنا ایک واقعہ یاد آیا ۔ یہاں ایک شاعر ہوا کرتے تھے جن کا نام اقبال فرید میسوری تھا ۔ اچھے شاعر تھے ۔ دمام میں ایک Shipping کمپنی میں کام کرتے تھے ۔ انہوں نے اپنا ایک مجموعہ شائع کروایا تھا جو بڑا دیدہ زیب اور ضخیم تھا ۔ ان کی کمپنی کا جنرل مینجر ایک برطانوی باشندہ تھا ۔ فرید میسوری نے اپنے مجموعہ کا ایک نسخہ اپنے مینجر کو تحفتاً پیش کیا ۔ اس نے اس خوبصورت اور ضخیم کتاب کو دیکھ کر کہا ، مسٹر اقبال تم اب اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے دو گے ۔ اس پر انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ میں ایسا کیوںکر کروں گا تو عہدیدار نے کہا اتنی خوبصورت اور ضخیم کتاب کیلئے تمہیں لاکھوں ریال رائلٹی ملی ہوگی تو پھر اب ملازمت کی کیا ضرورت رہے گی۔ اب تم گھر بیٹھ کر مزید کتابیں لکھ سکتے ہو اور پیسہ کماسکتے ہو۔ اس پر فرید میسوری مسکرا کر خاموش ہوگئے ۔ وہ بے چارے اپنے Boss کو کیا بتاتے کہ یہ مجموعہ شائع کرواکر تو الٹا زیر بار ہوئے ہیں ۔ ہر حال یہ اردو معاشرے کی روایت ہے کہ کتاب شائع کرواؤ اور اسے فاتحہ کی شیرینی کی طرح تقسیم کرو۔ اب اس روایت کے بدلنے کی کوئی امید بھی نظر نہیں آتی۔ اس سب کے باوجود ہمارے ادباء و شعراء اپنے مجموعے شائع کروا رہے ہیں ۔ اللہ ان ہیں مزید زر و زور عطا کرے۔
بھاری تعداد میں نشر یا شعری مجموعوں کے شائع ہوئے کا یہ سلسلہ پچھلے 30 ، 40 سال میں زیادہ رہا ہے ۔ اس کی بڑی وجہ پرٹنگ ٹکنالوجی کی ترقی سے پیدا ہوئی، آسانیاں یعنی اب اس میدان میں صرف ’’نول کشور‘‘ کی اجارہ داری نہیں رہی ۔ آج جگہ جگہ عصری رپٹنگ پریس قائم ہیں جواب دنوں کا کام گھنٹوں میں کرسکتے ہیں اور ایک اہم بات یہ کہ اب ہمارے شعراء کا معاشی قافیہ تنگ نہیں رہا ورنہ اگلے کے شاعر تو یہ کہتے تھے ۔
یہ پراگندہ ہے جو کچھ بھی غنیمت ہے صفیؔ
میں غریب آدمی دیوان کہاں سے لاؤں
اردو کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں یا مفت تقسیم ہوتی ہوں اس سے قطع نظر یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ ایک ایسے دور میں جب اردو کی مقبولیت میں بتدریج کمی آرہی ہے ۔ اردو والے اپنی زبان سے خود دور ہوتے جارہے ہیں ، ایسے دور میں اردو کی کتابیں بڑی تعداد میں شائع ہورہی یہ اہم بات ہے جس کے کچھ مثبت اثرات ہماری زبان پر مرتب ہورہے ہیں ۔ اس لئے کہ جب کتاب چھپتی ہے تو اس کی ڈیزائننگ اور پرنٹنگ اردو جاننے والوں کے ہاتھوں ہو یا نہ ہو مگر کتاب کی کمپوزنگ تو اردو والے ہی کریں گے اور جب ہزاروں ، لاکھوں کی تعداد میں اردو کتابیں شائع ہوں گی تو اردو کمپوزنگ کرنے والوں کو روزگار ملے گا ۔ یعنی اردو کے حق میں یہ ایک خوش آئند بات ہوئی کہ اردو زبان کچھ لوگوں کیلئے آمدنی کا ذریعہ بن رہی ہے ۔ یعنی جو لوگ Pre-Press خدمات انجام دیتے ہیں یا خود اپنے پرنٹنگ پریس قائم کئے ہوئے ہیں، انہیں مسلسل کام مل رہا ہے۔ادیب و شاعر اپنے مجموعے شائع کرواکر بے شک خود زیر بار ہورہے ہیں مگر اس عمل سے ہزاروں افراد کو روزگار حاصل ہورہا ہے ۔ اردو والوں کیلئے یہ روزگار پیدا کرنے میں غیر مقیم ہندوستانیوں کا بڑا حصہ ہے۔ سعودی عرب یا سارے خلیجی ممالک میں برسرکار ادیب و شعراء نے اپنے مجموعے شائع کروائے یا یہاں اردو کی ترقی و تر ویج میں کام کرنے والی این آر آئیز کی انجمنوں اور کچھ اہل خیر انفرادی لوگوں نے وطن کے کئی شعراء یا ادیبوں کو ان کے مجموعے کلام شائع کروانے کیلئے مالی اہانت کی اور ان ادبی انجمنوں ، صاحب خیر حضرات ، ادباء و شعراء کی تعداد کوئی معمولی نہیں ہے۔ یعنی اس شعبہ میں بھی غیر مقیم ہندوستانیوں کی قابل قدر خدمات ہیں۔ ہم نے جب این آر آئیز اور ان کی خدمات پر لکھنے کا ارادہ کیا تو ہم نے سوچا کہ پہلے کم از کم ان ادباء و شعراء کے ناموں کی فہرست تیار کرلیں جو سعودی عرب میں ہیں یا یہاں رہے ہوں اور اپنے مجموعے شائع کروائے ۔ پھر خیال آیا کہ ایسی مکمل فہرست یا بڑی حد تک مکمل فہرست تین تنہا تیار نہیں کی جاسکتی ۔ لہذا ہم نے اپنے چند احباب و کرم فرماؤں سے رابطہ کر کے ان ادیبوں اور شاعروں کے نام جمع کئے جو سعودی عرب میں ہیں یا رہے ہیں اور اپنے مجموعے شائع کروائے ہیں۔ یقین جانیئے کہ ہمارے صرف چار دوستوں جن میں محمود شاہد ، محترمہ عذرا نقوی ، نعیم جاوید اور خورشید الحسن نیر شامل ہیں نے اتنے نام لکھ بھیجے کہ سارے نام ہم یہاں لکھنے سے قاصر ہیں کیونکہ اگر وہ سارے نام یہاں لکھ دیئے جائیں تو مضمون میں کچھ اور لکھنے کی گنجائش باقی نہیں رہے گی لیکن ان سارے ادباء اور شعراء کی فہرست ہمارے پاس محفوظ ہے جسے کسی دیگر مناسب موقع پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں صرف سعودی عرب کے ادیب و شعراء نے اپنے مجموعے شائع کروائے تو سارے خلیجی ممالک میں کتنے مجموعے شائع ہوئے ہوں گے اور اس سے اردو سے جڑے لوگوں کو کتنا مالی فائدہ پہنچا ہوگا ۔ یہ صرف چند سو ادیب و شعراء اور کچھ ادبی انجمنوں کی کاوشوں سے ممکن ہوسکا ۔ اب آپ اندازہ کریں کہ اگر تمام اردو بولنے والے اپنی انفرادی حیثیت میں اپنی زبان کی بقاء و ترقی میں اپنا حصہ ادا کریں تو ہماری زبان کا کتنا فائدہ ہوسکتا ہے ۔ یہ انفرادی حیثیت میں زبان کی خدمت میں اپنا حصہ ادا کرنے کی بات پر مزید روشنی ڈالنے سے قبل ہم یہاں ایک قابل تقلید وہ قابل ستائش واقعہ کا ذکر کریں گے ۔ حیدرآباد کے معروف صحافی و بانی روزنامہ ’’منصف‘‘ جناب محمود انصاری مرحوم نے کسی موقع پر گفتگو کے دوران ایک واقعہ بیان کیا تھا جو یوں تھا کہ ایک مرتبہ انصاری صاحب بمبئی میں سعودی قونصلیٹ کے سامنے فٹ پاتھ پر کسی کے انتظار میں کھڑے تھے ۔ سامنے ایک عورت زمین پر بیٹھے انگور فروخت کرر ہی تھی ۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک ہاکر (اخبار بیچنے والا) آیا اور ایک ملیالی زبان کا اخبار اسے دیا اور پیسے لیکر چلا گیا ۔ انگور والی نے اخبار دیکھے یا پڑھے بغیر اسے انگور کی ٹوکری کے نیچے رکھ دیا ۔ کچھ دیر بعد جب ایک گاہک آیا تو عورت نے اس تازہ اخبار کے ایک صفحہ پھاڑ کر اس میں انگور باندھ کر دے دیا جس پر انصاری صاحب کو حیرت ہوئی کہ اخبار پڑھے بغیر اس نے تازہ اخبار ردی کاغذ کی طرح استعمال کیا ۔ انہوں نے انگور والی سے سوال کیا کہ تم نے اخبار خریدکر اسے پڑھے بغیر ہی ردی کاغذ کی طرح استعمال کر لیا ۔ جواب میں عورت نے کہا کہ مجھے پڑھنا نہیں آتا ۔ مگر میں اخبار اس لئے خریدتی ہوں کہ یہ میری زبان کا اخبار ہے اور میں اپنی کمائی سے کچھ پیسہ اپنی زبان پر خرچ کرنا اپنا فرض سمجھتی ہوں ۔ یہ جواب سن کر انصاری صاحب حیران رہ گئے۔
اگر ادو بولنے والوں میں بھی یہ جذبہ پیدا ہوجائے تو ہماری زبان کی بقاء اور ترقی یقینی ہوجائے گی ۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر اردو بولنے والا اپنی زبان کے تئیں اپنی انفرادی ذمہ داری محسوس کرے اور اپنا اخلاقی فرض ادا کرے ۔ انفرادی طور پر اپنی زبان کیلئے کچھ کرنے کی خاطر اخبار خریدنا سب سے سستا اور آسان طریقہ ہے اور یہ کام ہر اس شخص کو کرنا چاہئے جو اردو زبان بولتا ہے۔ اگر سارے ہندوستان میں جن کی مادری زبان اردو ہے وہ ہر روز اپنے علاقے سے شائع ہونے والا کوئی اخبار پابندی سے خریدنے لگیں تو ایک انقلاب بپا ہوجائے گا۔ اردو اخبارات کی تعداد اشاعت بڑھے گی تو اس کا ایک رنجیری رد عمل شروع ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ اخبار کی قدر و قیمت یا مقام اس کی تعداد اشاعت سے ہوتاہے ۔ تعداد اشاعت بڑھے گی تو اردو ذریعہ تعلیمی سے پڑھے افراد کو ملازمتیں ملیں گی ۔ اخبار کی اشاعت بڑھے گی تو اردو زبان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔ اخبار کی اشاعت بڑھے گی تو اردو اخبارات کی آمدنی بڑھے گی کیونکہ اخبار کو اشتہارات اس کی تعداد اشاعت اور عوامی مقبولیت کی بناء پر ملتے ہیں۔ اخبار کی اشاعت بڑھے گی تو اردو کی آواز گنبد کی گونج نہیں رہے گی بلکہ اس کی آواز ایوان اقتدار تک رسائی حاصل کرے گی اور اردو جب اقتدار کے ایوانوں میں گونجے گی تو ہمارے مسائل ، ہماری مانگیں ، ہماری شکایتیں اقتدار اعلیٰ تک پہنچیں گی اور یہ سارے فوائد حاصل کرنے کیلئے صرف ہر اردو بولنے والے کو روزانہ 6 روپئے کا اخبار اپنی مادری زبان کا ٹیکس سمجھ کر خریدنا ہوگا۔ اگر اردو والے اس تجویز سے اتفاق کرتے ہر روز اخبار خریدنے لگیں تو یہ بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ اردو کی ترقی کا گراف یکلخت اونچا ہوجائے گا اور اردو زبان کی قدر و منزلت اچانک بڑھ جائے گی اور جب اردو والوں کو اردو اخبار خریدنے کی عادت ہوجائے گی تو پھر وہ رسائل اور کتابیں بھی خرید کر پڑھنے لگیں گے ۔ اردو والوں کو اپنی زبان کی بقاء ، ترقی و ترویج کے سلسلہ میں جو دوسری انفرادی ذمہ داری نبھانا ہے وہ یہ کہ ہر فرد اپنے بچوں کو اردو پڑھنا لکھنا سکھائے اور نئی نسل میں اپنی زبان منتقل کرے ۔
’’ شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات‘‘
knwasif@yahoo.com