کے این واصف
سعودی عرب میں رہنے والے غیر مقیم ہندوستانی بچوں کے تعلیمی مسائل کے بارے میں اس کالم میں متعدد بار اور بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن آج جن مسائل پر ہم بات کرنے جارہے ہیں، وہ کچھ مختلف نوعیت کے ہیں۔ اس بات سے تو سارا ہندوستان واقف ہے کہ سعودی عرب میں نئے ٹیکسوں کے لاگو ہونے اور بجلی ، پانی اور پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ سے پریشان ہوکر خارجی باشندے بڑی تعداد میں مملکت سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔ لاکھوں تعدادمیں سعودی کو خیر باد کہنے والوں میں ہندوستانی باشندوں کی بھی بہت بڑی تعداد شامل ہے۔ یہاں سے جانے والوں میں اکثریت ان ملازمین کی جو کمپنیاں یا ادارے مالی بدحالی کا شکار ہوگئے جس کی وجہ سے ملازمین کو پچھلے کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں مل رہی تھیں اور مالی دشواریوں کا شکار کمپنیوں میں صرف چھوٹی کمپنیاں ہی شامل نہیں بلکہ ’’بن لادن گروپ‘‘ اور ’’سعودی اوجیر‘‘ جیسی بڑی تعمیراتی کمپنیاں بھی شامل ہیں جہاں ملازمین کو کئی کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ ایسی صورتحال میں خارجی باشندے یہاں رہ کر مقروض ہونے لگے ہیں۔ لہذا غیر ملکیوں کی ایک بڑی تعداد نے یہاں سے نقل مکانی کی ٹھان لی ۔ ان ملازمین نے مالی پریشانی کی وجہ سے اپنے بچوں کے اسکولس سے (School Leaving Certificate) یا TC حاصل کئے بغیر وطن چلے گئے ۔ ملک کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ان ہندوستانی باشندوں نے اپنے اپنے شہر میں ا پنے بچوں کو کسی طرح بغیر TC داخل کئے، اسکول میں داخلہ کرلیا ہوگا ۔ بتایا گیا کہ کیرالا کی ریاستی حکومت نے ریاست کے اسکولس کو ہدایت جاری کی کہ سعودی عرب سے لوٹنے والے بچوں کو اسکولس میں بغیر TC پیش کرے ۔ داخلہ حاصل کرنے کی اجازت دیں۔ اگر کیرالا حکومت نے ریاست کے اسکولس کو یہ ہدایت کی ہے کہ بغیر TC کے سعودی سے لوٹنے والے بچے اسکولس میں داخلہ حاصل کرسکیں تو یہ ان بچوں اور ان کے والدین کے حق میں تو اچھا ہے ۔ مگر دوسری طرف وہ اسکولس جن سے یہ بچے بغیر TC حاصل کئے یعنی اپنی واجب الادا فیس دیئے بغیر اسکول سے نکل گئے ہیں ، ان اسکولس کا تو بھاری نقصان ہوا اور کیرالا حکومت نے بغیر کسی خرچ کے عوام کی واہ وائی حاصل کرلی جبکہ یہاں بیسیوں اسکولس کا خسارہ اس سلسلے میں پچھلے دنوں معروف این آر آئی اور سابق صدر ہندوستانی بزم اردو ریاض آرکیٹکٹ عبدالرحمن سلیم نے سیاست ٹی وی چینل پر ایک مباحثہ میں حصہ لیتے ہوئے تلنگانہ حکومت سے خواہش کی تھی کہ وہ سعودی عرب سے آنے والے بچوں کو ریاست کے مقامی اسکولس میں داخلے کیلئے سعودی اسکول کی TC پیش کرنے کی پابندی سے مستثنیٰ کردے جس پریہاں انٹرنیشنل انڈین اسکول کی انتظامیہ کمیٹی کے رکن سلطان مظہر الدین نے سوشیل میڈیا پر اعتراض کیا ۔ انہوںنے کہا کہ سلیم صاحب کی حکومتِ تلنگانہ سے یہ خواہش سعودی عرب اسکولس کے فیس کے ناہندوں یا باقی داروں کی ہمت افزائی کر رہی ہے ۔ اگر لوگ اسکولس میں فیس ادا کئے بغیر یہاں سے چلے جائیں اور وہاں ریاستی حکومت ان بچوں کو TC پیش کرنے سے استثنیٰ دیتی ہے تو اس میں سراسر یہاں کے اسکولس کا نقصان ہے ۔ خصوصاً یہاں کے انٹرنیشنل اسکولس جوانڈین ایمبسی کی نگرانی میں چلتے ہیں ، ان کیلئے یہ نقصان نا قابل برداشت رہے گا کیونکہ یہ اسکولس کمرشیل بنیاد پر نہیں چلتے۔
اب ایک نظر یہاں کے اسکولس پر ، یہاں جن اسکولس میں سب سے بڑی طلباء کی تعداد سفارت خانوں کے زیر نگرانی چلنے والے اسکولس میں ہوتی ہے ، سفارت خانہ ہند کی نگرانی میں چلنے والے جملہ 12 اسکولس ہیں جو یہاں کے مختلف شہروں میں قائم ہیں۔ ان اسکولس میں بغیر فیس ادا کئے جانے والے طلباء کی وجہ سے صرف ایمبسی کے تحت چلنے والے اسکولس کو ایک اندازہ کے مطابق 75 لاکھ ریال سے زیادہ کا نقصان ہوگا جیسا کہ ہم نے بتایا کہ طلباء کی زیادہ تعداد ان ہی اسکولس میں رہتی ہے جو ایمبسی کی زیر نگرانی قائم ہیں ۔ صرف انٹرنیشنل انڈین اسکول ریاض میں طلباء کی تعداد تقریباً دس ہزار تھی ، جو اب گھٹ کر آدھی رہ گئی ہے ۔ جدہ اور دمام کے ایمبسی اسکولس میں تعداد ریاض سے بھی زیادہ تھی ۔ یہاں بھی بڑی تعداد میں طلباء کی تعداد گھٹی ہے ۔ یوں سمجھئے کہ یہاں کے ایمبسی کے تحت چلنے والے اسکولس اور کچھ خانگی انٹرنیشنل اسکولس جہاں طلباء کی یکلخت تعداد کے گھٹنے سے یہ اسکولس بری طرح متاثر ہوئے ۔کچھ خانگی اسکول تو تعداد گھٹنے کی وجہ سے بند بھی ہوگئے ۔ خارجی باشندوں کا مملکت چھوڑ جانے سے اسکولس کی تعداد گھٹی اور اسکولس کو کافی نقصان پہنچا اور بڑی تعداد میں طلباء کا بغیر TC لئے چلے جانا اسکول انتظامیہ کیلئے بڑا دھچکا ثابت ہوا ۔ یہاں کے حا لات ایسے ہی بنے رہے تو آئندہ سال اور بہت سے اسکولس بند ہوجائیں گے ۔ ان دنوں یہاں کے ایسے اسکولس جہاں کبھی اپنے بچوں کیلئے داخلہ حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا ، آج ان اسکولس میں داخلے کھلے پڑے ہیں۔
بہرحال یہاں کے اسکولس پچھلے دو تعلیمی سالوں سے متاثر ہیں اور ہر سال ان کی پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اگر خارجی باشندوں پر عائد ٹیکس میں ہر سال اضافہ کا سلسلہ یوں ہی رہا اور یہاں بڑھتی مہنگائی کا یہی حال رہا تو یہاں خارجی باشندوں کا (سوائے لیبر ، فنی اور نیم فنی مزدوروں کے) کچھ اور دن یہاں رہنا ممکن نہیں رہے گا ۔ لہذا اب ہندوستان کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ خلیجی ممالک سے لوٹنے والے این آر آئیز کی فلاح و بہبود اور بازآبادکاری کے سلسلے میں فوری مؤثر اقدام کرے ۔
انڈین انجنیئرز فورم
انڈین انجنیئرز فورم سعودی عرب نے ہفتہ کے روز اپنے قیام کی 20 ویں سالگرہ اور ’’انجنیئرز ڈے‘‘ کی تقریب شاندار پیما نے پر منائی ۔ سات ستارہ ہوٹل میں منعقد اس تقریب میں سفیر ہند احمد جاوید نے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی ۔ محفل کا آغاز انجنیئر ذوہیب احمد کی قراء ت کلام پاک سے ہوا ۔ انجنیئر ثاقب خاں نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ ہندوستانی انجنیئر سعودی عرب میں کام کرنے والے جملہ انجنیئرز کی تعداد کا 12 فیصد ہیں جنہوں نے مملکت کے تعمیراتی پراجکٹس پر اہم ذمہ داریاں نبھائی ہیں ۔ اس تقریب میں مملکت کے تمام شہروں میں قائم فورم کی شاخوں کے اراکین نے شرکت کی ۔ فورم کے بانی و چیرمین عامر خاں نے فورم کی دودہائیوں کے سفر پر روشنی ڈالی اور ان اراکین کا خصوصی طور پر ذکر کیا جنہوں نے فورم کیلئے اپنی گران قدر خدمات پیش کی ۔ انہوں نے چند ایک کے نام بھی لئے جن میں انجنیئر ناصر انصاری انجنیئر فیصل زین الدین اور انجنیئر فیصل سلیم شامل تھے ۔
اس موقع پر مخاطب کرتے ہوئے سفیر ہند احمد جاوید نے کہا کہ قابل ستائش ہیں انڈین انجنیئرز جنہوں نے ایک غیر ملک میں رہتے ہوئے بھی اپنا ایک فورم قائم کیا اور دو دہائیوں جیسے لمبے عرصہ سے اپنی ملازمت کے مصروفیت سے وقت نکال کر اپنی انجنیئرز برادری کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے فورم کو مشورہ دیا کہ وہ ویژن 2030 ء پروگرام سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے اس کے تحت آنے والے پروگرامس اور پراجکٹ سے انڈین انجنیئرز کیلئے پیدا ہونے والے مواقع سے فائدہ حاصل کر نے کی کوشش کریں۔ جاوید نے فورم کے مستقبل کیلئے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کتے ہوئے سعودی کونسل آف انجنیئرز سے خواہش کی کہ وہ انڈین انجنیئرز فورم کے ساتھ اپنے تعاون کے سلسلے کو اسی طرح جاری رکھیں ۔ ابتداء میں سفیر ہند احمد جاوید نے فورم کے میگزین "Spectrum” کی رسم اجراء انجام دی اور اس میگزین میں شائع معلوماتی مواد کی ستائش کی ۔ سفیر ہند نے حالیہ عرصہ میں منعقد ثقافتی میلے ’’جنادریہ‘‘ میں ہندوستان کی کامیاب نمائندگی کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہندوستانی سفارتخانہ 24X7 کی بنیاد پر ہندوستانی باشندوں کی مدد اور تعاون کیلئے تیار رہتا ہے ۔ سفیر ہند نے کیک کاٹ کر فورم کی 20 ویں سالگرہ کا افتتاح کیا ۔
اس موقع پر فورم کے اراکین کو ان کی گرانقدر خدمات کے اعتراف میں یادگاری مومنٹوز پیش کئے گئے ۔ یہ اعزاز حاصل کرنے والوں میں انجنیئر ندیم ترین ، انجنیئر بی ایس خاں ، انجنیئر ، فرحان ہاشمی ، انجنیئر ندیم علی ، انجنیئر اویس احمد ، انجنیئر امیتابھ سکسینہ اور انجنیئر محمد سعید الدین شامل تھے ۔ اس تقریب میں سعو دی کونسل آف انجنیئرز کے عہدیدار انجنیئر عبداللطیف الحرکان ، معروف ہندوستانی انجنیئر محمد مبین ، سعید محی الدین کے علاوہ ڈاکٹر دلشاد احمد اور ڈاکٹر شوکت پرویز بھی موجود تھے ۔
knwasif@yahoo.com